سحر ستون کے ساتھ سر ٹکائے بیٹھی تھی کہ بے بسی سے اس نے آنکھیں موند لیں۔ ہر طرف گھوپ اندھیرا تھا، آسمان سیاہ چادر کی مانند لگ رہا تھا جس پر روشن ستارے نفیس موتیوں کی طرح پھیلے ہوئے تھے۔
EPAPER
Updated: August 21, 2025, 4:45 PM IST | Muqaddas Habiba | Mumbai
سحر ستون کے ساتھ سر ٹکائے بیٹھی تھی کہ بے بسی سے اس نے آنکھیں موند لیں۔ ہر طرف گھوپ اندھیرا تھا، آسمان سیاہ چادر کی مانند لگ رہا تھا جس پر روشن ستارے نفیس موتیوں کی طرح پھیلے ہوئے تھے۔
سحر ستون کے ساتھ سر ٹکائے بیٹھی تھی کہ بے بسی سے اس نے آنکھیں موند لیں۔ ہر طرف گھوپ اندھیرا تھا، آسمان سیاہ چادر کی مانند لگ رہا تھا جس پر روشن ستارے نفیس موتیوں کی طرح پھیلے ہوئے تھے۔ پہاڑ، آبشاریں، نیلے پیلے ہر قسم کے پھولوں کی خوشبو فضا میں پھیلی ہوئی تھی۔ وہ ننگے پاؤں گھاس پر چلتی جا رہی تھی۔ چاند کی روشنی زمین کو قوت دے رہی تھی۔ پھولوں پر شبنم کے قطرے گرے ہوئے تھے۔ ہر طرف سکون ہی سکون تھا۔ نہ جانے وہ کہاں تھی؟
’’سحر!‘‘ خنساء اسے مسلسل پکار رہی تھی لیکن وہ اپنی دنیا میں کھپ جایا کرتی تھی۔ حقیقت اس کے خیالات سے قدرے مختلف تھی۔
’’سحر!‘‘ اب کی بار خنساء نے اسے کندھے سے جھنجھوڑا، اسے کرنٹ سا لگا، ایک جھٹکے سے سارا منظر بدل گیا۔ گرمی اس قدر کے گھٹن کے مارے جان نکل رہی تھی۔ دھوپ کی تپش اتنی تیز تھی کہ اسے اندیشہ تھا کہ وہ مکئی کے دانوں کی طرح بن جائے گی۔ ’’پھر کیا خیال ہے تمہارا؟‘‘ خنساء نے لاپروائی سے کہا۔ سحر جوس پیتے پیتے روکی، ’’کس بارے میں؟‘‘ وہ بیزاری سے بولی۔
’’اوہو.... تم سے کل بات کی تو تھی ماڈلنگ کے بارے میں۔ دیکھو سحر حسن کی دیوی ہو، مَیں کون سا تم سے مفت کام کروا رہی ہوں۔ میرا فیشن شو چل پڑے گا اور تم ان پیسوں سے اپنی ضروریات پوری کرلینا۔‘‘
سحر نے ایک گہری سانس لی، ’’تمہیں معلوم تو ہے مَیں حجاب کرتی ہوں۔ اماں نہیں مانیں گی!‘‘ یہ سننا ہی تھا کہ خنساء نے اسے گن گن کر محرومیوں کا احساس دلایا اور سبزباغ دکھانا شروع کر دیئے۔ طمع نے سحر کی آنکھوں میں پیٹی باندھ دی۔ ایک دن کی مہلت اس نے اماں کو راضی کرنے کے لئے مانگ لی۔
رات دیر تک وہ خنساء کی باتوں پر غور کرتی رہی، ہمت اکٹھی کرتے ہوئے وہ اماں کے کمرے میں داخل ہوئی بڑی جسارت سے اس نے ماڈل بننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ سنتے ہی اماں سر پکڑ کر بیٹھ گئی اور اسے سمجھانے لگیں، ’’شرم و حیا عورت کا زیور ہے، سحر! مَیں تمہارا ساتھ ہرگز نہیں دوں گی۔ مَیں نے ساری زندگی اس چار دیواری میں رہ کر زندگی بسر کر دی۔ ہر خواہش پوری کی....‘‘ بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ اماں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اسے اس وقت اماں کے آنسو اذیت دے رہے تھے۔ سحر ان کی اکلوتی اولاد تھی اور واحد سہارا بھی۔ سحر نے نہ چاہتے ہوئے بھی اماں کی بات مان لی۔ نہ جانے رات کے کس پہر اس کی آنکھ لگ گئی۔ صبح ناشتہ کرکے اپنے کاموں میں مشغول ہوگئی۔ اماں کے کہنے پر اس نے خنساء کو انکار کر دیا تھا، اس کے چہرے پر پریشانی دیکھ کر اس کی اماں کا دل بھر آیا۔ شفقت سے انہوں سحر کے سر پر ہاتھ رکھا، ’’سحر یہ حجاب تمہارے حسن میں چار چاند لگا دیتا ہے۔‘‘ سحر نے ناگواری سے منہ پھیر لیا کہ فون کی گھنٹی بجی خنساء کی روتی ہوئی آواز سن کر سحر گھبرائی، ’’کچھ تو بولو خنساء!‘‘ ’’سحر آج فیشن شو تھا لیکن آگ لگ گئی۔ نہ صرف جانی بلکہ مالی نقصان بھی ہوا۔‘‘
یہ سنتے ہی اس نے فوراً فون بند کر دیا۔ کتنی ہی دیر وہ فون کی اسکرین کو سوچتی ہوئی نگاہوں سے دیکھتی رہی۔ اماں ٹھیک ہی کہتی ہیں مَیں چند پیسوں کے عوض خود کی نمائش کرنے چلی تھی۔ اپنے حجاب سے جو میرے لئے عزت کا باعث ہے اسی سے کنارہ کشی کرنے لگی تھی۔ اماں کو سامنے آتا دیکھ کر وہ خوشی سے جا لپٹی۔