Inquilab Logo Happiest Places to Work

۳۳؍ سالہ ریما حسن فرانس میں فلسطین حامی تحریک کی علامت بن کر اُبھری ہیں

Updated: July 28, 2025, 1:03 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

اسرائیل کے خلاف عالمی قوانین کے اطلاق کی وکالت کرنےوالی یورپی پارلیمنٹ کی یہ نوجوان رکن مسئلہ فلسطین کے’یک ریاستی حل‘‘ کی وکالت کرتی ہے۔ 

Picture: INN
تصویر: آئی این این

امیگریشن کی وکالت کرنے والی  یورپی پارلیمنٹ کی پرجوش رکن  ۳۳؍ سالہ ریما حسن  فرانس  اور یورپ کے سیاسی منظرنامے  پر فلسطین  حامی تحریک کی علامت بن کر ابھری ہیں۔ فرانس کے قومی  دھارے کی سیاست میں  بہت کم لوگ  اسرائیل  کو   بین الاقوامی قوانین کا پابند کرنے کی اس مہم کی حمایت کرتے ہیں جس کی ریما حسن متحرک رکن ہیں ۔ فرانس کے وزیر داخلہ برونو ریٹیلو توان   پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہوئے باقاعدہ شکایت بھی  درج کراچکے ہیں۔ فرانس کے ایک مشہور کامیڈین نے ان کا  مذاق اڑاتے ہوئے انہیں ’’لیڈی غزہ‘‘ کے لقب سے بھی نواز دیا۔ 
  فرانس کی بائیں بازو کے نظریات کی حامل سیاسی جماعت’’ لا فرانس انسومیز‘‘ (غیر مطیع فرانس‘‘ نامی پارٹی سے وابستہ  ریما  حسن   اس وقت پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنی تھیں جب    جون میں  وہ  ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ  کے ساتھ غزہ کی طرف روانہ ہونے والے قافلے کا حصہ بنیں۔  اس  بحری قافلہ کو اسرائیل نے غزہ تک پہنچنے نہیں دیا۔ صہیونی  فوجوں نے فلسطینی ساحل کے قریب  پہنچنے پر قافلے کی کشتی پر دھاوا بول کر  اس پر موجود حقوق  انسانی کے تمام علمبرداروں کو حراست میں لیا اور پھر ملک بدر کر دیا۔  اس واقعہ نے ریما کی شہرت میں غیر معمولی اضافہ کیا اور ایک سروے میں  وہ  فرانس کی۵۰؍  مقبول ترین شخصیات میں ۴۴؍ویں مقام پر پہنچ گئیں۔ 
  فرانسیسی اخبار ’ دی نیشنل‘ کو دیئے  گئے ایک انٹرویو میں ریما حسن نےاپنی جدوجہد کے حوالہ سے بتایا کہ ’’ وہ خود کو اُن بے آواز افراد کی آواز سمجھتی ہیں جنہیں  اقتدار    کےایوانوں میں سنا نہیں جاتا، جہاں  فیصلے کرنےوالےافراد نئی نسل کی سوچ سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ ریما جو محض ۳۳؍ سال کی عمر میں یورپی پارلیمنٹ کی رکن ہیں،   نےبتایا کہ ’’ یورپی پارلیمنٹ میں میں  خود کوبہت تنہا محسوس کرتی ہوں، خاص طور پراس وقت جب دیگر اراکین کی  اوسط عمر اور ان کےکیریئر کی نوعیت کو دیکھتی ہوں۔‘‘ریما حسن  خود کو سیاستداں  نہیں سمجھتیں۔ ان کے مطابق ’’میں شہری سماج  کا حصہ ہوں۔ میں سیاست کے سانچے میں ڈھلی ہوئی نہیں ہوں۔‘‘

 انسٹاگرام پر جہاں پروفائل تصویر میں وہ روایتی فلسطینی ’’کوفیہ‘‘  میں نظر آتی ہیں، ان کے ۱۰؍ لاکھ فالوور ہیں۔ یعنی  وہ گزشتہ برس کے پارلیمانی انتخابات میں پہلا مقام حاصل  کرنےوالی ملک کی دائیں بازو کی شدت پسند’’ نیشنل ریلی پارٹی‘‘  کے۲۹؍ سالہ نوجوان لیڈر جورڈن بارڈیلا  سے بھی  زیاد ہ مقبول ہیں۔
  ریما حسن مسئلہ فلسطین کے ’’یک ریاستی حل‘‘ (ن اسٹیٹ سلیوشن)کی وکالت کرتی ہیں اور اپنے بڑھتے ہوئے عوامی اثر و رسوخ کو اس کی وکالت کیلئے استعمال کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق اسرائیلیوں  اور فلسطینیوں کا ایک ہی ملک ہو جس میں  دونوں کی  قومی شناختوں کو تسلیم کیا جائے ۔اس کیلئے وہ سوئزرلینڈ  طرز کی کنفیڈریشن کی مثال دیتی ہیں جہاں  مختلف نسلی گروپس کو تسلیم کیا جاتا ہے۔  ان کےمطابق یک ریاستی حل میں فلسطینیوں کو بغیر کسی چیک پوائنٹ  یا بندش کے آزادانہ سفر کی بالکل اسی طرح اجازت ہو جیسی یہودی شہریوں کو ہے۔ تمام شہری خواہ وہ یہودی ہوں یا فلسطینی، ایک ہی پارلیمنٹ میں برابر کا ووٹ اور قانون سازی میں برابر کی حصہ داری ہو اور ۱۹۴۸ء  کے   نکبہ میں جن فلسطینیوں کو  ان کی سرزمین سے بے دخل کیا گیا ان کی وطن واپسی کا حق محفوظ رکھا جائے۔
 یہ ایک ایسی  تجویز ہے جسے اکثر مسترد کر دیا جاتا ہے ۔ مگر ریما کہتی ہیں’’ون اسٹیٹ سلیوشن سے زیادہ حقیقت پسندانہ  حل اور کوئی  نہیں  ہو سکتا۔‘‘ ان کے مطابق ’’میری نظر  سب سے  زیادہ ترقی پسندنظریہ  ہے۔ (لوگ اسے ذہین  طورپر نہیں قبول کرپارہے ہیں کیوں کہ )فلسطینی کاز کو سمجھنے میں ایک نسلی و نظریاتی خلا ہے۔‘‘  اپنے موقف کی تائید میں  نشاندہی کرتی ہیں کہ اوسلو معاہدہ  کے بعد پیدا ہونے والی نسل  جو ۱۹۹۰ء کی دہائی میں پیدا ہوئی  جس  میں وہ خود بھی شامل ہیں  از سر نو یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ امن و انصاف کس طرح ہو۔  ان کے مطابق ’’نئی نسل کے نظریات کو سمجھا نہیں جا رہا ہے۔‘‘ ریما حسن کا کہنا ہے کہ ’’یہ صرف قومیت کا معاملہ نہیں بلکہ برابری کے حقوق اور آزادانہ نقل و حرکت  کے حق کا سوال ہے۔‘‘اہم بات یہ ہے کہ ریما خود بھی فلسطینی نژاد ہیں۔  ۱۹۴۸ء کے نکبہ میں بے گھر ہونےوالے فلسطینیوں میں  ان  کے دادا دادی شامل تھے۔ وہ  شام کے ایک فلسطینی مہاجر کیمپ میں بے وطن پیدا ہوئیں اور  بچپن میں ہی وہاں سے  اپنی والدہ کے ساتھ  فرانس منتقل ہو گئیں۔انہیں اکثر شامی کہا جاتا ہے، حالانکہ ان کے پاس صرف فرانسیسی شہریت ہے — جسے کچھ لوگ ان کی ’’فلسطینی شناخت کو مٹانے کی کوشش‘‘ کے طورپر بھی دیکھتے ہیں۔  ۱۸؍ سال کی عمر میں ریما نے اپنے دادا پردادا کی سرزمین میں داخل ہونے کی پہلی کوشش کی تھی ۔اس وقت ان کے پاس فرانس کی شہریت تھی پھر بھی انہیں ملک   میں داخل نہیں ہونے دیاگیاتھا جس پر وہ روپڑی تھیں
 ’’ون اسٹیٹ سلیوشن‘‘ کوئی نیا نظریہ نہیں  ہے۔ اسے سب  سے پہلے۱۹۲۰ء کی دہائی میں پیش کیاگیاتھا  بعد میں   پی ایل او  نے زندہ رکھا۔ ۱۹۹۳ء میں  اوسلو معاہدہ کی عالمی  قبولیت  کی وجہ سے یہ نظر اوجھل ہوگیاتھا حالانکہ تب بھی ناقدین یہ کہہ رہے تھے کہ اس معاہدہ میںفلسطینی ریاست کے قیام کو یقینی نہیں بنایا گیا۔ فلسطینی اتھاریٹی کا قیام ناقص تھا مگر یہ پہلا موقع تھا جب اسرائیلی قیادت نے فلسطینی عوام کے وجود کو تسلیم کیا تھا۔بعد  میں  یہودی بستیوں کے پھیلاؤ اور فلسطینی علاقوں پر بڑھتے  قبضہ نے۲۰۰۰ءمیں دوسری تحریک  انتفاضہ کو جنم دیا۔ برسوں کے تعطل اور زمینی سطح پر کوئی پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے جس کے نتیجے میں غزہ جنگ جیسے حالات پیدا ہوئے ، دانشوروں اور نئی نسل میں ایک ریاستی حل کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔(بشکریہ: ’دی نیشنل‘)
  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK