Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : پرومِس

Updated: June 19, 2025, 4:18 PM IST | Jilani Bano | Mumbai

’’امو، امو، ابھی آپ با کل ٹھنڈی پڑ گئی تھیں۔‘‘ ’’ہم سمجھے کہ.... کہ....‘‘ امو کے آس پاس کھڑے ان کے تینوں بیٹے، ان کی بیویاں ان کے بچے، سب گھبرا گئے.... امو زندہ ہیں.... ہم سمجھے کہ.... کہ.... ہم نے ان کے مرنے کا دکھ کتنی آسانی سے سہہ لیا.... امو سب کی طرف بڑے دُکھ کے ساتھ دیکھ رہی تھیں۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

جیلانی بانو
’’امو، امو، ابھی آپ با کل ٹھنڈی پڑ گئی تھیں۔‘‘ ’’ہم سمجھے کہ.... کہ....‘‘ امو کے آس پاس کھڑے ان کے تینوں بیٹے، ان کی بیویاں ان کے بچے، سب گھبرا گئے.... امو زندہ ہیں.... ہم سمجھے کہ.... کہ.... ہم نے ان کے مرنے کا دکھ کتنی آسانی سے سہہ لیا.... امو سب کی طرف بڑے دُکھ کے ساتھ دیکھ رہی تھیں۔ ان کے سب سے بڑے بیٹے نے کتنی جلدی سفید کپڑا ڈال کر امو کا منہ چھپانا چاہا.... اگر امو ہاتھ اُٹھا کر چادر نہ ہٹا دیتیں تو شاید وہ سب دوسرے کمرے میں جا کر انہیں دفن کرنے کی تیاری شروع کر دیتے۔ وہ سب نظریں جھکائے کھڑے تھے۔ جیسے امو نے دیکھ لیا کہ ان کے مرنے پر کسی کی آنکھ سے ایک آنسو بھی نہیں نکلے گا۔
 دو برس ہو گئے جب ڈاکٹر نے کہا تھا کہ کینسر، امو کے سارے بدن میں پھیل گیا ہے۔ کسی بھی وقت انہیں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ جب سے یہ بات ان کی دونوں بہوؤں نے سنی تھی وہ امو کا زیادہ خیال کرنے لگی تھیں۔ ہر مہینے فون پر امو کی خیریت پوچھتیں۔ دوسری بہو امریکن تھی۔ وہ انڈیا کی گرمی برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ پھر بھی وہ ہر سال آتی۔ کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرتی تھی۔ حیدر آباد کی سیر تفریح سے فرصت ملتی تو کسی دن امو کی مزاج پرسی بھی کر لیتی تھی۔ تینوں بیٹے ان کے علاج کیلئے بڑی پابندی سے ڈالر اور ریال بھیجتے تھے۔ امو کے لئے بہت اچھا ڈاکٹر، بہترین علاج۔ گھر میں ہر طرح کا آرام۔ دن رات خدمت کرنے والی خواجہ بی، جسے دور بیٹھی بہوئیں انعام اکرام سے نوازتی رہتی تھیں۔
 شکاگو میں ایک دن صبح سویرے خواجہ بی کا فون آیا۔ ’’بیگم صاحب کی طبیعت بھوت خراب ہے۔ ڈاکٹر صاحب بولے ان کے بیٹوں کو فون کر دو۔ سب کو جلدی آجاؤ بولو۔‘‘ اس فون سے سارے گھر میں ہلچل مچ گئی۔ سب کے پروگرام ڈسٹرب ہوگئے۔ ’’افوه! امو ہمیشہ اسی طرح پریشان کرتی ہیں۔ بھلا یہ کوئی موسم ہے انڈیا جانے کا۔ گرمی کے مارے مرجائینگے ہم سب۔‘‘ ان کی بہو نسیم گھبراگئی۔ ’’ہیلو.... ہیلو....‘‘  چاروں طرف سے فون آنے لگے۔ نیو یارک سے جمشید کہہ رہا تھا۔ ’’بھائی جان! خواجہ بی کا فون آیا ہے کہ.... کہ ۲۴؍ گھنٹے لیکن مجھے اس وقت لیو لینا بہت مشکل ہے۔