Inquilab Logo

افسانہ: خواب

Updated: March 05, 2024, 12:43 PM IST | Yasmeen Bano | Jalgaon

وہ مخملی کپڑے سے بنا ہوا سفید رنگ کا خرگوش تھا جسے یوئی نے بڑی خوبصورتی سے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا وہ اسے دیکھ کر مسکرائی اور سلیقے سے اسے محراب میں رکھ دیا۔ وہ يوئی کا خزانہ تھا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

وہ مخملی کپڑے سے بنا ہوا سفید رنگ کا خرگوش تھا جسے یوئی نے بڑی خوبصورتی سے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا وہ اسے دیکھ کر مسکرائی اور سلیقے سے اسے محراب میں رکھ دیا۔ وہ يوئی کا خزانہ تھا۔
 ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں موسم سرما کے آنے کا پیغام سنانے لگی تھیں۔ درختوں کے جسم نیم برہنہ نظر آتے تھے۔ ہیروشی اپنے گھر کے احاطے میں بنے چھوٹے سے باغیچے میں پھولوں کو پانی دے رہا تھا۔ تھوڑی دیر وہ سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر کمرے میں آیا۔ دایاں ہاتھ پینٹ کی جیب میں پھنسا ہوا تھا اور بائیں ہاتھ میں پھولوں کی باسکٹ تھی۔ شام کا وقت ہو رہا تھا۔ شفق کے رنگ آسمان کے آنچل پر بکھرے نظر آتے تھے۔ اچانک کمرے میں گھنٹی کی آواز گونجی۔ گھنٹی کی یہ آواز سرائے میں آنے والے مہمان کی آمد کا اشارہ تھی۔ یوئی اور ہیروشی نے مسکرا کر آواز کی طرف دیکھا۔ وہ تیز قدموں سے چلتا ہوا بالکنی میں آیا۔ سامنے سڑک پر ایک خوبصورت گاڑی آکر رکی تھی اور گاڑی کا مالک گیٹ کھول کر اندر کی طرف آنے والا تھا۔ اس کی پشت ہیروشی کی طرف تھی اس کے ساتھ ایک عورت اور بچہ بھی تھا۔
 شام ڈھلتے ہی وہ چھوٹی سی سرائے روشنیوں سے جگمگا اٹھی۔ باہر رنگ برنگے قمقمے دمک رہے تھے۔ اندر موجود دونوں ملازم مستعد ہوگئے۔ سرائے میں ایک چھوٹا سا خاندان آکر ٹھہرا تھا۔ باورچی خانےسے اٹھتی مہک بھوک کو بڑھا رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ہيروشی نیچے آیا اور ہر چیز کا تنقیدی نظروں سے جائزہ لینے لگا۔ جیسے ہی وہ پلٹا سامنے سے آتے نوجوان سے اس کی آنکھیں ملیں۔ دونوں کی آنکھوں میں شناسائی در آئی۔
 ’’تم؟‘‘ نوجوان خوشگوار حیرت سے بولا۔
 ’’نامیکو! تم یہاں؟ واہ کیا حسن اتفاق ہے! وہ باہر کھڑی گاڑی میں تم ہی.....‘‘
 ’’ہاں مَیں ہی آیا تھا۔‘‘ نامیکو آگے ہو کر اس سے بغل گیر ہوا۔
 ’’تم کتنے سالوں بعد ملے ہو۔ مجھے تو بڑی خوشی ہوئی۔‘‘ ہیروشی کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔
 وہ دونوں اسکول کے زمانے کے دوست تھے۔ نامیکو ایک کمپنی میں منیجر تھا اور آج اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ ہیروشی کے سرائے میں ٹھہرا تھا۔
 وہ دونوں لان میں آمنے سامنے بیٹھے بڑی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ سامنے رکھی چھوٹی سی انگيٹھی دہک رہی تھی۔ ہواؤں میں ہلکی ہلکی خنکی محسوس ہو رہی تھی۔ یوئی بڑی دیر سے اپنے کمرے میں انگیٹھی کے سامنے بیٹھی نہ جانے کیا سوچ رہی تھی۔ اس کی گوری گوری رنگت آنچ سے لال نظر آرہی تھی۔ ہر شخص خواب دیکھتا ہے وہ بھی بڑی مدت سے اپنی آنکھوں میں ایک خواب سجائے تھی جس کی تکمیل کے لئے وہ کئی برسوں سے کوشاں تھی لیکن کچھ خواب، خواب ہی ہوتے ہیں یہ بات اسے معلوم نہ تھی۔ اس نے پلٹ کر اس سفید خرگوش کی طرف دیکھا جو محراب کے اوپری خانے میں خاموش کسی بت کی طرح بیٹھا تھا۔ اس نے مٹھی میں مقید مچڑے ہوئے کچھ نوٹوں کو دیکھا پھر محراب میں رکھے اس خرگوش کے پاس آئی۔
 جاپان کی ہنگامہ خیز زندگی سے دور ایک خوبصورت گاؤں میں نوجوان ہیروشی اپنی بیوی یوئی کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ ایک پرانے سے سرائے کا مالک تھا۔ اس کا سرائے آنے جانے والے مسافروں کے لئے جائے قرار تھی۔ سرائے میں کچھ کشادہ دو چار کمرے تھے اور ایک چھوٹا سا باورچی خانہ۔ اوپر کی منزل میں ہیروشی اور یوئی رہتے تھے۔ ہیروشی کو باغبانی کا بہت شوق تھا۔ اس نے باغبانی کے ذریعے اس پرانے سے سرائے کو حسین جنت بنا دیا تھا جس کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر مسافر وہاں کچھ وقت ضرور گزار لیتے۔ سرائے کی آمدنی کچھ خاص نہ تھی۔ ہيروشی کا دایاں ہاتھ مفلوج تھا اسی لئے وہ کمائی کے کسی دوسرے متبادل کے بارے میں نہیں سوچ سکتا تھا لیکن یوئی کے پاس ایک متبادل تھا جو اس کی زندگی میں خوشیاں لاسکتا تھا۔ اور وہ تھا..... خرگوش! جس کی حقیقت سے ہیروشی یقیناً بے خبر تھا۔
 اگلی دوپہر نامیکو، ہیروشی کے کمرے میں بیٹھا اس سے باتیں کر رہا تھا۔ اب وہ سرائے میں ٹھہرا مسافر نہیں بلکہ اس کا مہمان تھا اور ابھی ابھی ایک پرتکلف دعوت کا اختتام ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اسے وہاں سے جانا تھا۔
 ’’مَیں آج رات کی فلائٹ سے اپنی فیملی کے ساتھ یوکے جا رہا ہوں وہاں میری جاب طے ہوگئی ہے اس لئے سوچا جانے سے پہلے اپنے آبائی گاؤں گھوم پھیر کر آؤں۔ اس لئے ادھر آنا ہوگیا تھا اب نہ جانے کب ملاقات ہو۔‘‘ نامیکو نے ہیروشی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
 ’’اگر کبھی آنا ہو تو اس غریب خانے میں ضرور چلے آنا۔‘‘ ہیروشی بولا۔
 نامیکو کا بیٹا اچھلتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔ ہیروشی نے اسے پیار سے اپنی گود میں بٹھا لیا۔
 ’’تم کتنے پیارے بچے ہو۔ ایسا کرو تم میرے پاس ٹھہر جاؤ۔‘‘ ہیروشی نے اس کا دلار کرتے ہوئے پیار سے کہا۔
 ’’نہیں! مَیں اپنے پاپا کے ساتھ جا رہا ہوں۔‘‘ وہ اچھلتا ہوا دوسری طرف ہوگیا۔ اچانک اس کی نظر محراب میں رکھے خرگوش پر پڑی۔
 ’’واہ! یہ کتنا پیارا ہے۔‘‘ اس کی نگاہیں وہیں ٹک گئیں۔
 ’’یہ تمہیں پسند ہے؟‘‘ ہیروشی کہتا ہوا اٹھا اور خرگوش لاکر اس کے ہاتھوں میں دے دیا۔ نامیکو مسکراتے ہوئے دیکھنے لگا۔ ’’یہ بہت پیارا ہے!‘‘ وہ اس کے مخملی جسم پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔
 ’’اچھا تو پھر یہ تمہارے لئے تحفہ۔ اب یہ تمہارا ہے۔‘‘ ہيروشی نے پیار سے بچہ کا گال تھپتھپایا، ’’یہاں اس سے کھیلنے والا کوئی نہیں لیکن نہ جانے کیوں یوئی اسے دیکھ دیکھ کر مسکراتی ہے۔‘‘
 ’’ارے! نہیں....‘‘ ناميکو اتنا ہی کہہ سکا۔ بچہ اسے لے کر کمرے سے باہر بھاگا اور باہر کھڑی گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا۔
 یوئی، ناميکو کی بیوی کے ساتھ اپنے چھوٹے سے باغیچے میں کھڑی باتیں کر رہی تھی۔
 نامیکو نے سب سامان گاڑی میں رکھا اور اپنے بیٹے کی طرف دیکھا جو پچھلی سیٹ پر بیٹھا خرگوش سے کھیل رہا تھا، جیسے ہی اس نے ماں کو گاڑی کی طرف آتے دیکھا فوراً خرگوش پیروں میں چھپا لیا اس ڈر سے کہ کہیں وہ اس کھلونےکو دیکھ کر ناراض نہ ہو جائے۔
 سب لوگ گاڑی میں بیٹھ چکے تھے۔ نامیکو نے گاڑی شروع کی ہيروشی اور یوئی ساتھ کھڑے انہیں الوداع کہہ رہے تھے۔ ہيروشی کچھ قدم گاڑی کے ساتھ گیا۔ پیچھے کھڑی یوئی مسکراتی ہوئی ہاتھ اٹھا کر انہیں الوداع کہہ رہی تھی، اس بات سے بے خبر کہ اس کا خزانہ خرگوش میں جمع شدہ رقم جو وہ کئی برسوں سے جمع کرتی آتی تھی اس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہو رہا تھا جو اس کے خوابوں کی تکمیل کا ضامن تھا۔
 اسکے عقب میں سورج غروب ہو رہا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK