’’آپی آپ کیا کر رہی ہیں۔ آرام سے چلائیں ایکسیڈنٹ کروائیں گی کیا، آپي؟‘‘ ’’انعم، تم دھیان سے دیکھو، یہ صبح کا وقت ہے۔ کوئی رش نہیں ہوتا اس وقت اور ہمیں بابا کے اُٹھنے سے پہلے گھر پہنچنا ہے اس لئے چپ کرکے بیٹھی رہو۔‘‘
EPAPER
Updated: January 17, 2024, 1:34 PM IST | Saima Sadaf | Mumbai
’’آپی آپ کیا کر رہی ہیں۔ آرام سے چلائیں ایکسیڈنٹ کروائیں گی کیا، آپي؟‘‘ ’’انعم، تم دھیان سے دیکھو، یہ صبح کا وقت ہے۔ کوئی رش نہیں ہوتا اس وقت اور ہمیں بابا کے اُٹھنے سے پہلے گھر پہنچنا ہے اس لئے چپ کرکے بیٹھی رہو۔‘‘
’’آپی آپ کیا کر رہی ہیں۔ آرام سے چلائیں ایکسیڈنٹ کروائیں گی کیا، آپي؟‘‘ ’’انعم، تم دھیان سے دیکھو، یہ صبح کا وقت ہے۔ کوئی رش نہیں ہوتا اس وقت اور ہمیں بابا کے اُٹھنے سے پہلے گھر پہنچنا ہے اس لئے چپ کرکے بیٹھی رہو۔‘‘ ’’پہنچیں گے تب نہ جب سلامت ہوں گے۔ آپ تو ایسے گاڑی چلا رہی ہیں نا، مجھے تو پھول کی شاپ پر بھی پہنچنا مشکل لگ رہا ہے۔‘‘ ماہم نے گردن گھما کے انعم کو آنکھیں بڑی کرکے دیکھا، ’’خاموش....‘‘ انگلی ہونٹوں پر رکھتے ہوئے کہا اور وہ فوراً خاموش ہوگئی۔
وہ دونوں پھول کی شاپ پر پہنچیں اور سامنے ہی ایک پیارا سا گلدستہ رکھا تھا۔ ماہم نے اُسے اٹھا لیا اور پیسے دینے کیلئے پرس کھولنے لگی۔ شاپ والا کچھ کہنےجا ہی رہا تھا تبھی وہاں کوئی آ پہنچا، ’’ایکس کیوز می مس! میں اس کے لئے پہلے ہی پیسے دے چکا ہوں ، یہ میرا گلدستہ ہے۔‘‘ ماہم نے سر اٹھا کر سر تا پیر اُسے دیکھا کوٹ پینٹ میں ملبوس ایک نوجوان اس سے مخاطب تھا۔ دیکھنے میں تو اچھے گھر خاندان کا لگتا ہے حلیہ دیکھ کر تو لگتا ہے کسی اچھی پوسٹ پر ملازمت کرتا ہوگا اور صورت شکل قد کاٹھ میں بھی برا نہیں تھا۔ ’’ہیلو میڈم! مَیں آپ سے بات کر رہا ہوں ۔‘‘ حاتم نے اُس کے آگے ہاتھ ہلایا۔ ’’ہاں ہمم....‘‘ ماہم اچانک ہی اپنے تصور سے باہر آئی۔ ’’کیا، ہاں ہمم؟‘‘ حاتم نے سوال کیا۔ ’’مَیں یہ لے چکی ہوں آپ دوسرا لے لیں ۔‘‘ ’’کیا؟ مَیں کیوں دوسرا لے لوں جبکہ مَیں اس کے لئے پے کرچکا ہوں ۔‘‘ حاتم نے اُسے کہا۔ ’’ہاں تو اب کسی اور کے لئے پے کر دیں ۔ یہاں اتنے سارے پھول ہیں ۔ کوئی بھی لے لیں ۔‘‘ ماہم نے پھول اٹھا کر جاتے ہوئے کہا۔ ’’ایک سیکنڈ محترمہ! یہ تو مجھے آپ سے کہنا چاہئے۔ آپ کیسے کسی اور کا پھول اٹھا کے جا سکتی ہیں ۔‘‘ ’’دیکھیں مسٹر آپ جو بھی ہیں ، مَیں آپ سے بحث نہیں کرنا چاہتی۔ میرے لئے آج بہت خاص دن ہے مجھے گھر پہنچنا ہے۔ چلو انعم۔‘‘ ماہم اور انعم جانے لگیں ۔ حاتم پھر بڑھ کے اُن کے آگے آیا۔ ’’بات سنیں ! کیا زبردستی ہے۔ جب مَیں اسے لے چکا ہوں تو آپ کیسے وہی پھول اٹھا کر جا سکتی ہیں ؟‘‘ حاتم نے غصے سے کہا۔ ’’کوئی زبردستی ہے کیا؟ مجھے پسند آ گیا مَیں نے لے لیا سیمپل۔ آپ کے لئے پوری دکان پڑی ہے کوئی بھی لے لیں ۔‘‘ ’’دیکھیں محترمہ آج میرے لئے بھی بہت خاص دن ہے۔ مجھے آپ سے بحث کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ اتنی بڑی دکان ہے آپ کوئی بھی پھول لے لیں ۔ آپ کو یہی کیوں چاہئے؟‘‘ ’’ایکس کیوز می مسٹر! آپ کے پاس بہت وقت ہوگا ضائع کرنے کے لئے مگر میرے پاس نہیں ہے مجھے گھر جانا ہے۔‘‘ کہتی ہوئی انعم کا ہاتھ پکڑے جانے لگی وہاں سے۔ ’’عجیب ضدی قسم کی خاتون ہیں آپ۔‘‘ حاتم نے مزید غصے میں کہا۔ اور وہ اس کی ہر بات کو اَن سنا کرتی ہوئی نکل گئی اور حاتم یوں ہی کھڑا اُسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ ’’صاحب آپ کوئی دوسرا پھول لے لیں ۔ جانے دیں وہ میم صاحب ایسی ہی ہیں ۔‘‘ حاتم نے گھوم کے اُس پھول والے کو دیکھا، ’’میم صاحب ہاں ؟‘‘ وہ چونک پڑا؟ پھول والے نے ’ہاں ‘ میں سر ہلایا۔ ’’تھوڑی پاگل قسم کی نہیں ہیں تمہاری میم صاحب! کیسے عجیب و غریب قسم کے لوگ آتے ہیں تمہاری دکان پر۔‘‘ ’’مگر وہ میم صاحب دل کی بہت اچھی ہیں ۔‘‘ ’’ہمم بہت اچھی! دیکھ لیا مَیں نے۔ لاؤ یہ سرخ گلاب والا گلدستہ دے دو۔‘‘ بوجھل دل سے کہا۔ یہ لڑکیاں ہوتی ہی ہیں مغرور، انا پرست، نک چڑھی، ضدی.... نہ جانے کس پر اتنا اتراتی ہیں ۔ کیا سمجھتی ہیں خود کو۔ کہیں کی رانی ملکہ یا پتا نہیں کیا؟‘‘ کسی نے ہاتھ ہلایا تھا زور سے۔ ’’ہاں !‘‘ حاتم اچانک ہی ہوش میں آیا تھا۔ ’’صاحب آپ کہاں گم ہو گئے اتنی دیر سے آوازیں دے رہا ہوں ۔‘‘ ’’کچھ نہیں ، لاؤ مَیں پہلے ہی بہت لیٹ ہوں ۔‘‘ ’’مَیں تو کب سے دے رہا ہوں ۔ آپ ہی پتا نہیں کہاں کھوئے ہوئے تھے۔‘‘ ’’اچھا زیادہ باتیں نہیں کرو سب کچھ تمہاری اُن میم صاحب کی مہربانی ہے۔‘‘ کہتا ہوا پھول لئے باہر آ گیا۔گاڑی میں بیٹھا اور فوراً وہاں سے گاڑی بھگا لی۔
ماہم اور انعم گھر پہنچیں تو مریم نے بتایا، ’’بابا جاگ چکے ہیں لان میں ٹہل رہے ہیں ۔ آپ لوگ کہاں رہ گئی تھیں ؟‘‘ سب فوراً اندر گئے ساری تیاریاں مکمل تھیں ۔ ’’جاؤ فوراً بابا کو لے کر آو۔‘‘ انعم بابا کو لے آئی۔ ’’کیا کر رہے ہو تم لوگ؟ آنکھیں کیوں بند کی ہیں ؟‘‘ بابا نے پوچھا۔ ’’ایک سیکنڈ بابا یہاں بیٹھئے کرسی پر۔‘‘ اور پھر سب نے ایک ساتھ بابا کو سالگرہ کی مباکباد دی جشن منایا۔ بابا بہت خوش ہوئے انہوں نے سب کو دعائیں دیں ۔
