’’کہکشاں یہ کیا تم نے تو ناشتہ بھی نہیں کیا اور نکل پڑی؟‘‘ ’’امی ویسے بھی مجھے دیر ہو رہی ہے آپ میری فکر مت کیجئے، میں کینٹین میں کچھ نہ کچھ کھا لوں گی۔‘‘
EPAPER
Updated: September 11, 2025, 1:19 PM IST | Zakira Shabnam | Mumbai
’’کہکشاں یہ کیا تم نے تو ناشتہ بھی نہیں کیا اور نکل پڑی؟‘‘ ’’امی ویسے بھی مجھے دیر ہو رہی ہے آپ میری فکر مت کیجئے، میں کینٹین میں کچھ نہ کچھ کھا لوں گی۔‘‘
’’کہکشاں یہ کیا تم نے تو ناشتہ بھی نہیں کیا اور نکل پڑی؟‘‘ ’’امی ویسے بھی مجھے دیر ہو رہی ہے آپ میری فکر مت کیجئے، میں کینٹین میں کچھ نہ کچھ کھا لوں گی۔‘‘ اور خدا حافظ کہتے ہوئے میں باہر نکل آئی، ابو پہلے سے کار میں بیٹھے میرا انتظار کر رہے تھے۔ میرے ابو پروفیسر تھے اور میں اپنے پیارے والدین کی اکلوتی اولاد تھی میرے بچپن سے میرے والدین اپنی آنکھوں میں مجھے ڈاکٹر بنانے کا خواب سجائے ہوئے تھے میں نے اُن کے خواب کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کو ہی اپنا نصب العین بنا لیا تھا۔ بڑی لگن اور محنت کے ساتھ ڈاکٹری کی پڑھائی کی، حال ہی میں اوّل درجہ میں کامیاب ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کر لی۔
اب شہر کے ایک بہت بڑے اسپتال جو میڈیکل کالج کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ وہاں پر ٹریننگ کیلئے انٹرینس کے روپ میں داخل ہوگئی ابھی کچھ دن ہوئے تھے مجھے داخلہ لئے۔ روزانہ صبح تا شام میری ڈیوٹی ہوتی، گھر سے اسپتال کے راستے کے درمیان میں ہی ابو کا کالج ملتا، اس لئے ہم دونوں صبح میں ساتھ ہی نکلتے اور میں ابو کو کالج چھوڑتے ہوئے اپنے اسپتال چلی جاتی۔ کبھی شام میں بھی ساتھ لوٹتے تو کبھی مجھے دیر ہو جاتی تو میں ابو کو اطلاع کر دیتی کہ وہ گھر لوٹ جائیں مجھے واپسی میں دیر ہو جائے گی۔
آج گھر سے ہمارا تھوڑی ہی دور کا فاصلہ طے ہو پایا تھا کہ راستے کے دائیں جانب کچھ بھیڑ اکٹھا نظر آئی کوئی گاڑی بھی ٹھہری ہوئی تھی شاید کوئی ایکسیڈنٹ ہوگیا ہو، مجھ سے رہا نہیں گیا میں نے گاڑی روک دی اور ہم دونوں نے بھیڑ کو چیرتے ہوئے جا کر دیکھا تو ایک لڑکی زخمی حالت میں بیہوش پڑی تھی۔ سبھی خاموش کھڑے تھے۔ میں نے وہاں کے لوگوں سے پوچھا یہ حادثہ کیسے ہوا؟ ایک آدمی جو بیحد پریشان لگ رہا تھا فورا بول پڑا، ’’میڈم یہی لڑکی زبردستی میری گاڑی کے سامنے آگئی۔ ‘‘ وہ آدمی بہت گھبرایا ہوا تھا۔ میں نے کہا، ’’ٹھیک ہے مگر اس لڑکی کا خون بہہ رہا ہے اور آپ سب لوگ کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ اسے ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے چلئے اسے میری گاڑی تک پہنچانے میں میری مدد کیجئے جلدی سے....‘‘ پھر اس لڑکی کو لے کر وہ آدمی بھی ہمارے ساتھ ہی بیٹھ گیا اور میرے منع کرنے کے باوجود ابو بھی میرے ساتھ اسپتال چلے آئے، اس لڑکی کو دیکھ کر ان کا من بھی کالج جانے کو نہیں کر رہا تھا۔
اسپتال پہنچتے ہی مرہم پٹی کر دی گئی۔ شکر ہے اسے گہری چوٹیں نہیں آئی تھیں، میں اس کے پاس بیٹھی اس کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ میں نے دیکھا وہ بہت خوبصورت تھی گورا رنگ، ناک نقشہ بھی لاجواب، پندرہ سولہ سال کی ہوگی شاید، دھیرے دھیرے اسے ہوش آنے لگا، پھر وہ خود کو اسپتال میں دیکھ کر بڑ بڑانے لگی، میں یہاں کیسے آگئی، مجھے مرنا تھا، کس نے بچایا مجھے.... ابو اور وہ آدمی جن کی گاڑی سے یہ لڑکی ٹکرائی تھی اس کے ہوش میں آنے تک یہیں پر تھے، پھر اس کی باتیں سنتے ہوئے میں نے ان دونوں کو بھیج دیا۔ اب میں اس لڑکی کے قریب جا کر بیٹھ گئی وہ پھر سے وہیں سب دہرا کر رونے لگی۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’ارے تم تو روتے ہوئے بالکل اچھی نہیں لگتی تم تو بہت خوبصورت ہو تمہیں مسکراتے رہنا چاہئے۔‘‘ میں نے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا، ’’یہ دیکھو تمہارے آنکھیں بڑی دلکش ہیں۔ اتنی خوبصورت آنکھوں کو آنسو تو ہرگز نہیں بہانے دینا چاہئے۔‘‘ ’’ڈاکٹر صاحب آپ کو نہیں پتہ یہ میری خوبصورتی ہی تو میرے لئے میری جان کی دشمن بن گئی ہے۔‘‘ ’’اچھا تمہاری باتوں سے تو لگتا ہے اتنی کمسنی میں ہی تمہیں زندگی کا کافی تجربہ ہو چلا ہے۔ اب مجھے بتاؤ تم نے خود کو ختم کرنے کی کوشش کیوں کی؟ پہلے تم مجھے اپنا نام بتاؤ؟‘‘ اس نے کہا، ’’پرپرنا!‘‘ ’’ارے واہ کتنا پیارا نام ہے۔ اتنے پیارے نام والی لڑکی نے ایسا مایوس کن قدم آخر کیوں اٹھایا؟ مجھے اپنے بارے میں کھل کر بتاؤ؟‘‘ وہ مجھ سے یوں گویا ہوئی: ڈاکٹر صاحبہ ایک سال پہلے تک تو سب کچھ ٹھیک تھا میں ایسی مایوس نہیں تھی، اس بھری دنیا میں میری ماں ہی میرا سب کچھ تھی، بابا کا تو مجھے خیال ہی نہیں وہ تو میرے بچپن میں ہی چل بسے تھے۔ پھر میری ماں کا کوئی سہارا نہیں رہا جب غریب لوگ بے سہارا ہوتے ہیں تو رشتہ دار بھی منہ پھیر کر اجنبی بن جاتے ہیں۔ میری ماں کے ساتھ بھی یہی ہوا مگر میری ماں نے ہمت نہیں ہاری۔ بڑے صبر کے ساتھ اس نے کچھ امیر لوگوں کے گھروں میں کام پر جانا شروع کر دیا۔ گھر کے سارے کام وہ بخوبی انجام دیتی، کپڑے اور برتن دھونا، جھاڑو پونچھا لگانا وغیرہ۔ ان گھروں سے ہمیں دو وقت کی روٹی اور کپڑے مل جاتے۔ تنخواہ میں میری ماں مجھے ایک اچھے اسکول میں پڑھاتی رہی، ماں کا بڑا ارمان تھا کہ پڑھ لکھ کر میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاؤں۔ ایک سال پہلے جب میں نے اچھے نمبروں کے ساتھ دسویں کلاس پاس کر لیا تو میری ماں کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور اسی خوشی میں مگن اپنے کام پر جارہی تھی روڈ کراس کرتے ہوئے ایک ٹرک سے ٹکرا کر وہیں پر دم تو ڑ دیا۔ پھر کیا تھا میرے سپنوں کا محل پل بھر میں چکنا چور ہوگیا۔
جب تک میری ماں زندہ تھی کبھی بھی ان امیروں کے گھر مجھے نہیں لے گئی کیونکہ وہ چاہتی تھی کہ میں کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلاؤں پڑھ لکھ کر کچھ بنوں مگر میری ماں کا خواب تو ادھورا ہی رہ گیا۔ ہم غریب جھوپڑیوں میں رہتے ہیں، سب کو اپنے پیٹ بھرنے کی فکر لگی رہتی ہے کوئی بھلا کسی کا کیا پیٹ بھرے گا۔ یہی وجہ تھی میں نے بھی اپنی بھوک اور بد حالی کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے اور مجبوراً دو تین گھروں میں کام مانگ لیا۔ اپنی ماں کے نقش قدم پر چل پڑی مگر ہر جگہ میری خوبصورتی سب کی نگاہوں میں کھٹکنے لگتی۔ میں اپنا دکھڑا سناتی بھی تو کس کو، ماں کے چلے جانے کے بعد بھگوان کی اس بھری دنیا میں غریبی مجبوری کے علاوہ میرا کوئی ساتھی بھی تو نہیں تھا۔ میں نے ان مطلبی اور ہوس بھری نگاہوں کو نظرانداز کرتے ہوئے بڑے ہی حوصلے کے ساتھ تقریباً ایک سال گزارا۔ آج تو حد ہوگئی ڈاکٹر صاحبہ جب میں کام پر گئی تو گھر کی مالکن کہیں گئی ہوئی تھیں، مجھے گھر کا سارا کام نپٹانا تھا اور گھر میں ان کا بیٹا موجود تھا اس نے گھر میں کسی کے نہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہونے کی کوشش کی اور میں کسی طرح خود کو بچاتے ہوئے دوڑی چلی آئی۔ میرا تو اس دنیا پر سے ہی بھروسہ اُٹھ گیا ہے مجھے اپنی زندگی سے ہی گھن ہونے لگی تو میں نے خود کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘
بت بنی میں اس کی درد بھری آپ بیتی سنتی رہی۔ اتنی کم عمر میں اس قدر تلخ ترین تجربہ، واقعی بے حد دکھی تھا اس کا پنپتا ہوا معصوم سا من۔ میں نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ اسے میں اپنے ساتھ گھر لے چلوں گی۔ میں نے بڑے ہی خلوص کے ساتھ اس کے سَر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’اب تک تمہاری زندگی میں جو کچھ بھی ہوا اسے ایک بُرا سپنا سمجھ کر بھولنے کی کوشش کرو اور اب تم میرے ساتھ میرے گھر چلو گی۔‘‘ اسے میری بات پر یقین نہیں ہو رہا تھا، شاید وہ مجھے سوالیہ نظروں سے تکے جا رہی تھی، ’’ایسے کیا دیکھ رہی ہو پریرنا؟‘‘ میں نے اس کے نام پر زور دیتے ہوئے کہا، ’’مجھ پر یقین کرو اور میرے ساتھ میرے گھر چلو مگر دو تین دن اسپتال میں ہی تمہیں آرام کرنا ہوگا۔‘‘
پھر میں اسے لے کر اپنے گھر آگئی۔ ہاں آتے ہوئے ہم اس کی کٹیا پر گئے اس کی پڑھائی کے سرٹیفکیٹ وغیرہ ہم لے آئے جو اس نے سنبھال کے رکھا تھا۔ میرے امی اور ابو بھی اس کی درد بھری داستان سے بہت متاثر ہوئے پھر میں نے اسے سمجھایا کہ تم آگے کچھ بھی کرنا چاہو تمہاری مدد ہم ضرور کریں گے۔ ’’تم کیا چاہتی ہو اچھی طرح سوچ کر بتا دینا کوئی جلدی نہیں ہے۔‘‘ اس نے جلد ہی ہم سب کا دل جیت لیا۔ گھر میں امی ابو کو آنٹی انکل کہتے ہوئے ان کا خیال رکھتی، کام میں امی کا ہاتھ بناتی اور اکثر میرے ساتھ اسپتال بھی آجاتی پھر اس نے ایک دن اپنی دلی تمنا کا اظہار کیا کہ وہ نرس بننا چاہتی ہے۔ مجھے اس کی چاہت جان کر بے حد خوشی ہوئی۔ میں نے اسے نرس کی ٹریننگ کیلئے داخلہ دلوا دیا۔ دن مہینوں میں تو مہینے سال میں تبدیل ہوتے گئے، اس نے بڑی لگن اور محنت سے یہ ٹریننگ کا کورس پورا کر لیا۔ اس درمیان میں بھی اسپتال میں اپائنٹ ہوچکی تھی۔ ہاں شروع ہی سے پریرنا نے مجھ سے یہ التجا کر رکھی تھی کہ نرس کے روپ میں وہ میرے ہی اسپتال میں میرے ہی ساتھ کام کرے گی۔ اس کی چاہت تو مجھے پوری کرنی ہی تھی۔ ہم دونوں گھر سے ایک ساتھ نکلتے اور ساتھ ہی واپس لوٹتے۔ جلد ہی اس نے اپنی خدمت اور اپنی ذمہ داری سے سارے ڈاکٹرز اور سارے اسٹاف کا دل جیت لیا، یہاں تک کہ سبھی اسپتال میں آنے والے مریض، بوڑھے ہوں کہ بچے سب کا اچھی طرح خیال رکھتی، سب کی خدمت میں پیش پیش رہتی، سبھی اسے دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔
آج رات جب ہم دونوں گھر لوٹے امی ابو کے ساتھ ڈائننگ ٹیبل پر کھانے کیلئے بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ میں نے دیکھا پریرنا، کھانا کم کھا رہی ہے اور مسکرائے زیادہ جا رہی ہے، تو میں نے ابو امی سے کہا، ’’کچھ نوٹ کیا آپ لوگوں نے سٹر پریرنا کس طرح مسکرائے جارہی ہے۔ آخر ہم بھی تو جانیں کہ اس مسکراہٹ کی کیا وجہ ہے؟‘‘ ’’ڈاکٹر صاحبہ آج زندگی میں میں بہت خوش ہوں اس کی ایک خاص وجہ ہے جسے سوچ سوچ کر میرے ہونٹ فخر سے مسکرائے جارہے ہیں۔‘‘ ’’ارے بھئی وہ وجہ تو بتاؤ؟‘‘ ’’ڈاکٹر صاحبہ وجہ تو صرف اور صرف آپ ہی ہیں۔ نام تو میرا پریرنا ہے مگر مجھے آپ سے زندگی جینے کی پریرنا ملی ہے۔ آپ نے میرا ہاتھ اس وقت تھاما جب مجھے نہ کسی راہ کا پتہ تھا اور نہ ہی کسی منزل کی خبر، جینے کی آشا ہی مجھ میں دم توڑ چکی تھی۔ آپ نے مجھے صحیح راہ دکھلائی اور آپ کے ملنے سے مجھے آج میری منزل مل گئی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کاش ہر مجبور و بے بس کو آپ جیسے کوئی فرشتہ صفت انسان مل جائیں جن کے آگے امیری غریبی، ذات پات کوئی معنی نہیں رکھتے سوائے انسانیت کے۔‘‘ ’’بس بس پریرنا اب بس بھی کرو تم تو لیکچر دینے لگ گئی۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے تمہارے لئے تو میں صرف ایک ذریعہ بنی ہوں جو کچھ بھی کیا اوپر والے نے کیا ہے۔ اب رہی ذات پات کی بات تو تم ہی سوچو ہم بھی انسان ہیں اور تم بھی انسان، ایسے میں ہمارا ایک ناطہ تو ہوا نہ، انسانیت کا ناطہ اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی رشتہ معنی نہیں رکھتا۔ اب یہ سب چھوڑو مجھے تمہاری ایک بات بہت کھٹکتی ہے اور بالکل بھی اچھی نہیں لگتی؟‘‘ اس نے حیرانی سے مجھے تکتے ہوئے پوچھا، ’’کون سی بات ڈاکٹر صاحبہ!‘‘ ’’دیکھا یہی بات ڈاکٹر صاحبہ والی۔ اتنے دن ہو گئے ہیں ساتھ رہتے ہوئے میں تمہیں اپنی چھوٹی بہن کی طرح پیار کرتی ہوں اور تم ہو کہ مجھے دیدی نہیں بلا سکتی.... باتیں تو بہت بڑی بڑی کرنے لگی ہو اوروں کی طرح تم بھی مجھے ڈاکٹر صاحبہ ہی بلاتی ہو۔ امی ابو آپ ہی سمجھائیے نا اسے۔ یہ کہاں کا انصاف ہوا... پریرنا آج سے بلکہ ابھی سے تم مجھے دیدی بلاؤ گی۔ کہو بلاؤ گی نا؟‘‘ پریرنا کی آنکھیں خوشی سے چھلک پڑیں اور وہ جھٹ سے بول پڑی، ’’ہاں دیدی میں آج سے بلکہ ابھی سے آپ کو دیدی بلاؤں گی....‘‘ ہم دونوں کی پیار بھری تکرار سے امی ابو دونوں ہی مسکرائے جارہے تھے اور کمرے میں ہم دونوں کی کھلکھلانے کی آواز گونجنے لگی!