Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ: قرض

Updated: May 13, 2025, 1:15 PM IST | Masroor Jahan | Mumbai

وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ ان میں سے کتنے ہی لوگ اس کے بابا کے مقروض تھے۔ یہ قرض مختلف صورتوں میں تھا.... اس میں ان کی فیس اور کتابوں سے لے کر کھانے پینے اور کپڑے لتّے تک کا خرچ شامل تھا

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

آبگینہ نے خطوط کے انبار پر نظر ڈالی.... یہ وہ خطوط تھے جو اس کے بابا کے انتقال پر تعزیت کے اظہار کیلئے آئے تھے.... ان کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ اس کے بابا کتنے ہر دلعزیز تھے.... کچھ لوگوں نے تو یہاں تک لکھا تھا کہ اس کو جب بھی کسی چیز کی ضرورت ہو.... فوراً انہیں لکھے.... کسی نے تحریر کیا تھا کہ خدانخواستہ اس پر کوئی وقت پڑا تو وہ اس کی ہر ممکن مدد کریں گے وغیرہ.... لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل تھی کہ جس چیز کی اسے سب سے زیادہ ضرورت تھی.... وہ کوئی.... شخص اسے نہیں دے سکتا تھا.... اور وہ چیز تھی شفقت اور محبت.... سرپرستی اور ایک ایسا مضبوط سہارا جو صرف ایک باپ ہی بیٹی کو دے سکتا ہے....
وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ ان میں سے کتنے ہی لوگ اس کے بابا کے مقروض تھے۔ یہ قرض مختلف صورتوں میں تھا.... اس میں ان کی فیس اور کتابوں سے لے کر کھانے پینے اور کپڑے لتّے تک کا خرچ شامل تھا.... اس کے بابا نے کبھی ان باتوں کا ذکر نہیں کیا تھا.... اس کے بابا پروفیسر تھے.... بے حد عالم فاضل اور اپنے علم کی دولت انہوں نے بے دریغ اپنے شاگردوں پر خرچ کی تھی.... آج ان میں کتنے ہی ایسے تھے جو ملک کی مختلف یونیورسٹیوں اور درسگاہوں میں لیکچرر، ریڈر اور پروفیسر تھے.... کتنے ہی بیرونِ ممالک میں اچھے عہدوں پر فائز تھے.... وہ چاہتے تو اس قرض کو کسی بھی صورت میں چکا سکتے تھے.... لیکن انہوں نے تو کبھی بابا کو ایک خط تک نہ لکھا.... حالانکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ آج وہ جو کچھ ہیں، پروفیسر رحمان کی کوششوں سے بنے ہیں.... لیکن آج کا انسان اتنا بے ضمیر ہے کہ کسی کا احسان یاد نہیں رکھتا....
ملازم نے کسی صاحب کے آنے کی اطلاع دی.... آج کل تو روزانہ ہی آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا.... وہی رسمی جملے وہی گھسی پٹی باتیں.... وہ اکتا سی گئی تھی.... لیکن دنیا داری تو بہرحال نبھانا ہی تھا.... وہ سست قدموں سے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی.... ایک ناآشنا صورت اس کے سامنے تھی.... ساٹھ باسٹھ کے لگ بھگ عمر ہوگی اسے دیکھ کر نووارد اس کے نزدیک آیا اور اسے اپنے سینے سے لگا کر بھرائی ہوئی آواز میں بولا، ’’بیٹی! مَیں رحمان کا گنہگار ہوں کہ ایسے وقت آیا جب وہ اس دنیا سے جا چکا ہے۔ کاش مَیں اس کی زندگی میں آگیا ہوتا۔‘‘
آبگینہ سسک اٹھی.... کتنا اپنا پن تھا اس کے انداز میں.... نووارد اس کی پشت سہلا رہا تھا۔ اس کا سَر چوم رہا تھا.... اور اس کی زبان سے تسلی کا ایک لفظ نہیں نکل رہا تھا۔ وہ بے آواز رو رہا تھا.... اور اس کو اس طرح لپٹائے ہوئے تھا جیسے بابا اس کی تڑپ اور بے چینی سے بے قرار ہو کر واپس آگئے ہوں.... ’’بیٹی! رو رو کر ہلکان نہ ہو.... آرام سے بیٹھ کر باتیں کرو.... تم تو بڑی سمجھدار بچی معلوم ہوتی ہو.... زیادہ رونے سے چاہنے والے کی روح کو تکلیف ہوگی۔‘‘
آبگینہ اس کے قریب بیٹھ گئی۔
’’مجھے رحمان کی موت کی خبر بھی نہ ملتی.... اخبار میں ماتم نے پُرسی کرنے والوں کا شکریہ ادا کرنے کیلئے تم نے جو مراسلہ شائع کرایا تھا.... اس سے علم ہوا.... اسی سے تمہارا نام اور پتہ بھی معلوم ہوا۔ ورنہ مَیں تو برسوں سے رحمان کے بارے میں لاعلم تھا.... بیرونِ ملک رہنے کی وجہ سے اور بھی زیادہ دوری اور لاتعلقی پیدا ہوگئی تھی....‘‘
’’چچا جان! مجھے اپنا نام بتایئے.... بابا ضرور آپ کا ذکر کرتے ہوں گے....‘‘ آبگینہ ان کی شفقت اور محبت سے بہت متاثر ہوئی تھی۔
’’بیٹی! وہ بہت شریف انسان تھا.... وہ کبھی ان لوگوں کا ذکر نہیں کرتا تھا.... جو اس کے مقروض تھے.... اس کے کردار کے اس پہلو سے مَیں اچھی طرح واقف ہوں۔ مجھے اختر علی کہتے ہیں۔ وہ میرا اتنا عزیز دوست تھا کہ.... کہ‘‘ .... اختر علی کی آواز رندھ گئی.... اور وہ خاموش ہوگئے.... آبگینہ ان کی دلدہی کی خاطر کہنے لگی، ’’چچا جان! بابا نے تو کبھی کسی قرض کا ذکر نہیں کیا.... شاید وہ بہت چھوٹی سی رقم ہوگی۔ جسے انہوں نے کبھی قابلِ ذکر نہ سمجھا.... ہوسکتا ہے کہ وہ بھول چکےہوں۔ پھر آپ اس کے لئے آزردہ کیوں ہوتے ہیں؟‘‘
’’حالانکہ وہ رقم سود در سود اتنی بڑھ چکی ہے کہ مَیں چاہوں بھی تو ادا نہیں کر پاؤں گا....‘‘ اختر علی روہانسے ہوگئے....
’’آپ اس کو بھول جایئے چچا جان....‘‘
’’کیسے بھول جاؤں؟ اس کے اس قرض نے ہی میری زندگی بدل دی تھی.... اگر وہ میرے اوپر اس وقت یہ احسان نہ کرتا تو خدا جانے میرا کیا ہوتا.... تاہم اتنا یقین ہے کہ مَیں وہ قطعی نہ بن سکتا.... جو آج ہوں۔‘‘
اختر علی دیر تک آبگینہ سے باتیں کرتے رہے.... دوران گفتگو انہیں پتہ چلا کہ پروفیسر رحمان نے نہ کوئی خاطر خواہ رقم چھوڑی ہے۔ اور کوئی قابلِ ذکر اثاثہ.... مکان بھی کرائے کا ہے ذاتی نہیں.... وہ کہنے لگے، ’’بیٹی.... مجھے یہ سن کر ذرا بھی تعجب نہیں ہوا.... وہ شروع سے ہی فراخ دل اور ہمدرد تھا.... دوسروں کی پریشانیوں کو اپنی پریشانی سمجھتا تھا.... اور انہیں دور کرنے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیتا تھا.... جو لوگ اسے نہیں سمجھتے.... وہ اس پر لعن طعن کریں گے۔ جو اس کے کردار سے واقف ہیں۔ وہ اس کی عزت کریں گے۔ اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں۔ لیکن وہ ہمیشہ دوسروں کے لئے جیا....‘‘
’’امی ان سے اسی لئے ناراض رہتی تھیں لیکن وہ ان کو بہلا پھسلا کر اپنا ہم خیال بنا لیتے تھے....‘‘
’’اس کے والدین بھی ہمیشہ اس سے ناراض رہے.... ان کی دانست میں وہ ایک بگڑا ہوا.... اور باغی لڑکا تھا.... ناخلف اور نافرمان تھا.... لیکن اس نے کتنے ہی لوگوں کی زندگی سنوار دی جینے کا سلیقہ سکھایا.... اور جب اس کا وقت آیا تو سب نے اس سے منہ پھیر لیا....‘‘
اختر علی.... پروفیسر رحمان کے متعلق چھوٹی بڑی باتیں اسے بتاتے رہے....اور اپنے بابا کی تعریف سن کر اس کا سَر فخر سے بلند ہوگیا.... کتنے اونچے آدرش تھے بابا کے....
’’بیٹی.... سچ پوچھو تو مَیں تم کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے آیا ہوں.... مَیں تم کو یہاں تنہا نہیں رہنے دوں گا.... تم دو دن کے اندر تیاری کر لو.... پھر ہم اپنے گھر چلیں گے۔‘‘
’’لیکن چچا جان؟‘‘ آبگینہ نے کچھ کہنا چاہا۔
’’لیکن کیا؟ کیا تم کو مجھ پر بھروسہ نہیں ہے؟‘‘
’’یہ بات نہیں ہے چچا جان مَیں آپ کے اوپر بوجھ....‘‘
’’ٹھیک ہے بیٹی.... بوجھ ہی سہی.... جس طرح نیّرہ میرے اوپر بوجھ ہے.... اسی طرح تم بھی ہو....‘‘ اور پھر وہ اپنے گھر والوں کے بارے میں بتاتے رہے.... بیوی بہت اچھے مزاج کی ہیں.... بہت محبت کرنے والی سیدھی سادی خاتون ہیں۔ بڑا لڑکا احمر ڈاکٹر ہے.... اس سے چھوٹی عارفہ ہے اس کی شادی ہوگئی ہے۔ نیّرہ بی اے فائنل میں ہے.... وغیرہ۔‘‘

مسرور جہاں
آبگینہ نے غور کیا تو اسے اختر علی کی رائے سے متفق ہونا پڑا.... وہ ایم اے کرچکی تھی.... ایک اعتبار سے اس کی تعلیم ختم ہوچکی تھی.... اور جس طرح وہ یہاں اسکول میں سروس کر رہی تھی.... اسی طرح وہاں بھی سروس کرسکتی ہے.... یوں اس کا وقت بھی اچھا کٹے گا.... اور اپنے محسنوں پر بوجھ بھی نہیں رہے گی....
 اختر علی اسے لے کر گھر پہنچے تو بیگم نے اس کا بڑا پر تپاک خیر مقدم کیا۔ نیّرہ نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ عارفہ اپنی سسرال میں تھی اور اس کی سسرال دوسرے شہر میں تھی.... البتہ ڈاکٹر بیٹے سے اس کی ملاقات نہ ہوسکی.... یا توانہوں نے اس کی آمد کا جان بوجھ کر نوٹس نہیں لیا تھا۔ یا واقعی وہ اس قدر مصروف تھے کہ ملاقات کا وقت نہیں ملا.... ان کے ناشتے اور کھانے کے اوقات بھی الگ تھے.... آتے جاتے ان کی جھلک دیکھ کر وہ خود ہی چھپ جاتی تھی.... کچھ ان کے برتاؤ سے اپنے ناخواندہ مہمان ہونے کا احساس بھی ہو چلا تھا.... ایک دن اس نے دبی زبان سے اختر علی سے اپنی ملازمت کے لئے کہا تو وہ چونک پڑے....
 ’’ملازمت کا خیال تمہارے دل میں کیسے آیا آبگینہ؟ کیا تمہیں یہاں کوئی تکلیف ہے۔ یا خود کو غیر سمجھتی ہو؟‘‘
 ’’بخدا ایسا نہیں ہے چچا جان! بس پڑے پڑے میرا جی گھبراتا ہے۔ اسلئے سوچا کہ کہیں....‘‘
 ’’اوہ بس اتنی سی بات ہے؟ گھر میں ڈھیروں کام ہیں.... لان درست کرو.... کڑھائی سلائی کرو.... نیّرہ سے گپ شپ کرو.... بس ملازمت کا نام نہ لو۔‘‘
 وہ دل مار کر رہ گئی۔ لیکن احمر کے رویہ سے دل پر جو بوجھ سا آگرا تھا۔ وہ نہ دور ہوسکا....
 ایک دن چچی جان اس کے پاس آئیں اور بڑی شفقت سے کہنے لگیں، ’’بیٹی! تمہارے چچا جان.... تمہارے والد سے لیا ہوا قرض ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے انہیں تمہاری رضا مندی کی ضرورت ہے۔‘‘
 ’’چچی جان.... مَیں پہلے بھی چچا جان سے کہہ چکی ہوں اور آج پھر دست بستہ عرض کرتی ہوں کہ خدارا آپ لوگ اس قرض کو بھول جائیں۔ مجھے اس لفظ سے تکلیف ہوتی ہے....‘‘
 ’’واقعی تم رحمان کی جیتی جاگتی تصویر ہو.... ویسی ہی ہمدرد اور فراخ دل ہو.... خدا تمہیں سلامت رکھے.... اچھا کم از کم ہمیں اس بات کی اجازت تو دے دو کہ تمہارے مستقبل کے لئے ہم اپنی خوشی سے کوئی فیصلہ کرسکیں۔‘‘
 ’’آپ کے اور چچا جان کے سوا اس دنیا میں میرا کوئی نہیں ہے۔ اس لئے آپ کو کسی امر میں میری اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کا حکم میرے لئے فرمانِ الٰہی سے کم نہیں ہے....‘‘
 ’’ہم نے احمر کو تمہارا شریک زندگی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ خدا کرے تم دونوں خوشگوار ازدواجی زندگی گزارو.... بس ان شاء اللہ اگلے ہفتے یہ مبارک تقریب منعقد ہوگی....‘‘
 چچی جان اس کے سَر پر ہاتھ پھیر کر دعائیں دیتی ہوئی چلی گئیں اور وہ منہ کھولے حیرت سے اس دروازے کو دیکھتی رہ گئی جس سے نکل کر وہ ابھی گئی تھیں.... اسے ان کی بات پر یقین نہیں آرہا تھا....
 خوب دھوم دھام سے شادی ہوئی اور احمر جنہیں وہ بدمزاج، مغرور اور نہ جانے کیا کیا سمجھ رہی تھی وہ اتنے اچھے اور محبت کرنے والے شوہر ثابت ہوئے کہ اسے اپنی قسمت پر رشک آنے لگا.... ساری بدگمانیاں دور ہوگئیں۔
 ایک رات احمر اور آبگینہ باتوں میں کھوئے ہوئے تھے.... اچانک کچھ یاد آنے پر وہ چونک پڑی.... ’’احمر! چچا جان بار بار کسی قرض کا تذکرہ کرتے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے کہ انہوں نے بابا سے کتنی رقم قرض لی تھی۔‘‘
 ’’تمہارے بابا نے تو اپنی متاعِ حیات ہی انہیں ہنسی خوشی دے ڈالی تھی....‘‘ احمر نے ہنس کر کہا۔
 ’’مَیں سمجھ نہیں....‘‘
 ’’دراصل میری امی تمہارے بابا کی منگیتر تھیں.... اور وہ ان کو چاہتے بھی بہت تھے.... لیکن امی اور ابو ایک دوسرے سے والہانہ محبت کرتے تھے.... ادھر ابو اور بابا بھی گہرے دوست تھے.... جب شادی کی بات چلی تو ابّو نے بابا کو ساری بات بتا دی.... انہوں نے خود ہی شادی سے انکار کر دیا.... خاندان والوں نے بہت لعن طعن کی۔ بچپن کی منگنی توڑنا اس وقت ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتا تھا.... حد یہ ہوئی کہ بابا کے والدین نے انہیں جائیداد سے بھی محروم کر دیا.... لیکن اس کے باوجود ان کے فیصلے میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی.... اور پھر جب ابو کا پیغام گیا تو بادل نخواستہ امی کے گھر والوں نے ان کا رشتہ قبول کر لیا۔ یہی وہ قرض تھا جس کا تذکرہ ابّو بار بار کرتے ہیں۔‘‘
 ’’اوہ.... مگر آپ کا اس ڈرامے میں کیا رول رہا جناب؟‘‘
 آبگینہ نے ہنس کر شرارت سے پوچھا۔
 ’’سرکار....! مَیں تو اس قرض کی پہلی قسط کے طور پر آپ کو بخشا گیا ہوں.... ان شاء اللہ باقی قسطیں بھی جلد ادا کر دی جائیں گی.... ہاں.... دوسری قسط کے طور پر آپ کیا لینا پسند کریں گی لڑکا یا لڑکی....‘‘
 ....اور آبگینہ نے شرما کر احمر کے سینے میں منہ چھپا لیا....

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK