سپریم کورٹ میںالیکشن کمیشن اپنے موقف پر قائم، اسو سی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس نے نشاندہی کی کہ جو انتقال کرچکے ہیںان کے بھی فارم بھر دیئے گئے۔
EPAPER
Updated: July 28, 2025, 9:25 AM IST | Inquilab News Network | New Delhi
سپریم کورٹ میںالیکشن کمیشن اپنے موقف پر قائم، اسو سی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس نے نشاندہی کی کہ جو انتقال کرچکے ہیںان کے بھی فارم بھر دیئے گئے۔
آدھار،راشن کارڈ اور ووٹر شناختی کارڈ کو بھی بطور ثبوت قبول کرنے کے سپریم کورٹ کے مشورہ کو نظر انداز کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے اتوار کو بہار میں ’’ووٹر لسٹ کی خصوصی جامع نظر ثانی ‘‘ مہم کا پہلا مرحلہ مکمل کرلیا۔اب اسے پیر کوسپریم کورٹ میں انتہائی عجلت میں مکمل کی گئی اس مہم پر اٹھنے والے نئے اور چبھتے ہوئے سوالوں کے جواب دینے پڑ سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ پیر کو اس معاملے پر شنوائی کریگا جبکہ عرضی گزاروں میں شامل اے ڈی آر نے سماعت سے قبل عدالت کو تحریری طورپر آگاہ کیا ہے کہ کس طرح ووٹر لسٹ نظر ثانی کے نام پر اندھیر نگری چوپٹ راج جیسی کیفیت رہی ہے۔ اے ڈی آر نے عدالت کوشواہد کے ذریعہ آگاہ کیا ہے کہ متعدد ووٹرس کو پتہ چلے بغیر ان کے فارم بھرےگئے اور جو ووٹر مر چکے ہیں ان کے فارم تک بھر دیئے گئے ہیں۔
سپریم کورٹ سے امیدیں
اپوزیشن نے اس عمل کو ’’ ووٹ بندی‘‘ اور ’’ووٹ چوری‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ سبھی کی نگاہیں عدالت پر مرکوز ہیں۔جسٹس سوریہ کانت اور جوئے مالا باغچی کی بنچ میں اس معاملہ کی سماعت ہوگی۔ گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے گرچہ نظر ثانی کے عمل پر روک لگانے سے انکار کردیا تھا تاہم الیکشن کمیشن پر زور دیا تھا کہ وہ آدھار کارڈ،ووٹرآئی ڈی کارڈ اور راشن کارڈکو کو بھی دیگر دستاویزات کے ساتھ قبول کرے۔ عدالت نے خصوصی نظرثانی کے عمل کو چیلنج کرنے والوں کو بھی اس بات کی آزادی تھی کہ وہ اگلی سماعت پر اپنے اعتراضات پیش کریں۔عرضی گزاروں نے خود ہی کہاتھا کہ وہ اس مرحلہ پر کسی عبوری راحت کامطالبہ نہیں کر رہے ہیں۔گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف انڈیا سے کئی سخت سوالات بھی کئے تھے۔ووٹر لسٹ کی خصوصی نظر ثانی مہم کی آڑ میں شہریت کے تعین پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے عدالت میں یہ بات بھی زیر بحث آئی تھی کہ شہریت کے تعین کا کام الیکشن کمیشن کا نہیں بلکہ مرکزی وزارت داخلہ کا ہے۔ اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ آرٹیکل ۳۲۶؍ کے تحت اسے یہ اختیار حاصل ہے۔ اس پر جسٹس سدھانشو دھولیہ اور جسٹس جوائے مالا باغچی نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کو یہ عمل بہت پہلے شروع کردینا چاہئے تھا۔
اپوزیشن کی ۹؍ پارٹیاں عرضی گزار
اسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس اور اپوزیشن کی ۹؍ پارٹیوں نے بہار میں ووٹر لسٹ کی خصوصی نظر ثانی مہم کو چیلنج کیا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی ہے کہ الیکشن کمیشن جو کر رہا ہے وہ جمہوریت کی جڑ اور ووٹ دینے کے حق سے متعلق ہے۔ عرضی گزاروں نے خصوصی نظر ثانی مہم اور اس کے طریقہ کارکو بطور خاص چیلنج کیا ہے۔ بنچ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نہ تو سرسری نظر ثانی کرارہاہے اور نہ ہی گہرائی کے ساتھ نظر ثانی کررہاہے بلکہ وہ خصوصی طورپر گہرائی کے ساتھ نظر ثانی کررہاہے جوایکٹ میں موجود ہی نہیں۔
نظر ثانی مہم میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی
اس بیچ اسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک رائٹس (اے ڈی آر)نے سنیچر کو سپریم کورٹ میں تازہ شواہد پیش کرتے ہوئے آگاہ کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے اس پورے عمل میں شدید بے ضابطگیاں پائی گئی ہیں۔ اے ڈی آر نے نشاندہی کی ہے کہ ’’مرے ہوئے لوگوں تک کے فارم بھر دیئے گئے ہیں۔‘‘واضح رہے کہ کسی کا بھی فارم اسی وقت بھرا جاسکتاہے جب اس پر اس کے دستخط ہوں مگر الزام ہے کہ بہار میں بی ایل او خود ہی ووٹر کے جعلی دستخط کرکے فارم اَپ لوڈ کر رہے ہیں۔ اے ڈی آر کی جانب سے کورٹ کو مطلع کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ ’’بی ایل او خود فارم پر دستخط کرتے پائے گئے۔ مرے ہوئے لوگوں کے نام سے بی ایل او کو فارم بھرتے ہوئےکئی خبروں میں دکھایا گیا اور جن لوگوں نے فارم نہیں بھرے تھے انہیں یہ پیغام بھیجا گیا کہ ان کے فارم بھر دیئے گئے ہیں۔‘‘ اے ڈی آر کے ساتھ ہی آر جے ڈی نے بھی اضافی معلومات سپریم کورٹ کو فراہم کی ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ کئی ووٹرس نے بتایا ہے کہ ان کے فارم آن لائن جمع کر دیئے گئے ہیں جبکہ انہوں نے نہ تو کبھی کسی بی ایل او سے ملاقات کی اور نہ ہی کسی دستاویز پر دستخط کئے۔ سپریم کورٹ میں داخل کئے گئے تازہ اعتراض میں آر جے ڈی نے کہا کہ ’’میڈیا رپورٹس میں ایسی بے شمار مثالیں سامنے آئی ہیں۔‘‘اس سے قبل الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں دیئے گئے اپنے جواب میں کسی بھی طرح کی بے ضابطگی کی تردید کی ہے۔