حاتم جہانگیر گھر کے سامنے گاڑی سے گلاب کے پھول لے کر اُترا۔ چپراسی بشیر خاصا حیران ہوا۔ سرخ گلاب کے پھول وہ بھی صاحب کے ہاتھ میں ....؟ اُس نے اپنی نوکری میں پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ حاتم نے وہ پھول لا کر سیدھا اُس کے ہاتھ میں دیا اور کہا، ’’یہ لے جا کر میم صاحب کو دے دو اور اُن سے کہنا میں آفس جا رہا ہوں دیر ہو رہی ہے۔ شام میں ملتا ہوں ۔‘‘ ’’مگر صاحب میں ؟‘‘ بشیر نے سوال کیا۔ ’’ہاں تم اور یہاں کون نظر آ رہا ہے۔ چلو جاؤ فوراً۔‘‘ ’’جی صاحب جاتا ہوں ۔‘‘ بشیر نے سر جھکا کر کہا۔ حاتم واپس گاڑی میں بیٹھا اور تھوڑی دیر میں غائب ہو گیا۔ بشیر نے وہ پھول قدسیہ بیگم کے آگے پیش کئے، ’’یہ صاحب دے کر گئے ہیں آپ کے لئے۔‘‘ قدسیہ بیگم بھی خاصا حیران ہوئی۔ ’’یہ سرخ گلاب بھیجے ہیں حاتم نے؟ ناممکن! اُسے تو یہ پسند ہی نہیں ہیں پھر؟‘‘ اُنہوں نے سوچا۔ ’’ٹھیک ہے۔ بشیر تم جاؤ میں خود پوچھ لوں گی اُسے۔‘‘ ’’جی میم صاحب!‘‘ بشیر نے سر جھکا کے کہا اور چلا گیا۔
رات کو حاتم دفتر سے لوٹا تو وہ سرخ گلاب سامنے ہی گلدان میں مل گیا اور صبح کا پورا منظر آنکھوں کے سامنے سے گزر گیا۔ پیشانی سہلاتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گیا۔ ’’کیا ہوا بیٹا؟ بہت کام تھا آفس میں کیا؟‘‘ قدسیہ بیگم نے پوچھا۔ ’’السلام علیکم امی کیسی ہیں آپ؟ سالگرہ کی بہت مبارکباد!‘‘ امی کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔ ’’سوری امی مَیں خود نہیں آسکا، مجھے بہت دیر ہو رہی تھی آفس کے لئے، میٹنگ بھی تھی آج۔‘‘ ’’وہ سب تو ٹھیک ہے مگر یہ سرخ گلاب!‘‘ امی نے گلدان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب مانگا۔ ’’کچھ نہیں امی۔ اس کی دکان پر یہی تھے اور مجھے دیر ہو رہی تھی تو میں نے لے لئے۔ کیوں آپ کو پسند نہیں آئے؟‘‘ حاتم نے پوچھا۔ ’’کیوں پسند نہیں آئیں گے بیٹے۔ میں تو اس لئے کہہ رہی تھی کہ آپ اس سے پہلے کبھی سرخ گلاب نہیں لائے تو حیرانی ہوئی تھی کہ کہیں کوئی حسین اتفاق تو....‘‘ ’’او کمان امی۔‘‘ بیچ میں ہی ٹوکا تھا حاتم نے، ’’کیسی باتیں کرتی ہیں آپ بھی۔ کچھ نہیں ہوا۔ کوئی اتفاق نہ واقعہ اور نہ ہونے کے امکان ہیں آگے۔ بے فکر رہیں آپ۔‘‘ اتنا کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’اچھا! مَیں تو خواہ مخواہ خوش ہو رہی تھی کہ میرا بیٹا مجھے خوش خبری دے گا۔ میرا تو ارمان ہی رہ جائیگا کہ میری بھی پیاری سی بہو!‘‘ ’’امی!‘‘ حاتم نے پھر اُن کی بات کاٹتےہوئے کہا۔ ’’خدا کے لئے مجھے بخش دیں ۔ مجھے اور بھی بہت سے ضروری کام ہوتے ہیں امی۔‘‘ ’’اس سے زیادہ ضروری کوئی کام نہیں اس وقت۔‘‘ قدسیہ بیگم نے خفا ہوتے ہوئے کہا۔ ’’پلیز امی خدا کا واسطہ ہے آپ کو۔‘‘ ’’ٹھیک ہے آپ میری بات مان لیں ، کچھ نہیں کہوں گی مَیں ....‘‘ قدسیہ بیگم بھی اڑی رہیں ۔ حاتم انہیں تھوڑی دیر دیکھتا رہا پھر بولا، ’’تو آپ نہیں مانیں گی؟‘‘ قدسیہ بیگم نے نفی میں سر ہلایا۔ حاتم انہیں دیکھتے ہوئے بولا، ’’بالکل بھی نہیں مانیں گی؟‘‘ قدسیہ بیگم نے پھر نفی میں سر ہلایا۔ حاتم نے ہار مان لی، ’’بتائیں کیا چاہتی ہیں آپ؟‘‘ ’’بس یہی کہ ہم آفاق انکل کے گھر جائیں اور شادی کی تاریخ طے کر لیں ۔ آپ کے والد صاحب کی خواہش تھی بیٹے۔ اُن کے بہت عزیز دوست تھے آفاق صاحب۔‘‘ قدسیہ بیگم نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔ ’’مَیں شادی سے انکار تو نہیں کر رہا۔ بس تھوڑا سا وقت ہی تو مانگ رہا ہوں ۔‘‘ حاتم نے ناراض ہوتے ہوئے کہا۔ ’’اب تک بہت وقت دے چکی ہوں مَیں ۔ مزید اب کچھ نہیں ملے گا۔‘‘ قدسیہ بیگم ناراض ہو رہی تھیں ۔ ’’امی!‘‘ حاتم پریشان ہو رہا تھا۔ ’’ششش!‘‘ قدسیہ بیگم نے انگلی دکھاتے ہوئے کہا۔ حاتم بس انہیں دیکھتا رہا بولا کچھ نہیں ۔ ’’مَیں کچھ دنوں میں ان کے یہاں جا رہی ہوں تاریخ طے کرنے اور آپ میرے ساتھ جائیں گے۔ کوئی بہانہ نہیں سنوں گی مَیں ۔‘‘ یہ کہہ کر قدسیہ بیگم چلی گئیں ۔ ’’مگر امی۔‘‘ حاتم نے کچھ کہنا چاہا۔ امی نے ایک نہ سنی۔ حاتم کے ذہن میں یوں ہی ماہم کا خیال آکر گزرا تھا۔ ’’یا رحمٰن! رحم کر مجھ پر۔ پتا نہیں میرا کیا ہوگا اس لڑکی کے ساتھ؟‘‘ ماتھے پر شکن ابھری تھی حاتم کے۔
’’آپی میں تو کالج جا رہی ہوں ۔ انعم آپی یونیورسٹی، مگر آپ.... آپ کی کہاں کی تیاری ہے؟‘‘ مریم نے سوال کیا۔ ’’انٹرویو ہے میرا سمجھ گئیں مریم دادی۔‘‘ ماہم نے جواب دیا۔ ’’او، جی سمجھ گئی۔ چلیں انعم آپی دیر ہو رہی ہے۔‘‘ مریم نے انعم سے کہا۔ ’’ہاں چلو چلو۔ اللہ حافظ خیال رکھئے گا اپنا۔‘‘ ’’اچھا بابا میں بھی چلتی ہوں دیر نہ ہو جائے۔ دھیان رکھئے گا اپنا، جلدی آؤں گی.... السلام علیکم!‘‘ ماہم اٹھتے ہوئے بولی۔ ’’وعلیکم السلام آرام سے جاؤ۔‘‘ بابا نے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’جی بابا!‘‘ اور وہ چلی گئی۔
آفس پہنچی تو وہاں انٹرویو دینے والوں کا ہجوم تھا۔ انہی میں جا کر ماہم بھی بیٹھ گئی۔ کچھ دیر بعد اُس کی باری آئی اور وہ اٹھ کر آفس کی جانب بڑھی۔ اُس نے آفس کا دروازہ جتنا آہستہ کھولا تھا اُسے کہیں زیادہ پھرتی سے بند کر دیا۔ ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے میرے مالک ؟ یہ لے گا میرا انٹرویو یہ؟‘‘ دل تو کیا اسی وقت وہاں سے الٹے پاؤں لوٹ جائے مگر....! نہ چاہتے ہوئے بھی اندر گئی اور پورے ۴۵؍ منٹ بعد ماتھے پر شکن لئے باہر آئی اور تیز رفتاری سے گھر پہنچ گئی۔ اندر آئی فوراً ایک گلاس پانی نکالا اور پیتے ہوئے سوچنے لگی کہ اُسے میں سچ میں نہیں یاد یا ڈراما کر رہا تھا۔ ’’بیٹھ کے بیٹا آرام سے اور تین سانس میں ۔‘‘ یہ آواز بابا کی تھی۔
’’جی بابا۔‘‘ کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔ ’’کیسا رہا انٹرویو؟‘‘ ’’انٹرویو تو اچھا تھا بابا مگر....‘‘ ’’تم فکر نہیں کرو بیٹا نتیجہ بھی ان شاء اللہ اچھا آئے گا۔ اچھی امید رکھنی چاہئے ہمیشہ۔‘‘ ’’جی بابا بالکل۔‘‘ ماہم اتنا کہہ کر چلی گئی۔
’’آپی آپ یہاں کیا کر رہی ہیں ؟‘‘ ’’کچھ نہیں چاند دیکھ رہی ہوں ۔‘‘ ماہم نے چاند دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’لگ تو نہیں رہا۔ آپ کچھ سوچ رہی ہیں ہے نا؟‘‘ انعم نےسوال کیا؟ ماہم نے سر ’ہاں ‘ میں ہلایا۔ ’’دیکھا میں جان گئی۔ کہاں ملتی ہیں ایسی بہنیں ۔ قدر کیا کریں میری۔‘‘ فخریہ انداز میں کہا۔ ’’اچھا اچھا بس۔ جان لیا میں نے اور کر لی قدر۔ اب بیٹھ جاؤ۔‘‘ ماہم نے جواب دیا۔ ’’نہیں ، مَیں بیٹھنے تھوڑی آئی ہوں ۔‘‘ انعم نے کہا۔ ’’پھر؟‘‘ ماہم نے انعم کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کو لینے آئی ہوں ۔ اتنی دیر سے یہیں بیٹھی ہیں ، چلیں ۔‘‘ ماہم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ’’آپی کیا سوچ رہی ہیں ؟ آپ بتائیں مجھے۔‘‘ انعم نے پوچھا، ’’تمہیں پتہ ہے میں انٹرویو دینے گئی تھی۔‘‘ ماہم نے بتانا شروع کیا۔ ’’ہاں !‘‘ انعم نے کہا۔ ’’تمہیں پتہ ہے میں کس کو انٹرویو دے کر آئی ہوں ؟‘‘ ماہم نے پوچھا۔ ’’نہیں ! اب آپ یہ نہ کہہ دیجئے گا کہ انٹرویو بھی اسی شخص نے لیا ہے جس سے آپ پھول چھین کر لائی تھی، ہاہاہا....‘‘ انعم نے ہنستے ہوئےکہا۔ ماہم نے انعم کو گھور کے دیکھا، ’’کیا آپی آپ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں ، سچ مچ؟ مطلب سچ میں ؟ مجھے یقین نہیں ہو رہا۔ ایک اور حسین اتفاق!‘‘ انعم نے تصدیق کی۔ ماہم کی پیشانی پر شکن اُبھر آئی۔ ’’تم نے کیا کہا ابھی؟‘‘ ماہم نے انگلی دکھا کر پوچھا۔ ’’کیا کچھ تو نہیں کہا۔‘‘ انعم نے بولا۔ ’’حسین اتفاق لگ رہا ہے تمہیں یہ ہاں ؟‘‘ ماہم نے خبر لینے والے انداز میں بولا۔ ’’ہاں خیر لگ تو رہا ہے۔‘‘ کہہ کر انعم اندر بھاگی۔ ’’ابھی بتاتی ہوں حسین اتفاق اصل میں ہوتا کیا ہے۔‘‘ کہتے ہوئے ماہم نے اُس کے پیچھے دوڑ لگائی تھی۔
’’آپی یہ لیں ، آپ کیلئے کال آئی ہے۔‘‘ مریم نے ماہم کو فون دیتے ہوئے کہا۔ ماہم فون لے کر وہاں سے ہٹ گئی۔ کچھ ہی دیر میں ماہم واپس آئی۔ ’’آفس سے کال تھی۔‘‘ ماہم نے بتایا۔ ’’کس لئے، جاب مل گئی کیا؟‘‘ مریم نے پوچھا۔ ماہم نے مسکراتے ہوئے ’ہاں ‘ میں سر ہلا دیا۔ ’’کیا؟‘‘ مریم اور انعم دونوں اُس کی طرف جھپٹا مارتے ہوئے گلے ملی تھیں ۔ ’’بہت مبارک ہو آپی۔‘‘ دونوں نے مبارکباد دی اور بہت خوش تھیں ۔ مگر ماہم نہ جانے کیا سوچ رہی تھیں ۔
کیا ہوا آپی آپ کیا سوچ رہی ہیں ؟ کوئی خاص خوشی نظر نہیں آرہی آپ کے چہرے پر۔‘‘ انعم نے ماہم کو چائے کا کپ دیتے ہوئے کہا۔ ’’کچھ نہیں انعم یوں ہی۔‘‘ ’’میں بس یہ سوچ رہی ہوں اُس نے اُس دن مجھے سچ میں نہیں پہچانا يا جان کے کر رہا تھا کسی مقصد کے تحت...‘‘ کہتے ہوئے چائے کا گھونٹ لیا۔ ’’آپی کیسی باتیں کرتی ہیں آپ؟ وہ باس ہے وہاں کا ہزار کام ہوتے ہوں گے۔ جانے کتنے لوگوں سے ملنا ہوتا ہوگا۔ بھول گیا ہوگا اتنے دن بھی تو ہو گئے۔ اور آپ کوئی فلمی اداکارہ یا کوئی اپسرا تو ہیں نہیں کہ ذہن میں بٹھا کے گھومتا پھرے۔‘‘ انعم نے سمجھاتے ہوئے کہا۔ ’’انعم!‘‘ ماہم نے ٹوکا تھا انعم کو۔ ’’ہاں آپی اور ویسے بھی کون سی بڑی اچھی یاد تھی کہ یاد رکھتا۔ اُس بیچارے کا تو نقصان ہی ہوا تھا نا۔‘‘ انعم نے ایک سانس میں سب کہہ ڈالا۔ ’’تم اُس کی سائڈ کیوں لے رہی ہو۔ تم میری بہن ہو یا اُس کی؟‘‘ ’’اس معاملے میں تو میں اسی کی طرف ہوں ۔ اُس بیچارے کی کوئی غلطی نہیں تھی۔‘‘ انعم نے دو ٹوک کہا۔ ’’اتنا بھی کوئی برا نہیں ہوا تھا کہ تم اُس کی طرفداری کرو۔ پھول ہی تو تھا بس۔ اس میں اتنا غصہ کرنے کی کیا ضرورت تھی اس کو؟‘‘ ماہم نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں آپی کسی بھی نارمل انسان کو اتنا ہی غصّہ آتا کوئی اور ہوتا تب بھی۔‘‘ ’’اچھا بس زیادہ طرفداری نہ کرو۔ میں بس یہ سوچ رہی ہوں کہ وہ ڈراما نہ کر رہا ہو۔ اُس نے مجھ سے بدلہ لینا چاہا تو؟‘‘ ’’آپی اتنا نہ سوچیں ، اچھا سوچیں تو اچھا ہوگا۔ہو سکتا ہے باس کی صورت میں بہت اچھا ثابت ہو۔ واقعی میں بھول گیا ہو سب کچھ۔‘‘ انعم اُسے لگاتار سمجھا رہی تھی۔ ’’ہمم! اللہ کرے ایسا ہی ہو۔‘‘ ماہم نے ذرا سکون لیا۔ ’’چائے تو ختم کریں ٹھندی ہو رہی۔‘‘ انعم نےکہا۔ ’’ہاں پی رہی ہوں ۔‘‘ ماہم نے کہا۔
آج ماہم کا پہلا دن تھا آفس میں ۔ کسی ملازم نے اُس کی جگہ دکھا دی تھی جہاں بیٹھ کر اُسے کام کرنا تھا اور باقی کے ملازموں سے ملوا بھی دیا تھا۔ پہلا دن اچھا گیا۔ ماہم کی سوچ کے بر عکس۔ ماہم گھر آئی اور ساری روداد انعم کو سنائی اور اسی طرح کئی دن گزر گئے۔ آج ماہم کو کام کرتے ہوئے ۴؍ مہینے سے زیادہ عرصہ گزر گیا تھا۔ حاتم کے رویے نے خاصا حیران کیا تھا۔ وہ باس کی صورت میں معقول تھا۔ اپنے ملازموں کا بہت خیال رکھتا تھا اور وہ بھی اُس سے بہت خوش تھے۔ ماہم کو یہ بات پریشان کر رہی تھی کہ، ’’حاتم نے اُسے پہچانا نہیں تھا یا ڈراما کر رہا تھا۔ اور اگر وہ واقعی بھول گیا ہے تو اچانک اُسے یاد آگیا تب کیا ہوگا؟‘‘
ماہم اور انعم شاپنگ کر کے باہر نکلے۔ گاڑی پارکنگ سے نکالتے ہوئے ماہم نے کسی گاڑی کو ٹکر ماردی۔ آپی کیا کرتی ہیں آپ؟ دونوں نے جا کر دیکھا تو نقصان زیادہ ہوا تھا۔دونوں نے آس پاس دیکھا پھر ایک دوسرے کا منہ دیکھا اور مسکرا کے خاموشی سے وہاں سے پلٹنے لگیں ۔ ’’ایکس کیوز می محترمہ! ایک تو آپ نے نقصان کیا میرا اور اب پیٹھ دکھا کر بھاگ رہی ہیں ؟ کچھ نہ سہی تو کم از کم سوری ہی کہہ دینا چاہئے۔‘‘ سنتے ہی ماہم پلٹی تھی ایک زور دار جواب دینے کیلئے مگر! ماہم کی سانس اٹک گئی، آنکھیں پھاڑے اُس کے منہ سے بڑی مشکل سے نکلا، ’’سر آپ؟‘‘ ’’چلیں ایک اور حسین اتفاق!‘‘ انعم کے منہ سے نکلا۔ سنبھلتے ہوئے ماہم نے حاتم کو سوری بولا، ’’مس ماہم آپ! آپ نے ٹکر ماری ہے؟‘‘ حاتم حیران ہوا تھا۔ ’’سوری سر مَیں اس کی بھرپائی کیلئے تیار ہوں ۔ میں بھاگ نہیں رہی تھی۔‘‘ ماہم نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔ ’’اٹس اوکے مس ماہم! مَیں ہینڈل کر لوں گا، آپ جائیں ۔‘‘ ’’نہیں سر میں ....‘‘ ’’مس ماہم!‘‘ حاتم نے ماہم کو ٹوکا تھا۔ ’’جی سر!‘‘ ماہم نے کہا۔ ’’آپ جائیں مَیں ہینڈل کر لوں گا۔‘‘ حاتم کی نظر انعم پر پڑی۔ ’’السلام علیکم! مَیں ماہم کی بہن ہوں انعم۔ انعم نے تعارف کروایا اپنا۔‘‘ ’’وعلیکم السلام! کیسی ہیں آپ؟‘‘ حاتم نے پوچھا۔ ’’الحمدللہ۔ آپ کیسے ہیں ؟‘‘ انعم نے پوچھا۔ ’’مَیں بھی ٹھیک ہوں ۔‘‘ حاتم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ آپ لوگ جائیں ۔ مس ماہم بس آئندہ خیال رکھئے گا ایسا نہ ہو۔‘‘ حاتم نے کہا۔ ’’جی سر!‘‘ ماہم نےآہستہ سے جواب دیا اور جانے لگی۔ ’’ایک سیکنڈ بات سنیں ! کیا ہم پہلے مل چکے ہیں مس ماہم؟‘‘ ماہم آفاق کے ہوش اڑ گئے۔ ’’کہیں انہیں سب یاد تو نہیں آگیا۔‘‘ ماہم نے دانتوں تلے انگلی دبا لی۔ ماہم پلٹی، ’’جی سر آفس میں ۔‘‘ ماہم نے تیز رفتاری سے جواب دیا۔ ’’اُس سے بھی پہلے؟‘‘ حاتم نے سوال کیا۔ ’’نہیں تو، ہم پہلے نہیں ملے ہیں ۔‘‘ ڈرتےہوئے بولا۔ ’’اوکے، کوئی بات نہیں ۔ آپ جائیں ۔‘‘ اور ماہم بہت تیزی سے نکل گئی۔ تو ایک اور خاصیت کی مالک ہیں محترمہ، مغرور، ضدی، انا پرست ہونے کے ساتھ ایک نمبر کی جھوٹی بھی ہیں ۔ سر کھجاتے ہوئے یوں ہی خیال کیا تھا۔ ’’حاتم صاحب چلیں دیر ہو رہی ہے۔‘‘ کسی نے آواز دی تھی حاتم کو۔ ’’جی دانیال صاحب چلیں ۔ جاتے ہوئے ایک دفعہ پیچھے مڑ کر دیکھا اور آنکھوں پر دھوپ کا چشمہ چڑھاتے ہوئے گھوم گیا۔ سارا راستہ انعم ہنستے ہوئے آئی تھی اور ماہم کا گلہ سوکھنے کی وجہ سے پانی پیتے ہوئے۔ ’’ماہم میری بات سنو۔‘‘ بابا نے پکارا تھا۔ ’’جی بابا!‘‘ ماہم نے آتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹھو مجھے بات کرنی ہے۔‘‘ بابا نے کہا۔ ماہم بیٹھ گئی۔ میں نے کچھ لوگوں کودعوت کیلئے مدعو کیا ہے۔ تم چھٹی کر لینا اس دن۔‘‘ بابا نے اطلاع دی۔ ’’کیسے مہمان بابا، کون لوگ ہیں ؟‘‘ ماہم نے سوال کیا۔ ’’بہت خاص مہمان ہیں تم ملوگی تو خوش ہو جاؤ گی۔‘‘ بابا نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے بتائیں کب ہے دعوت؟‘‘ ماہم نے پوچھا۔ ’’اگلے ہفتے۔‘‘ ’’ٹھیک ہے۔ جی ٹھیک ہے۔ مَیں چھٹی لے لوں گی بابا۔‘‘ ’’ہاں جاؤ خوش رہو۔‘‘ بابا نےدعا دی۔
حاتم آفس میں بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا تبھی ماہم نے دستک دی چھٹی لینے کیلئے۔ حاتم اُس سے مخاطب تو تھا مگر انہیں سوچوں میں گم رہا۔ ماہم کو چھٹی مل گئی اور وہ چلی گئی۔ حاتم اُسے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا اُس نے خود کو فون کی اسکرین میں مسکراتے ہوئے دیکھا اور فوراً سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔
مہمان آ چکے تھے۔ ماہم اور انعم نے ساری تیاریاں کر لیں تھیں ۔ ماہم چائے لے کر جا رہی تھی جیسے ہی اُن پر نظر پڑی ٹھٹک کے رک گئی۔ چائے گرتے گرتے بچ گئی۔ ’’کوئی بات نہیں بیٹا آؤ۔‘‘ بابا نے بلایا۔ ’’جی بابا!‘‘ کہتے ہوئے ٹرے رکھ کر کھڑی ہو گئی۔ ’’بیٹا تم نے پہچانا، یہ جہانگیر انکل کی اہلیہ ہیں اور یہ اُن کے صاحبزادے حاتم جہانگیر۔‘‘ بابا نے تعارف کروایا۔ ماہم نے انہیں دیکھتے ہوئےمسکرا کے تھوک نگلا۔ حاتم بھی اُسے ہی دیکھ رہا تھا مگر یہ مسکرا کیوں رہے ہیں ۔ ’’کہیں یاد نہیں آگیا ہو سب مگر یہ تو مسکرا رہے ہیں ۔ ماہم سوچ میں تھی۔
سب کھانے کی میز پر بیٹھے تھے جب ماہم نے بابا کو کہتے سنا: ’’ہم نے تم دونوں کی تاریخ طے کر دی ہے کچھ دنوں میں شادی کر دیں گے۔‘‘ ماہم نے لقمہ منہ میں ڈالتے ڈالتے روک دیا۔ ’’جی بابا! کیا کہا آپ نے؟‘‘ ’’ہاں بیٹا ہم نے تم دونوں کا رشتہ بہت پہلے طے کر دیا تھا۔‘‘ قدسیہ بیگم بہت خوش تھیں ۔ ’’ہاں بیٹا! ہم اپنی امانت لینے آئے ہیں ۔‘‘ ’’بیٹا تمہیں جہانگیر انکل تو یاد ہوں گے۔بہت عزیز دوست تھے میرے۔ ہم دونوں کی خواہش تھی کہ ہم یہ دوستی رشتےداری میں بدل لیں مگر اللہ نے بہت جلد بلا لیا میرے دوست کو۔ اب یہ میری ذمےداری ہے کہ میں اسے پورا کروں ۔‘‘ بابا نے کہا۔ حاتم مسکرا رہا تھا۔ ماہم کے ماتھے پر شکن ابھری تھی۔کہیں ان کو میرے بارے میں پہلے سے تو نہیں پتا تھا۔ ’’بیٹا! تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہے؟‘‘ بابا نے پوچھا تھا۔ ماہم نے حاتم کو دیکھا پھر قدسیہ بیگم کو پھر بابا کو دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا۔ اچانک ہی گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی سب خوشیاں مناتے ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے۔ بابا اور آنٹی نے دونوں کو ڈھیر ساری دعائیں دیں۔