لالہ کے ہاتھ گارے میں بھرے ہوئے تھے۔ گیلی چکنی مٹی کو وہ ہاتھوں میں لئے اب چاک پر رکھنے لگا تھا۔ جب مٹی کا بدنما چکنا گولا اس نے چاک پر رکھ کر گھمایا تو وہ دھیرے دھیرے اپنی شکل تبدیل کرتا گیا۔
EPAPER
Updated: August 13, 2025, 1:18 PM IST | Yasmeen Bano | Jalgaon
لالہ کے ہاتھ گارے میں بھرے ہوئے تھے۔ گیلی چکنی مٹی کو وہ ہاتھوں میں لئے اب چاک پر رکھنے لگا تھا۔ جب مٹی کا بدنما چکنا گولا اس نے چاک پر رکھ کر گھمایا تو وہ دھیرے دھیرے اپنی شکل تبدیل کرتا گیا۔
لالہ کے ہاتھ گارے میں بھرے ہوئے تھے۔ گیلی چکنی مٹی کو وہ ہاتھوں میں لئے اب چاک پر رکھنے لگا تھا۔ جب مٹی کا بدنما چکنا گولا اس نے چاک پر رکھ کر گھمایا تو وہ دھیرے دھیرے اپنی شکل تبدیل کرتا گیا۔ لالہ کی موٹی موٹی انگلیاں نہایت احتیاط سے گولے کے اردگرد گھومنے لگیں۔ یوں کچھ ہی دیر میں مٹی کا وہ بدنما سا گولا ایک خوبصورت صراحی میں تبدیل ہوگیا۔ لالہ نے دھیرے سے اس نو تخلیق صراحی کو دھوپ میں دوسرے برتنوں کے بازو لا کر رکھ دیا۔ پھر پانی سے ہاتھ پاؤں دھوئے اور اطمینان سے صحن کے ایک کونے میں بچھی کھاٹ پر آکر بیٹھ گیا۔ کھلے سے صحن میں سنہری رنگ کی دھوپ اونگھ رہی تھی۔ ایک سمت مٹی کے کئی برتن ترتیب سے رکھے ہوئے نظر آرہے تھے جو مسکراتے ہوئے لالہ کو ہی دیکھ رہے تھے۔
لالہ ایک کمہار تھا۔ ایک محنتی اور محتاط انسان، کام میں ذرا سی بے توجہی برتی تو مٹی کا برتن عیب دار ہو جائے گا۔ اس نے صحن کے برتنوں پر نظر ڈالی۔ سارے برتن اس کی کاریگری کی بہترین مثال تھے۔ وہ کبھی لال، کبھی بھوری اور کبھی کالی مٹی کا استعمال کرکے خوشنما صراحیاں، مٹکے، مرتبان اور گھڑے بنایا کرتا تھا۔ وہ بے کار نظر آنے والی مٹی کے بدصورت گولوں کو خوشنما، دلکش پیکر میں ڈھال کر انہیں قابل دید بنا دیتا تھا۔ کچھ لوگ ضرورتاً تو کچھ لوگ زیبائش کے لئے اس سے برتن خریدنے آیا کرتے تھے۔
اس نے کھاٹ کی بائیں جانب ایک گھڑونچی پر رکھے کالے گھڑے کی طرف دیکھا اور وہاں جاکر اس کا ٹھنڈا ٹھنڈا پانی پیا اور دوبارہ کھاٹ پر آکر بیٹھ گیا۔ کالا گھڑا.... یہ دیکھ کر مسکرایا۔ لالہ نے ایک دن بہت سی کالی مٹی سے گھڑے بنائے۔ وہ سارے گھڑے بِک گئے بس ایک کالا گھڑا باقی رہ گیا تو لالہ اسے اپنے مصرف میں لے آیا اور آنگن میں رکھی گھڑونچی پر اس کالے گھڑے کو رکھ دیا۔ اسکا ٹھنڈا ٹھنڈا پانی پی کر لالہ خوش ہو جاتا اور کام میں مصروف ہو جاتا۔ کالا گھڑا، یہ دیکھ کر فخر محسوس کرتا۔ دیگر برتنوں اور اس کے درمیان یہی تو بڑا فرق تھا کہ وہ لالہ کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھا۔ وہ دن بھر کسی مورت کی صورت لالہ کو کام کرتے دیکھا کرتا۔ جب لالہ کی بیوی دو تین دن بعد اس کو دھوتی تو کالے گھڑے کا حسن نکھر جاتا پھر اس میں پانی بھرتی تو وہ خوشی سے جھوم اٹھتا۔
ایک دن لالہ کا جگری دوست کسی شہر سے آیا تو لالہ کو ایک سفید چینی کا گھڑا تحفتاً دے گیا۔ وہ سفید گھڑا کیا تھا.... گویا چاند کا ٹکڑا! جس پر لال گلابی، پیلے گل بوٹے بڑی نفاست سے بنائے ہوئے تھے۔ یوں لگتا تھا وادیٔ فردوس کی ساری خوبصورتی اس کے وجود میں سمٹ آئی ہو.... جیسے حسین پھولوں کی تمام رعنائی اسے عطا کردی گئی ہو.... جیسے آبشاروں کا جلترنگ ہر سمت سنائی دے.... لالہ کو لگا اس کے آنگن میں ایک نہیں ہزار چاند اتر آئے ہیں جس کی روشنی سے گھر، آنگن، دل اور چہرہ سب منور ہوگیا ہے۔ لالہ کو وہ گھڑا بہت پسند آیا۔ اس نے جھٹ سفید گھڑے میں پانی بھرا اور باہر صحن میں لاکر رکھ دیا۔ اب ہر دن وہ سفید گھڑے سے پانی پیتا.... ہر روز ایسا ہی ہوتا کہ لالہ کام کے بعد تھک ہار کر بیٹھ جاتا، سفید گھڑے کا پانی پیتا اور آرام کرتا۔ سفید گھڑا یہ دیکھ کر بہت خوش ہوتا اور کالے گھڑے کو منہ چڑاتا۔ کالا گھڑا یہ دیکھ کر مایوس ہوگیا۔ اب ہر دن لالہ کی بیوی کالے گھڑے کے بجائے سفید گھڑے کو احتیاط سے مانجھتی اور اس میں فکر سے شوہر کے لئے پانی بھرتی۔
تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ لالہ زور زور سے کھانسنے لگا۔ کھانسی کے ساتھ گلے میں خراش اور درد رہنے لگا۔ درد مستقل رہتا تھا۔ وہ پریشان ہوگیا۔ دو چار ہفتے یونہی گزر گئے۔ وہ بستی میں موجود حکیم لقمان کے گھر پہنچا۔
حکیم صاحب نے کچھ دوائیں دیں اور کہا: ’’مٹی کے برتن میں کھاؤ اور پئو!‘‘
لالہ گھر آیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اس کی نظر کالے گھڑے پر پڑی جو صحن کے ایک کونے میں گرد کی چادر اوڑھے کسی مسکین کی صورت پڑا تھا۔ لالہ جھٹ اس کی طرف لپکا۔ کالے گھڑے نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں اور لالہ کو دیکھا۔ لالہ نے اسے گود میں اٹھا لیا پھر اسے اچھی طرح مانجھ کر اس میں پانی بھرا اور گھڑونچی پر لاکر رکھ دیا۔ اگلے دن وہ کام سے فارغ ہو کر کالے گھڑے کا پانی پی کر آرام کر رہا تھا۔ اب ہر دن وہ کالے گھڑے کا پانی پیتا اور کام سے لگ جاتا۔ دھیرے دھیرے اس کے گلے کا درد دور ہوگیا اور کھانسی بھی بند ہوگئی۔ اس کی بیوی نے جب دیکھا کہ لالہ اب سفید گھڑے کا پانی استعمال نہیں کرتا تو اس نے سفید گھڑے کو چھجے پر اوندھا رکھ دیا اور اس پر کپڑا ڈھانک دیا۔ سفید گھڑے کو لگا جیسے اسے سولی پر لٹکا دیا گیا ہو۔
لالہ نے رب کا شکر ادا کیا اور احسانمندانہ نگاہوں سے کالے گھڑے کی طرف دیکھا۔ اس کے سیاہ چہرے پر خوشی کے ہزاروں رنگ امڈ آئے۔