Inquilab Logo

جنوبی افریقہ: جارج میں ۵؍ منزلہ عمارت منہدم، ۸؍ ہلاک، ۴۴؍ اب بھی ملبے میں

Updated: May 09, 2024, 7:44 PM IST | Cape Town

جنوبی افریقہ کے شہر جارج میں ایک پانچ منزلہ عمارت منہدم ہونے سے ۸۱؍ افراد اس کی زد میں آگئے۔ اس حادثہ میں ۸؍ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ۲۹؍ کو زندہ بچالیا گیا ہے جبکہ ۴۴؍ افراد اب بھی ملبے میں دبے ہیں۔ حادثہ کی وجوہات کا فوری طور پر پتہ نہیں چل سکا ہے۔ صدر سیرل رامافوسا نے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

Officials doing relief work. Photo: INN
اہلکار راحت رسانی کا کام کرتے ہوئے۔ تصویر: آئی این این

جنوبی افریقہ کے شہر جارج میں ایک منہدم عمارت کے نیچے پھنسے ۴۴؍ تعمیراتی کارکنوں کے لواحقین کو چوتھے دن پریشان کن انتظار کا سامنا کرنا پڑا جبکہ بھاری مشینیں جائے وقوع پر گزرتے وقت کےساتھ زندہ بچ جانے والوں کی معدوم ہوتی امیدوں کے درمیان تلاشی کا کام کر رہی ہیں۔ پیر کو پانچ منزلہ عمارت کےگرنے کے وقت ۸۱؍افراد جائے وقوعہ پر موجود تھے۔ جمعرات کو جارج میونسپلٹی کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، آٹھ کے مرنے اور ۲۹؍کے زندہ ہونے کی تصدیق کی گئی ہے، جن میں سے ۱۶؍کی حالت تشویشناک ہے۔سرکاری نشریاتی ادارے ایس اے بی سی کے مطابق لاپتہ افراد کی شناخت کو عام نہیں کیا گیا ہے، لیکن ناموں کی ایک فہرست ان رشتہ داروں کے گروپوں میں گردش کر رہی تھی جو پیر سے جائے حادثہ پر جمع ہوئے تھے، اور اپنے اعزاء کی خبروںکیلئے بے چین تھے۔

ایک ارتھ موور کو منہدم عمارت سے کنکریٹ کے ٹوٹے ہوئے سلیبوں کو ہٹاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جو ملبے کا ڈھیر نظر آرہی ہے۔پھنسے ہوئے لوگوں کی تلاش کے لیے سونگھنے والے کتوں کو لایا گیا ہے۔اس حادثہ نے جارج میں یکجہتی کو فروغ دیا ہے، مقامی کمپنیاں سامان فراہم کر رہی ہیں اور رضاکارمنتظر رشتہ داروں اور امدادی کارکنوں کے لیے کافی سٹال لگا رہے ہیں۔منگل کو ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ریسکیو ٹیمیں پھنسے ہوئےزندہ لوگوں کی آوازیں سن رہی ہیں، لیکن اس کے بعد سے اس بارے میں مزید کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔واضح رہے کہ عمارت گرنے کی وجوہات کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے۔ جبکہ صدر سیرل رامافوسا نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK