Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ: اوڑھنی

Updated: May 11, 2025, 1:26 PM IST | Tayyaba Asrar Ahmed | Mumbai

یہ اوڑھنی ماں کی پسندیدہ اوڑھنی تھی ایک نرم و نازک سر پوش جو ماں کی محبت کی گواہی دیتی تھی۔ اس میں ایک عجیب سی سکون بخش حرارت تھی۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

اس نے اوڑھنی تھامی اور ماضی دبے قدموں اس کے دل میں اترنے لگا۔ ہر دھاگہ ایک قصہ، ہر خوشبو ایک صدا۔ یہ وہی اوڑھنی تھی جو اس کی ماں اوڑھا کرتی تھی۔ سفید، نرم کاٹن کی، جس کے کناروں پر ہلکے گلابی رنگ کے گوٹے لگے تھے۔ یہ اوڑھنی صرف ایک عام کپڑے کا ٹکڑا نہیں، ایک پورا زمانہ تھا جو اس کے ہاتھوں میں لرز رہا تھا۔ ماں کی اوڑھنی.... کبھی سائبان بنی، کبھی پردہ، کبھی آنسو پونچھنے کا سہارا۔ ماں کی محبت، شفقت اور محفوظ پناہ کی علامت۔ جو ہر لمحہ ماں کی قربت اور دعاؤں کا احساس دلاتی ہے۔ وہی اوڑھنی آج اس کے لئے ایسا تکیہ بن چکی تھی جس میں وہ اپنی یادوں کو سینت رہی تھی۔
یہ اوڑھنی ماں کی پسندیدہ اوڑھنی تھی ایک نرم و نازک سر پوش جو ماں کی محبت کی گواہی دیتی تھی۔ اس میں ایک عجیب سی سکون بخش حرارت تھی۔
’’اس میں میری ممتا کا لمس ہے۔ جب دل پر موسم خزاں اترے اسے اوڑھ لینا یہ تمہیں میری آغوش کی طرح سکون دے گی۔‘‘ ماں کے یہ الفاظ جیسے خاموشی سے اس کی سماعتوں میں گونجنے لگے۔
کچھ دیر قبل جب وہ امی کے کمرے میں داخل ہوئی تو ایک عجیب سے احساس نے اسے آ گھیرا۔ وقت کی گرد ہر چیز پر چھا چکی تھی، لیکن کچھ چیزیں وقت سے بالاتر تھیں.... امی کی پسندیدہ اوڑھنی، میز پر رکھا چھوٹا سا قرآن، اور کمرے کی فضا میں گھلی مانوس خوشبو اسے ماضی میں لے آئی۔ اوڑھنی کے گوٹے چمک رہے تھے، جیسے امی کی آنکھوں کا نور اب بھی اس میں بسا ہو۔ اس نے اوڑھنی سر پر لی، آنکھیں بند کیں، اور یوں لگا جیسے ماں کے نرم ہاتھ اس کی پیشانی پر رکھے ہوں۔ امی کی باتیں، کسی بند صندوق سے خوشبو کی طرح نکلتی یادیں، ہر لفظ اس کے دل پر دستک دیتا جیسے امی اب بھی وہیں ہوں، مسکرا رہی ہوں۔
’’بیٹی، جب تم اس اوڑھنی کے سائے میں رہو گی، زمانے کی تلخ ہوائیں تمہیں چھو بھی نہ سکیں گی۔ یہ میری دعاؤں کا حصار ہے۔‘‘
اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ درختوں کی شاخوں پر رنگ بکھر رہے تھے، فضا میں اک تازگی در آئی تھی۔ آسمان پر ہلکی روشنی پھیل رہی تھی۔ وہ روشنی، جو کسی ماں کی دعا کی مانند، دھیرے دھیرے اندھیرے کو مٹا رہی تھی۔ اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اس نے اوڑھنی کو اپنے چہرے سے لگا لیا۔
’’امی، تمہاری محبت کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ یہ اوڑھنی اب صرف ایک یادگار نہیں، میری محافظ، میری طاقت ہے۔‘‘
وہ جانتی تھی کہ اس کے پاس ایک ایسا خزانہ ہے، جو وقت کی دستبرد سے محفوظ ہے۔ ماں کی محبت، اس کی دعائیں، اور وہ لمس سب کچھ اس کے پاس تھا۔ اوڑھنی اس کے سر پر تھی، اور وہ وقت کے شور سے پرے، ایک خاموش پناہ میں ماں کی آغوش میں سانس لے رہی تھی۔ یہی لمس، یہی سکون، زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ اور محفوظ پناہ تھی۔ مائیں چلی بھی جائیں تو اپنی اوڑھنی چھوڑ جاتی ہیں جو بیٹی کے وجود کو ہر دکھ، ہر تنہائی سے بچاتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK