Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : جھوٹ

Updated: May 26, 2025, 4:46 PM IST | Sofia Tariq | Mumbai

صدف ایک اچھے کھاتے پیتے گھرانے کی لڑکی تھی۔ انٹر کے بعد وہ گھر میں ہی رہ کر اپنی تعلیم مکمل کر رہی تھی۔ ساتھ ساتھ گھرداری میں بھی اپنے والدین کا ہاتھ بٹاتی۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

صدف ایک اچھے کھاتے پیتے گھرانے کی لڑکی تھی۔ انٹر کے بعد وہ گھر میں ہی رہ کر اپنی تعلیم مکمل کر رہی تھی۔ ساتھ ساتھ گھرداری میں بھی اپنے والدین کا ہاتھ بٹاتی۔ اور جو خالی وقت ملتا ہے اس میں اپنے شوق پورا کرتی رہتی۔یوں ہی اس کی چھوٹی سی خوبصورت زندگی گزر رہی تھی۔
 صاعقہ جو کہ اس کی پڑوسن تھی اور صدف کی ہم عمر ہونے کے ساتھ ساتھ عقلمند اور پڑھی لکھی لڑکی تھی۔ بچپن سے صدف اور صاعقہ ساتھ ساتھ ہی رہے تھے، کھیل کود پڑھائی لکھائی ہنسی مذاق کرتے کرتے دونوں بڑے ہوئے تھے۔
 ’’صدف! صدف کہاں ہو؟‘‘ صاعقہ صدف کے گھر آئی اور زور زور سے چیخ کر بولی۔ وہ دونوں ایسے ہی تھے پکے دوست، ہمراز، ہمدرد جب تک ایک دوسرے سے ساری باتیں نہ شیئر کر لیتے دونوں کو چین نہ آتا۔
 ’’یہی ہوں، کہاں جاؤں گی، بابا کے کپڑے واشنگ مشین سے دھل کر نکال رہی تھی۔‘‘ صدف نے کہا۔
 ’’اچھا اچھا ادھر آؤ، ایک بات بتانی تھی یار، آج میری خالہ آئی تھیں، تو!‘‘
 صدف نے تنک کر کہا، ’’پلیز ان کی بات نہ لے کر بیٹھ جانا، سخت زہر لگتی ہیں مجھے تمہاری خالہ، بار بار آجاتی ہیں اور کوئی نہ کوئی نئی بات جس کا کوئی نہ سر ہو نہ پیر سنا کر چلی جاتی ہیں اور تم بلاوجہ ان کی غلط بیانی سے پریشان ہوتی رہتی ہو۔ پلیز اب مجھے ان کا کوئی نیا جھوٹ نہ سنانا۔‘‘ صدف نے ہلکے غصے سے کہا۔
 ’’اچھا! مگر میری بات تو سنو، یار کل وہ اپنی نند کی بیٹی کے قصے سنا رہی تھیں کہ ان کی بیٹی نے تو اس بار غضب کر دیا۔‘‘
 ’’ارے وہی نا ثمرہ جو اس دن ایک شادی میں ملی تھی؟‘‘ صدف نے پوچھا۔
 ’’ہاں.... ہاں! وہی خالہ کہہ رہی تھیں کہ ثمرہ جیسی ہوشیار،عقلمند، ہنرمند اور پڑھائی میں اوّل بچی مَیں نے آج تک نہیں دیکھی اور خالہ کے مطابق ثمرہ ایسی آئیڈیل بچی تھی کہ آج تک ایسی لڑکی پیدا ہی نہیں ہوئی۔ ہر کوئی اس بچی سے پیار کرتا ہے۔‘‘
 ’’بس بس.... چپ ہو جاؤ ورنہ میں تمہارا گلا گھونٹ دوں گی، اگر تم نے ایک لفظ بھی بولا۔‘‘ صدف نے صاعقہ کو بیچ میں ہی چپ کرایا، ’’مَیں جانتی ہوں اسے، میری ایک دوست ہے جو اس کے ساتھ کالج میں پڑھتی ہے، سارے دن گپے ہانک کر، دوستوں کے ساتھ گھوم پھر کر، ہر وقت موبائل میں مصروف رہ کر پتہ نہیں کیسے یہ لوگ ٹاپ (بقول ان کے) کر بھی لیتے ہیں۔ میری تو سمجھ نہیں آتی۔‘‘ صدف نے پرسوچ انداز میں کہا، ’’تمہیں یاد ہے! کیا بول رہی تھیں تمہاری خالہ ثمرہ کے انٹر کے ٹائم پر کہ اس نے تو ۹۰؍ پلس اسکور کیا ہے، بعد میں پتہ چلا بے چاری تو بڑی مشکل سے فرسٹ ڈویژن سے پاس ہوئی تھی، یار یہ لوگ اتنا جھوٹ کیسے بول لیتے ہیں وہ بھی اتنی آسانی سے، جبکہ انہیں پتہ ہے کہ جہاں یہ ہیں وہیں ہم ہیں۔ پتہ نہیں انہیں اپنی جھوٹی تعریف کرکے کونسا سکون مل جاتا ہے اور دوسروں کو نیچا دکھا کر پتہ نہیں کون سی تسکین مل جاتی ہے۔‘‘ صدف افسوس سے بولی۔
 ’’ جب ہم لوگ دوسری جگہ رہتے تھےنا.... ہمارے پڑوس میں ایک آنٹی رہتی تھیں، میں بھی ان کے گھر جایا کرتی تھی، اچھا لگتا تھا ان کی بیٹیاں بھی میری ہی جیسی تھیں، لیکن بھئی صدف ان کے برابر میں بیٹھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہمیں تو کچھ آتا ہی نہیں، ساری ہنرمندی ان کی بیٹیوں پر ہی ختم ہوتی ہیں، وہ ہر چیز میں اپنی اتنی بڑائی ظاہر کرتی کہ میں تمہیں کیا بتاؤں، ہمارے گھر میں ایسا ہوتا ہے، ویسا ہوتا ہے ہم تو ہمیشہ برانڈیڈ کپڑے پہنتے ہیں، ہمارے ہاں تو ہر وقت لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے، کسی کو ہم بنا چائے پلائے بھیجتے ہی نہیں۔ ہر کوئی ہمارے گھر کی چائے کی تعریف کرتا ہے.... ارے بھائی اچھی بات ہے نا آپ کے گھر اللہ کی رحمت آتی رہتی ہے۔ تم ہی بتاؤ اگر ہم میں سے کسی کے گھر کوئی آئے گا تو کیا ہم اس کو ویسے ہی بھیج دیں گے؟ نہیں نا! جتنی اللہ نے ہمیں وسعت دی ہے اس سے بڑھ کر ہی ہم خاطر مدارت کریں گے، ہمارے تو فلاں صاحب رشتہ دار ہیں، فلاں صاحب میرے نانا، چاچا، ماموں لگتے ہیں، ایک تو ہر کوئی ان کا رشتہ دار نکل جاتا تھا۔ چاہے اس بندے کو اس کا نام بھی معلوم نہ ہو۔ اچھی بات ہے آپ ایک اچھے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں تو اس میں جتانے والی کیا بات ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ آپ کو اپنا تعارف کرانے کے لئے بھی دوسروں کے حوالے دینے پڑ رہے ہیں۔ اور ویسے بھی جن کے پاس ہوتا ہے نا وہ کبھی بھی اپنے منہ سے اپنی تعریف نہیں کرتے بلکہ ان کے اخلاق، ان کا رہن سہن، خود کھول کھول کر بیان کرتاہے، انہیں بولنے کی اور جتانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔‘‘ صدف نے بھی صاعقہ کی ہاں میں ہاں ملائی۔
 ’’اور ایک بات بتاؤں صاعقہ تمہیں، انسان کو نہ ہمیشہ سچ بولنا چاہئے۔ اگر آپ سچ نہیں بولنا چاہتے تو یا تو خاموش رہو یا پھر اس کے آس پاس کی تھوڑی بہت سچ بات بول دو۔ یہ بھی سچ ہے کہ بعض اوقات ہمیں سچ بولنا بہت مہنگا پڑ جاتا ہے اور ہر وقت ایک دم سچ اگلنے سے بھی نقصان اٹھانا پڑتا ہے تو آپ خاموش رہو کیوں زبردستی جھوٹ بول کر گناہوں کو سَر مول لینا.... جن چیزوں کی اللہ نے پردہ پوشی کی ہے ان کو پردہ میں ہی رہنے دو۔ میں نے بہت سارے لوگوں کو دیکھا ہے اگر ان سے کوئی غلطی ہو جائے تو اپنی پوزیشن صاف کرنے کے لئے الٹا سیدھا بولنے لگتے ہیں تاکہ آپ سامنے والے کی بات سنے بنا ہی پہلے ہی نتیجہ اخذ کر لیں کون صحیح ہے اور کون غلط۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو غلط بیانی، اپنے بڑائی ظاہر کرنے سے ہمیشہ گریز کرنا چاہئے، ورنہ جب وہ بات کھلتی ہے تو سوائے شرمندگی اٹھانے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا، الٹا انسان اپنی عزت ہی کھوتا ہے.... اور اس جھوٹ کو چھپانے کیلئے سو جھوٹ اور بولنےپڑتے ہیں جو دنیا اور آخرت میں رسوائی کا سبب بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جتنا آپ کو عطا کیا ہے وہ آپ کی قسمت میں لکھا ہے، کامیابی، رزق انسان چاہے جتنی بھی کوشش کر لے ہمیشہ اس کے مقدر سے ہی ملتا ہے۔ جو آپ کے پاس ہے اس پر راضی رہو، جتنی جلدی قبول کر لو گے، اتنے ہی سکون میں رہو گے اور اللہ کا شکر ادا کروگے۔ اگر تم اپنے سے کم حیثیت والوں کو دیکھو گے تو ہمیشہ شکر کے الفاظ زبان سے نکلیں گے، اپنے سے اوپر والوں کو دیکھو گے تو ہمیشہ بے سکون رہو گے۔ اور یہی بے سکونی انسان کو، گھروں کو تباہ کرتی ہے، آپسی تعلقات خراب کرتی ہے۔ انسان ہمیشہ ٹینشن میں رہتا ہے۔ میرے پاس یہ نہیں ہے، اس کے پاس ہے اور اس چیز کو چھپانے کے لئے وہ اپنی حیثیت سے بھی زیادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ انسان اپنے حالات کو سدھارنے کیلئے کوشش ترک کر دے، نہیں بالکل نہیں! ارے جو لوگ کوشش کرتے ہیں ان کے ہی تو زیادہ چانسز ہوتے ہیں کامیاب ہونے کے، آپ محنت کرتے رہو، اللہ کو بھی محنت کرنے والے لوگ پسند ہیں، اور یہی محنتی لوگ اپنے مقدر کو بھی سنوار لیتے ہیں اور جو لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر اپنی ناکامی کا ٹھیکرا مقدر پر پھوڑتے رہتے ہیں، انہیں ان کا تو بس اللہ مالک ہے۔‘‘ صدف ایک لمبی آہ بھر کر چپ ہوگئی۔
 ’’ہاں تم بالکل صحیح کہہ رہی ہو۔ انسان کو کبھی بھی غلط بیانی، جھوٹ، اپنی بڑائی مارنے سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہئے، حدیث شریف آتا ہے جس کا مفہوم ہے ’جب انسان جھوٹ بولتا ہے اس کے منہ سے اتنی خراب بدبو اتی ہے کہ فرشتے اس سے ایک میل دور چلے جاتے ہیں دور چلے جاتے ہیں۔‘ اسی طریقے سے اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ ’کبر میری چادر ہے۔‘ قران کریم میں بھی ارشاد ہے جس کا مفہوم ہے کہ ’تم زمین میں اکڑ کر چلو نہ تو تم زمین کو پھاڑ سکتے ہوں نہ تو تم پہاڑوں کی بلندیوں تک پہنچ سکتے ہو۔‘ دوسری جگہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں جس کا مفہوم ہے ’اے ایمان والو تم اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو۔‘ یعنی گھما پھرا کر کوئی بات نہ کہو صاف ستھری بات کہو۔‘‘ صاعقہ بول کر خاموش ہوگئی۔
 ’’صدف....! صدف کہاں ہو؟‘‘ امی نے آواز لگائی۔
 ’’جی امی آرہی ہوں۔ چلو صاعقہ کل بات کرتے ہیں۔‘‘
 ’’ہاں چلو ٹھیک ہے۔‘‘ صاعقہ نے کہا اور اپنے گھر چلی گئی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK