یہاں ہر دیوار پر باریک باریک روشنی کی لکیریں چلتی تھیں، جیسے کوئی نامعلوم ہستی سانس لے رہی ہو۔
EPAPER
Updated: December 29, 2025, 8:21 PM IST | Dr. Asma binte Rahmatullah | Mumbai
یہاں ہر دیوار پر باریک باریک روشنی کی لکیریں چلتی تھیں، جیسے کوئی نامعلوم ہستی سانس لے رہی ہو۔
شہر کے عین مرکز میں ایک عمارت تھی....
’ہال آف وائسز‘
(آوازوں کا گھر)،
جہاں لوگ اپنی گمشدہ آوازیں تلاش کرنے آتے تھے۔
یہاں ہر دیوار پر باریک باریک روشنی کی لکیریں چلتی تھیں، جیسے کوئی نامعلوم ہستی سانس لے رہی ہو۔
اس عمارت کا سب سے پراسرار کمرہ
’گمشدہ نقش‘
کے نام سے مشہور تھا۔
کہا جاتا تھا کہ یہاں آنے والے ہر شخص کا اصل سایہ اس سے الگ ہو کر دیواروں میں محفوظ ہو جاتا ہے، اور اگر کوئی شخص اپنی حقیقت کا سامنا نہ کرسکے تو اس کا سایہ ہمیشہ کے لئے قید ہو جاتا ہے۔
کئی برسوں سے یہ ایک قصہ تھا، مگر پھر ایک دن
’’نائل‘‘
نام کا نوجوان وہاں داخل ہوا۔
نائل ایک ڈجیٹل آرٹسٹ تھا، وہ تصویریں نہیں بناتا تھا، بلکہ لوگوں کی ’’اندرونی کیفیتوں‘‘ کی نقش نگاری کرتا تھا۔
وہ کہتا تھا: ’’ہر انسان کے اندر ایک تصویر چھپی ہے، جو کبھی بیان نہیں ہوتی۔‘‘
اسی تلاش میں وہ ’ہال آف وائسز‘ پہنچا تھا۔
اس نے سوچا شاید یہاں اسے وہ ’ان کہی آواز‘ مل جائے جو برسوں سے اس کی اپنی تخلیق کو ادھورا کر رہی تھی۔
جیسے ہی وہ ’گمشدہ نقش‘ کے کمرے میں داخل ہوا، دروازہ خود بخود بند ہوگیا۔ اور کمرہ روشن ہونے لگا....
ہر جانب روشنی کی لکیریں تیزی سے گردش کر رہی تھیں۔
نائل نے دیکھا کہ سامنے دیوار پر اسکا سایہ بن رہا تھا....
مگر یہ وہ سایہ نہیں تھا جو روزمرہ کی دھوپ میں بنتا ہے۔
یہ سایہ زندہ تھا....
اس کی آنکھیں، اس کی سانس....
سب کچھ اس کی حقیقت سے زیادہ واضح تھا۔
سایہ بولا: ’’نائل! تو دنیا کی تصویریں بناتا رہا، مگر کبھی اپنی آواز نہیں سنی۔
تو نے دوسروں کی روح کو پڑھا، مگر اپنی کو بند صندوق میں رکھا۔ اب فیصلہ کر....
اپنی تصویر مکمل کرنا چاہتا ہے، یا گمشدہ نقش بن کر رہنا؟‘‘
نائل نے پہلی بار اپنے ہی وجود کو بولتے دیکھا۔
اس نے پوچھا:
’’میری اصل تصویر کیا ہے؟‘‘
سایہ مسکرایا:
’’یہ تو تجھے خود بنانی ہے۔
لیکن شرط ایک ہے....
سچائی کے بغیر لکیریں نہیں بنتیں۔‘‘
اچانک کمرے کے بیچ میں
ایک شفاف کینوس نمودار ہوا۔
اس پر کوئی رنگ، کوئی بناوٹ نہ تھی۔
صرف خاموشی....
نائل نے برش اٹھایا....
مگر اس بار رنگ اس کے ہاتھ میں نہیں تھے۔
ہر رنگ اس کے دل کی کیفیت بن کر خود ظاہر ہوتا تھا۔
وہ جیسے جیسے سچائی سے گزرتا،
پینٹ بھرتا جاتا....
پہلی لکیر: اس کا خوف
دوسری لکیر: بے آواز چیخیں
تیسری لکیر: چھپی ہوئی خواہشیں
چوتھی لکیر: ادھورا عشق
پانچویں لکیر: وہ فردا جس سے وہ بھاگتا رہا
آخری رنگ سب سے گہرا تھا....
’اپنی پہچان‘ کا رنگ۔
اور جیسے ہی اس نے آخری لکیر کھینچی....
کمرے کی تمام روشنی ساکت ہوگئی۔
اس کا سایہ کینوس میں سمٹ کر
اُس کی تصویر میں قید ہوگیا۔
دیوار پر صوتی سرگوشی ابھری:
’’جس دن انسان اپنا نقش خود بنا لے،
دنیا اسے مٹانا بھول جاتی ہے۔‘‘
دروازہ کھل گیا۔
نائل باہر آیا تو لوگ حیران کھڑے تھے۔
اس کی آنکھوں میں ایک عجیب چمک تھی....
جیسے وہ پہلی بار دنیا کو دیکھ رہا ہو۔
اس دن کے بعد نائل کی بنائی ہوئی تصویروں کو
’’خاموشیوں کے نقش‘‘
کہا جانے لگا۔
کیونکہ وہ تصویریں بولتی نہیں تھیں....
دیکھنے والے کو اپنی خاموشی میں لے جاتی تھیں۔
اور نائل....
اب کسی مجمع کا محتاج نہیں رہا تھا۔
وہ جان چکا تھا کہ سب سے بڑی دریافت،
انسان کو اپنی اندرونی آواز کی ہوتی ہے۔