‘‘ ’’لیکن جمشید! تمہیں یاد ہے کہ ہم سب نے امو سے ’پرومِس‘ کیا تھا کہ ہم چاروں بھائی مل کر اُن کی ڈیڈ باڈی اٹھائینگے۔ اسلئے ہمیں جانا پڑیگا۔‘‘ رشید نے اسے سمجھایا۔ پھر دبئی سے تیسرے بھائی خورشید کا فون آیا۔ ’’بھائی جان! ہم سب مل کر امریکہ تفریح کرنے جارہے تھے۔ اب نشی کو بھی ساتھ لے جاؤں تو انڈیا میں گرمی بہت ہوگی۔ آپ وہاں کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں ہمارے لئے ریزویشن کروا دیجئے۔‘‘ ’’ہاں بھئی میرے لئے بھی اس موسم میں انڈیا جانا بہت مشکل ہے۔‘‘ ’’امو اچھی بھلی ہوں گی۔ ذرا دل گھبرایا خواجہ بی سے فون کروا دیا ہے۔‘‘ ’’خورشید! ابھی میں نے ڈاکٹر عارف سے بات کی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ زیادہ سے زیادہ ۲۴؍ گھنٹے....‘‘ ’’تو پھر میں آجاؤں گا، دہلی کے ایک سمینار کا انوی ٹیشن بھی آیا ہے۔‘‘ ’’ارے پھر تو ہم ایک ہفتے میں واپس آجائینگے نا ڈیڈ....‘‘ پنکی نے خوش ہو کر کہا۔ ’’ہاں بے بی۔ ہم چاروں بھائیوں نے امو سے پرومِس کیا ہے کہ ہم ان کی ڈیڈ باڈی....‘‘ ’’آفٹر ڈیتھ؟‘‘ بے بی نے ہنس کر کہا، ’’گرینڈ مم نے اپنے چاروں بیٹوں کے ساتھ زندگی انجوائے کرنے کا کوئی پرومِس کیوں نہیں لیا؟‘‘
ز ز ز
 ’’پانی.... پانی.... خواجہ بی.... خواجہ بی کہاں مرگئی.... کس کا فون آیا ہے؟ دروازے پر کون آیا ہے؟‘‘ خواجہ بی کمرہ بند کئے اپنے میاں کے ساتھ سوتی رہتی تھی۔ بڈھی کو چلّانے کی عادت ہوگئی ہے۔ میں تو پاگل ہو جاؤں گی۔ کوئی دوسری نوکری ڈھونڈو جی اب۔‘‘
ز ز ز
 ان کے میاں کی وکالت بس یوں ہی چلتی تھی۔ مگر امو نے جائیداد بیچ کر چاروں بیٹوں کو ڈاکٹر انجینئر بنا دیا۔ اچھی ڈگریاں ملتے ہی ان سب کے پنکھ نکل آئے۔ اور انہوں نے امریکہ کی طرف پرواز کی ٹھانی.... امو کو یہ بات اچھی نہ لگی۔ اتنی دور۔ اللہ میاں کے پچھواڑے۔ ہم سب امریکہ میں جا بسیں گے ؟ ’’ہم سب.... تمہیں کون لے جائیگا امریکہ.... بچوں کے ابانے ہنس کر کہا تھا۔ ’’امریکہ میں ماں باپ نہیں رہتے ہیں۔ وہ نوجوانوں کا ملک ہے۔‘‘ ’’اچھا؟ تو ماں باپ کہاں جائیں؟‘‘ امو نے تعجب سے پوچھا تھا۔ ’’کوڑے کی ٹوکری میں....‘‘ ابا نے خفا ہو کر کہا تھا۔
ز ز ز
 کتنی بار وہ فون پر یہ کہتی تھیں۔ ’’رشید اب میں تمہارے پاس آجاؤں گی۔ مجھے روز بخار آجاتا ہے۔ کھانسی بہت بڑھ گئی ہے۔ اکیلے گھر میں جی گھبراتا ہے۔‘‘ ’’مگر امو آپ کی بیماری کا علاج یہاں بہت مہنگا ہے۔ گھر میں کوئی نہیں رہتا۔ آپ کی دیکھ بھال کیسے ہوگی؟‘‘ رشید امو کو اپنی مجبوری سناتا تھا۔ ’’اچھا پھر ہنی اور طارق سے کہو مجھ سے فون پر بات کریں۔ بچوں کو دیکھنے کو جی چاہتا ہے میرا....‘‘ بچوں کو یاد کرکے انہیں رونا آجاتا تھا۔ ’’وہ بات یہ ہے امو کہ بچوں کو اردو نہیں آتی۔ اسلئے وہ آپ کی بات نہیں سمجھ سکتے۔‘‘ امو فون رکھ دیتیں۔ میری بات کوئی نہیں سمجھتا۔ نہ بچے نہ ان کے ماں باپ.... جب تینوں بھائی امریکہ گئے تو امو، ابا کے پاس حمید کو چھوڑ گئے تھے۔ حمید کا دل پڑھائی میں نہیں لگتا تھا۔ سارا دن نکمے دوستوں کے ساتھ گھومتا۔ کبھی اسٹوڈنٹس یونین کا جھنڈا تھامے سڑکوں پر گھوم رہا ہے تو کبھی کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ نعرے لگا رہا ہے۔ پھر ایک دن سنا کہ وہ کسی پارٹی میں شامل ہوگیا ہے۔ ’’تمہارے امتحان میں ایک مہینہ رہ گیا ہے۔ اسٹڈی کیوں نہیں کرتے!‘‘ ابا اسے بار بار یاد دلاتے تھے۔ ’’ابا میں اس سال امتحان نہیں دوں گا۔ مجھے الیکشن کا کام کرنا ہے۔‘‘ ابا بہت خفا ہوئے۔ امو نے رو رو کر سمجھایا مستقبل کے بھیانک نقشے کھینچے، جب زندگی بھر بھائیوں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑیگا مگر حمید اب گھر بہت کم آتا تھا۔
 پھر خبر آئی کہ کسی مخالف پارٹی کے ممبر کو مارنے کے جرم میں حمید گرفتار ہوگیا ہے۔ سنا ہے وہ آدمی اسپتال میں مر گیا۔
 ایک دن حمید کا ایک دوست آیا تو اس نے امو سے کہا۔ ’’کوئی پارٹی ورکر دو چار مرڈر کر ڈالے تو پارٹی اسے الیکشن کا ٹکٹ دینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔‘‘ وہی ہوا حمید کے گناہوں کی لمبی لسٹ نے اسے اپنی پارٹی کا سب سے اہم لیڈر بنا دیا۔ ’’اب دیکھتا ہوں کہ ہمارے حلقے کا کون ووٹر ہے جو مجھے ووٹ دیئے بغیر زندہ رہ سکتا ہے۔‘‘ امو اور ابا دَم سادھے بیٹھے رہتے تھے۔ جب گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے ایک جلوس کے ساتھ حمید گھر آیا۔ ابا دونوں ہاتھوں سے منہ چھپائے بیٹھے تھے وہ ابا سے گلے ملنے کیلئے جھکا تو ابا نیچے گر پڑے۔ پھر حمید منسٹر بن گیا اور ضد کی کہ امو میرے ساتھ دہلی چلئے۔ سرکاری بنگلے میں رہنا۔ گورنمنٹ کے جھنڈے والی کار میں گھومنا۔ خوب ٹھاٹ کرنا۔ امو نے منسٹر کی امی بننے کیلئے کئی نئے جوڑے سلوائے۔ نئی چپل خریدی۔ مگر وہ منسٹر کے بنگلے میں فٹ نہ ہوسکیں۔ نوکروں سے گوشت ترکاری کا حساب مانگتیں۔ چوکیدار اور ڈرائیور کے سلاموں کے جواب میں جیتے رہو سلامت رہو کہ کر خوش ہوتیں۔ بنگلے کے لان میں دھوپ کے رخ کھاٹ ڈال کر پاپڑ سکھانے بیٹھ جاتیں۔ چنانچہ منسٹر کی بیگم نے انہیں پھر وہیں بھیج دیا جہاں وہ سر جھکائے اچار اور مربے بنانے میں جٹی رہتی تھیں۔
ز ز ز
 تین دن ہوگئے.... سب امو کے آس پاس ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ بار بار آکسیجن کا ٹیوب ٹھیک کرتے۔ امو کو کچھ ہونے والا ہے.... اس آنے والے دُکھ کو وہ اپنے چہروں پر پینٹ کر چکے تھے۔ امو بڑی مشکل سے آنکھ کھول کر سب کو دیکھتیں۔ ’’حمید نہیں آیا.... میرا حمید....‘‘ ’’شاید امو کا دَم حمید میں اٹکا ہوا ہے....‘‘ خواجہ بی بی کہہ رہی تھیں کہ حمید دہلی میں ہے۔ اس بار اس کی پارٹی کو الیکشن میں اکثریت نہیں ملی۔ اب حمید منسٹر نہیں رہے گا۔ ایسے وقت میں دہلی سے باہر کیسے جاسکتا ہے۔ ’’مگر ہم سب نے امو سے وعدہ کیا تھا کہ ان کے آخری وقت....‘‘ رشید بہت غصہ میں تھا۔ امو بار بار آنکھیں کھول لیتیں۔ ’’تم سب کو اپنے پاس دیکھ کر میرا جی چاہ رہا ہے کہ.... کہ.... بچوں کو اپنے ہاتھ سے بنا کر پلاؤ....‘‘ ’’اس وقت میں امو کا دل پلاؤ میں اٹکا ہوا ہے.... اللہ توبہ.... ان کی بڑی بہو نے گالوں کو چھو کر امو سے کہا۔ ’’امو.... یٰسین شریف پڑھئے۔ اللہ کو یاد کیجئے۔‘‘ ’’میرا حمید! اب میرے جنازے کو کاندھا دینے....‘‘ وہ پھر رونے لگیں، ’’تم سب نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میرے جنازے کو چاروں بھائی مل کر اٹھاؤ گے۔‘‘ ’’ہیلو ہیلو.... اب امو کا کیا حال ہے۔‘‘ حمید کا دہلی سے فون آگیا۔ ’’کیا؟ آکسیجن دی جارہی ہے مگر اب آکسیجن دینے سے کیا فائدہ جب ڈاکٹر کہہ چکا ہے کہ.... بھائی جان میری بات سنئے۔ اگر خدانخواستہ امو کو آج رات میں کچھ ہوگیا تو پرائم منسٹر بھی مجھے پر سہ دینے آئینگے لیکن پرسوں ہماری منسٹری ختم ہو رہی ہے۔ اسلئے آپ امو کو فوراً کسی اچھے شاندار اسپتال میں لے جائیے۔ انتقال کی نیوز ٹی وی پر آئے تو اس اسپتال کا نام بھی ہونا چاہئے۔‘‘ پھر اس نے کہا، ’’ذرا بھابھی کو فون دیجئے۔‘‘
 ’’ہیلو بھابھی.... سب انتظام اچھا کیجئے۔ خرچ کی فکر مت کرنا۔ ممکن ہے ٹی وی والے بھی اپنی نیوز میں شامل کرنے کیلئے گھر پر آئیں۔‘‘ ’’آپ فکر نہ کریں حمید بھائی۔ مَیں نے سب انتظام کر دیا ہے۔‘‘ بھابھی نے اطمینان دلایا۔ ’’کیا کہہ رہا ہے حمید؟ کب آرہا ہے وہ؟‘‘ امو نے ڈوبتی سانسوں کو روک کر پوچھا۔ تب ڈرائنگ روم میں جا کر خورشید نے کہا، ’’کل مجھے دہلی میں ایک سمینار اٹینڈ کرنا ہے۔‘‘ ’’اور میں صرف تین دن کی لیو لے کر آیا تھا۔‘‘ ’’بچے گرمی سے گھبرائے جارہے ہیں۔‘‘ امریکن بہو نے منہ بنا کر کہا۔
 صبح سویرے.... امو کی آنکھ کھلنے سے پہلے وہ سب چپکے چپکے گیٹ کے باہر نکلے۔ انہوں نے خواجہ بی کو امو کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنے کی ہدایت دی اور بہت سے ڈالر، ریال، روپے اس کے ہاتھ میں تھما دیئے۔ ’’امو کی خیریت کیلئے ہمیں فون کرتی رہنا، بائی بائی....‘‘
 خواجہ بی اندر آئی اور یہ دیکھ کر ڈر گئی کہ امو کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ شاید انہوں نے اپنے بیٹوں کو جاتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ پھر اس نے ایک دکان کا فون نمبر ملایا، ’’ہیلو.... میت لے جانے والی ایک لاری بھیج دیجئے اور ساتھ میں چار آدمی بھی ہوں۔ اور کچھ نہیں چاہئے۔ ان کے لڑکے ہر چیز کا انتظام کر گئے ہیں۔‘‘n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK