Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : خوابوں کی دہلیز پر

Updated: May 27, 2025, 1:15 PM IST | Khan Ifra Taskeen | Mumbai

دو دن بعد دسویں جماعت کا رزلٹ آنا تھا۔ زویا اپنے خاندان کی پہلی لڑکی تھی جس نے میٹرک کا امتحان دیا تھا۔ احمد صاحب جدید دور میں سانس تو لے رہے تھے مگر خیالات آج بھی ماضی کے گرد لپٹے ہوئے تھے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

دو دن بعد دسویں جماعت کا رزلٹ آنا تھا۔ زویا اپنے خاندان کی پہلی لڑکی تھی جس نے میٹرک کا امتحان دیا تھا۔ احمد صاحب جدید دور میں سانس تو لے رہے تھے مگر خیالات آج بھی ماضی کے گرد لپٹے ہوئے تھے۔ پورے گھر میں ایک انجانی سی بےچینی تھی۔ ہر نگاہ زویا کے رزلٹ پر مرکوز تھی، ہر دعا میں اس کی کامیابی کی التجا شامل تھی۔
 جب رزلٹ آیا تو زویا نے ۸۵؍ فیصد نمبر حاصل کئے تھے۔ اسکول میں تیسری پوزیشن حاصل کرکے اس نے نہ صرف اپنے خوابوں کو پَر دیا، بلکہ اپنے والد کے چہرے پر فخر کی ایک چمک بھی پیدا کر دی۔ احمد صاحب، جو عام طور پر سخت لہجے اور سنجیدہ مزاج کے لئے مشہور تھے، اس دن پہلی بار مسکرا اُٹھے۔
 زویا کے دل میں اُمید جاگی۔ اس نے ارادہ کیا کہ وہ گیارہویں جماعت میں سائنس لے گی، اور نیٹ کی تیاری کرے گی۔ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی تھی — ایک ایسا خواب جو نہ صرف اس کا تھا، بلکہ اس سے جڑی انسانیت کی خدمت کی خواہش بھی۔ مگر دوسری جانب، احمد صاحب نے کچھ اور ہی طے کر رکھا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ جلد از جلد اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ روزانہ سوشل میڈیا اور نیوز چینلز پر چلتی خبریں انہیں بےچین کر دیتی تھیں — کہیں کوئی لڑکی کسی کے ساتھ بھاگ گئی، کہیں کسی غیر مسلم سے تعلقات میں الجھ گئی۔ ان سب خبروں نے ان کے دل میں خوف بھر دیا تھا۔
 وہ چاہتے تھے کہ زویا اس ’گندگی‘ سے دور رہے اور یہی وجہ تھی کہ وہ اس کی شادی طے کرنے کے خواہاں تھے۔
 ایک دن ناشتہ کی میز پر احمد صاحب نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا، ’’ہماری بیٹی نے کمال کر دیا۔ خاندان کی پہلی لڑکی ہے جو میٹرک پاس ہوئی ہے۔ اب اسے گھر گرہستی سکھاؤ تاکہ کل کو اپنا گھر سنبھال سکے۔‘‘
 زویا نے یہ سنا، مگر کچھ نہ کہا۔ الفاظ لبوں تک آتے آتے بکھر جاتے اور والد کے سامنے ہمت دم توڑ دیتی۔
 کالجوں میں داخلے شروع ہوچکے تھے۔ زویا دل ہی دل میں سہمی رہتی کہ کہیں دیر نہ ہو جائے۔ ایک شام وہ ماں کے پاس گئی، ’’امی! بابا سے بات کریں نا.... مجھے کالج جانا ہے۔ نیٹ کی تیاری بھی کرنی ہے۔‘‘ ماں نے گہری سانس لی، جیسے سینے پر صدیوں کا بوجھ ہو، ’’بیٹا! تم جانتی ہو تمہارے بابا تعلیم کے خلاف نہیں.... لیکن کالج کا ماحول.... انہیں ڈر لگتا ہے۔ وہ تمہارے رشتے کے لئے بات کر رہے ہیں۔‘‘
 ’’امی! میرے خوابوں کا کیا؟ میں ابھی شادی کے لئے تیار نہیں۔‘‘ ماں نے پیار سے اس کا ہاتھ تھاما، ’’شام کو خود بابا سے بات کر لینا۔‘‘
 شام کو دسترخوان پر سب بیٹھے تھے۔ زویا نے دھیرے سے کہا، ’’بابا! کالج میں داخلہ لینا ہے۔ نیٹ کی تیاری کیلئے کوچنگ بھی ضروری ہے....‘‘
 دادی نے فوراً ٹوکا، ’’ہمارے خاندان کی لڑکیاں یونیورسٹیوں میں نہیں جاتیں۔ جانا تو دور، ان کی طرف دیکھنے کی بھی ہمت نہیں کرتیں۔ شکر کرو تم نے میٹرک کر لیا، ورنہ پہلے ہی رخصت کردیتے۔‘‘ احمد صاحب نے خاموشی سے زویا کی طرف دیکھا۔ وہ نظر، جیسے خنجر ہو، زویا کے خوابوں میں اتر گئی۔ وہ سمجھ گئی کہ بات ان کے دل میں چبھ گئی ہے۔
 کھانے کے بعد احمد صاحب نے کہا، ’’چائے باہر لان میں لے آؤ، کچھ بات کرنی ہے۔‘‘
 زویا چائے لے کر آئی، ’’جی بابا....‘‘
 ’’تو تم کہہ رہی تھی کالج؟ نیٹ؟‘‘
 زویا نے سر جھکا لیا، خاموش رہی۔
 ’’بیٹا! ہم نے اپنی بیٹیوں کو کبھی ایسے ماحول میں نہیں تو بھیجا۔ ایسا نہیں کہ ہمیں تم پر اعتبار نہیں.... مگر جس ماحول میں جاتے ہیں، اکثر اسی میں ڈھل جاتے ہیں۔ کالجوں میں کیا ہوتا ہے، سب جانتے ہیں — لڑکے، آزادیاں، بے راہ روی.... میں تمہیں اس راستے پر نہیں ڈال سکتا۔ تم ہمارے گھر کی عزت ہو۔ اگلے ہفتے رشتے کے لئے تمہیں کچھ لوگ دیکھنے آرہے ہیں۔‘‘
 ’’بابا، پلیز.... صرف ایک موقع دے دیں۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ کبھی آپ کو شرمندہ نہیں کروں گی۔‘‘
 ’’بس.... جاؤ.... آرام کرو۔‘‘
 وہ رات زویا کی زندگی کی سب سے طویل رات تھی۔ آنکھوں سے بہتے آنسو، دل کے اندر ٹوٹتے خواب... سب کچھ ایک طوفان بن چکا تھا۔
 صبح ناشتے کی میز پر زویا نظر نہیں آئی۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ اپنے کمرے میں ہے اور اس کا ناشتے کرنے کا جی نہیں چاہ رہا ہے۔ احمد صاحب بھی ناشتہ کئے بغیر زویا کے کمرے میں چلے گئے۔ زویا اپنے اسٹڈی ٹیبل پر سر رکھے سوئی ہوئی تھی۔ آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔
 احمد صاحب آہستہ سے قریب آئے، سر پر ہاتھ رکھا، ’’بیٹا؟‘‘
 زویا نے سر اٹھایا، آنکھیں چرانے لگی۔
 ’’یہ آنکھیں کیوں سوجی ہیں؟‘‘
 پھر اس کے لبوں سے ایک صدیوں کا سوال نکلا، ’’بابا! لڑکیوں کو خواب دیکھنے کی اجازت کیوں نہیں ملتی؟ ان کے لئے ہمیشہ پابندیاں کیوں؟ زمانہ بدل چکا ہے، بیٹیاں بھی والدین کا سہارا بن سکتی ہیں۔‘‘ احمد صاحب نے ایک لمحہ سوچا، پھر آہستہ سے بولے، ’’نیچے ناشتے کی میز پر آؤ.... اور ہاں، اب روئی تو اپنی آنکھیں پھر سوجا لو گی۔ شام کو بات کریں گے۔‘‘
 شام کو جب وہ دفتر سے آئے، زویا دروازے پر کھڑی تھی۔
 ’’تم ابھی تک جاگ رہی ہو؟‘‘
 ’’بس آپ کا انتظار تھا۔‘‘
 انہوں نے چائے کی پیالی لی، زویا کی آنکھوں میں جھانکا اور کہا، ’’اگر تم اپنے خوابوں کے لئے سچ میں اتنی سنجیدہ ہو تو کل کالج چلتے ہیں۔ اچھے سے کوچنگ سینٹر میں بھی داخلہ کرواؤں گا۔ لیکن یاد رکھو، ایک بیٹی جب گھر سے باہر قدم رکھتی ہے، تو اس کے سر پر صرف اس کے خواب نہیں، پورے خاندان کی عزت ہوتی ہے۔ تمہارے ہر قدم پر میرا یقین ٹکا ہوگا۔ اگر کہیں محسوس ہوا کہ تم نے بھروسہ توڑا.... تو میرا مان، میرا اعتماد ٹوٹے گا۔‘‘
 کچھ لمحے گزرے، پھر وہ گویا ہوئے، ’’مَیں جانتا ہوں زمانہ بدل چکا ہے اور شاید میرا ڈر بھی پرانا ہوچکا ہے۔ لیکن ایک باپ کا دل زمانے سے نہیں، اپنی بیٹی کی حفاظت سے جڑا ہوتا ہے۔ تمہاری ماں نے تمہیں سنوارا ہے، مَیں نے تمہارے لئے دیوار بننے کی کوشش کی ہے۔ آج پہلی بار میں تمہیں خود اپنے خوابوں کی طرف جانے دے رہا ہوں۔ یہ آزادی نہیں، ایک امتحان ہے — میرے اعتماد کا امتحان، تمہاری تربیت کا امتحان۔ یاد رکھو، کامیابی صرف ڈگری لینے کا نام نہیں، کردار بنانے کا عمل ہے۔ تمہاری چال، تمہارے الفاظ، تمہارا ہر فیصلہ اس بات کا آئینہ ہوگا کہ تم احمد صاحب کی بیٹی ہو۔ مَیں چاہتا ہوں تم نہ صرف ڈاکٹر بنو، بلکہ اپنے کردار، تمیز اور حیا سے دنیا کو دکھاؤ کہ ایک باپ کا اعتماد کیسے لوٹایا جاتا ہے۔ یہ وقت ہے خود کو منوانے کا، دنیا کو یہ بتانے کا کہ بیٹیاں کمزور نہیں ہوتیں، بلکہ اگر انہیں موقع دیا جائے تو وہ آسمان کو چھو سکتی ہیں — وہ آسمان جو اکثر ان کے لئے محدود کر دیا جاتا ہے۔ تم اڑ سکتی ہو، لیکن ان پروازوں میں زمین سے جڑنا نہ بھولنا۔‘‘
 زویا کی آنکھوں سے خاموش آنسو بہنے لگے۔ وہ قریب آئی، والد کے ہاتھ تھامے اور دھیرے سے کہا، ’’بابا! میں کبھی آپ کا مان نہیں توڑوں گی۔ یہ آپ کا وعدہ ہے مجھ سے اور میرا وعدہ آپ سے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK