زندگی میں ہم ذمہ داریوں میں اس قدر الجھ جاتے ہیں کہ خود سے ملنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔
EPAPER
Updated: September 18, 2025, 4:21 PM IST | Ifraa Taksin | Mumbai
زندگی میں ہم ذمہ داریوں میں اس قدر الجھ جاتے ہیں کہ خود سے ملنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔
زندگی میں ہم ذمہ داریوں میں اس قدر الجھ جاتے ہیں کہ خود سے ملنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔
بچپن، بڑے ہونے کے انتظار میں بیت جاتا ہے، اور جوانی، ذمہ داریوں کے بوجھ تلے کہیں دفن ہو جاتی ہے۔ کبھی بیٹا، کبھی شوہر، کبھی والد.... اور اب دادا کے روپ میں ڈھل چکے نعیم صاحب پچھلے سال ہی ایک سرکاری اسکول سے ریٹائر ہوئے تھے، جہاں وہ گزشتہ چالیس برسوں تک تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ عمر نے قدموں کو بوجھل ضرور کر دیا تھا، مگر دل اب بھی دھڑکنوں کو سنبھالے بیٹھا تھا۔
روز کی طرح آج بھی ان کی صبح چائے اور اخبار کے ساتھ صحن میں ہوئی۔ وہ اکثر کہا کرتے: ’’چائے اور اخبار کا ساتھ روح کی غذا ہے۔‘‘
مگر آج ہفتہ تھا، اور ہفتے کا مطلب تھا ان کے ادبی سفر کا ایک اور پڑاؤ۔
شاعری سے عشق ان کی جوانی کا پہلا خواب تھا، جو وقت کی گرد میں دب کر کہیں کھو گیا تھا۔
وہ اکثر سوچتے: ’’گھر کے مرد کو کب خود کے لئے فرصت ملتی ہے....‘‘
زندگی نے انہیں اتنا آگے دھکیل دیا تھا کہ وہ بھول ہی گئے تھے کہ کبھی وہ صرف ’نعیم‘ بھی تھے.... نہ صرف ’ابو‘ اور ’دادا‘۔
چائے کی آخری چسکی لی اور اچانک ہال کی جانب بڑھ گئے۔
پرانی الماری، جو برسوں سے بند پڑی تھی، ان کے قدموں کا انتظار کرتی محسوس ہوئی۔ اس پر جمی گرد کی تہیں وقت کی گواہی دے رہی تھیں۔ ساتھ ہی ایک اسٹڈی ٹیبل اور کتابوں سے بھرا شیلف تھا، جس میں اقبال کی کلیات، فیض کی نظمیں اور کئی پرانی کتابیں عمر کی تھکن لئے بیٹھی تھیں۔
اسی لمحے بیگم کی آواز آئی:
’’آپ کو کچھ چاہئے تو مَیں لا دیتی ہوں....‘‘
نعیم صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’’نہیں، مَیں خود لے لوں گا.... کیا پتہ وہ اب ہے بھی یا نہیں۔‘‘
الماری جیسے کھلنے سے انکاری تھی، مگر آخرکار چرچراہٹ کے ساتھ جھک گئی۔
انہوں نے فائلوں اور کاغذات کے ڈھیر میں سے ایک پرانی ڈائری نکالی۔
اسے دیکھتے ہی ان کی آنکھوں میں وہی چمک اتر آئی جو برسوں بعد کھویا ہوا کھلونا پا لینے پر بچے کی آنکھوں میں ہوتی ہے۔
اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھ کر انہوں نے ڈائری کی گرد صاف کی، چشمہ پہنا اور پہلا صفحہ پلٹا۔
اقبال کا شعر درج تھا: ’’خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے/ خدا بندے سے خود پوچھے، بتا، تیری رضا کیا ہے؟‘‘
دوسرے صفحے پر پہنچے تو کچھ ادھورے اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں لکھی غزل جھانکنے لگی۔ انکے چہرے پر ایک معصوم سی مسکراہٹ بکھر گئی۔
انہوں نے بیگم کو آواز دی، ’’سنو ذرا، کچھ سناتا ہوں....‘‘
بیگم کچن سے نکل کر دروازے پر آ کھڑی ہوئیں۔ نعیم صاحب نے دھیرے دھیرے اشعار پڑھنا شروع کئے:
غزل
تیرے گیسو بکھر گئے جیسے
شام کے سائے اُتر گئے جیسے
آنکھ میں تیری خواب رہتے ہیں
چاند پانی میں ہنس پڑے جیسے
تیرے ملبوس کی مہک آئی
پھول صحرا میں کھل گئے جیسے
بات کرتے ہوئے رکی تو لگا
وقت کے پر کٹ گئے جیسے
تو جو پردے سے جھانکتی ہے کبھی
سارے منظر بدل گئے جیسے
غزل ختم ہوئی تو بیگم کے چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں ہلکی سی شرماہٹ تھی۔
وہ بولیں، ’’آپ کے آنے سے ہمارے کئی خواب ادھورے رہ گئے....‘‘ نعیم صاحب دھیمے لہجے میں بولے۔
’’تو اب مکمل کر لیجئے.... ویسے بھی، غزل کو ذرا سی پالش کی ضرورت ہے!‘‘
نعیم صاحب نے لمبا ’’ہمم....‘‘ کیا اور کہنے لگے، ’’ویسے بھی، اگر قلم کی سیاہی سوکھ جائے تو قلم کار دوسرا قلم اٹھاتا ہے.... لکھنا بند نہیں کرتا۔‘‘
اس دن کے بعد، ان کی صبح اخبار کے بجائے ڈائری کے اوراق پلٹنے سے شروع ہونے لگی۔
کبھی کوئی غزل مکمل ہوتی، کبھی پرانے خیالات نیا رنگ پاتے، اور کبھی بھولی ہوئی یادیں لفظوں میں جاگ اُٹھتیں۔
یوں، ریٹائرمنٹ کی زندگی ’’خود سے ملاقات‘‘ کا دوسرا نام بن گئی....
ایک نئی صبح، ایک نیا آغاز،
اور اپنی ہی ذات سے دوبارہ تعارف!