سرد ہوا میں اس کے بال ہولے ہولے اڑ رہے تھے.... سڑک کے کنارے وہ بوٹ پر لمبی سیاہ کوٹ ٹخنوں تک لٹکائے چل رہی تھی۔ دونوں ہاتھ کوٹ میں ڈالے وہ خاموشی سے بازار میں مچی بھگدڑ کو دیکھ رہی تھی۔
EPAPER
Updated: June 24, 2024, 1:10 PM IST | Jannat Mahmood | Mumbai
سرد ہوا میں اس کے بال ہولے ہولے اڑ رہے تھے.... سڑک کے کنارے وہ بوٹ پر لمبی سیاہ کوٹ ٹخنوں تک لٹکائے چل رہی تھی۔ دونوں ہاتھ کوٹ میں ڈالے وہ خاموشی سے بازار میں مچی بھگدڑ کو دیکھ رہی تھی۔
سرد ہوا میں اس کے بال ہولے ہولے اڑ رہے تھے.... سڑک کے کنارے وہ بوٹ پر لمبی سیاہ کوٹ ٹخنوں تک لٹکائے چل رہی تھی۔ دونوں ہاتھ کوٹ میں ڈالے وہ خاموشی سے بازار میں مچی بھگدڑ کو دیکھ رہی تھی۔ شام گہری ہورہی تھی۔ دکانوں کی بتیاں جل اٹھیں، بھیڑ بڑھتی ہی جارہی تھی۔ قمقموں سے جگمگاتی ایک بڑی شاپ سامنے کھڑی تھی۔ شاپ کے باہر کی دیوار شیشے کی بنی ہوئی تھی، جس کے باعث وہ اپنے اندر رکھے برانڈیڈ شوز، سلیپر اور خرید و فروخت میں مصروف لوگوں کو چھپانے میں ناکام ہورہی تھی۔ اس نے بغور اس چیز کا جائزہ لیا پھر سر جھٹک کر آگے بڑھ گئی۔ سڑک کے اطراف میں ریڑھیاں لگی ہوئی تھیں۔ گرم گرم سموسے پکوڑے کی خوشبو چھن چھن کے بازار بھر میں پھیلی ہوئی تھی۔
وہ بڑھ کر ایک دکان پر گئی۔ نیچے کچی دیوار میں اندھیرا چھایا تھا۔ دکان کے آس پاس کوئی نہیں تھا۔ اندر ایک ضعیف دھوتی پہنے چشمہ صاف کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھئے: افسانہ: حلال کمائی
’’یہ کتاب کتنے کی ہے؟‘‘ اس نے دکان سے باہر تخت پر رکھی کتاب کو اٹھا کر پوچھا۔ اس کی آواز پر بوڑھے ادمی نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔
’’یہ بیٹی؟‘‘ انہوں نے اس کے ہاتھ میں پکڑی کتاب کو دیکھ کر پوچھا۔
’’جی....‘‘ وہ ایک ایک ورق پلٹ کر دیکھ رہی تھی۔
’’۲۴۰ کا ہوتا....‘‘
اس نے دو چار کتابیں اور اٹھائیں۔ کتاب کا حساب برابر کرکے وہ جانے ہی لگی تھی کہ بوڑھے آدمی نے اسے بلایا، ’’ارے بیٹی تم! تم تو بڑا ادمی لگتا ہے تم ادھر سے کتابیں کیوں لیتا اے....؟‘‘
’’کیوں انکل یہاں سے میں کتابیں کیوں نہیں لے سکتی؟‘‘ اس نے کتاب کو بازو میں دباتے ہوئے مسکرا کر پوچھا۔
’’لے سکتا اے، بالکل لے سکتا اے۔ یہ کتابیں پرانی ہوگئی نا، وہ رہتی ہے نا بڑی عمارتوں کے اندر شیشے لگے رہتے ہیں اس کو کیا بولتا....‘‘ وہ کہتے کہتے سر پر انگلی رکھ کر سوچنے لگے۔
’’لائبریری! اسے لائبریری کہتے ہیں۔‘‘ اس نے بتایا۔
’’آں آں! بالکل وائی۔ وہاں اچھی کتابیں تم کو مل جائے گا۔‘‘ انہوں نے کہہ کر اس کا چہرہ بغور دیکھا جو خاموشی سے سن رہی تھی۔
’’انکل مَیں دو کلو میٹر تک آگئی۔ اور یہ پہلی دکان ہے جہاں میری مراد پوری ہوئی ہے۔ میں گھنٹوں سے کتابوں کی دکان ڈھونڈ رہی تھی۔ جہاں دیکھو بڑی شیشوں والی عمارت کے اندر صرف برانڈڈ شوز ہی رکھے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔‘‘ اس نے جلدی جلدی بتا کر پھر تھوڑے آرام سے کہا، ’’انکل! اب کتابوں کی جگہ برانڈیڈ شوز نے لے لی ہے۔ اور کتابیں اس طرح سڑکوں اور زمینوں پر بکنے لگی ہیں۔ اب میں کہاں جاؤں کتابیں لینے؟ کیونکہ اب لوگوں کو علم کی نہیں جوتوں کی ضرورت ہے۔‘‘ وہ جیسے افسوس سے کہہ رہی تھی۔
’’آں بیٹا تم بالکل سچ بولتا اے۔ ہمارے زمانے میں تو کتاب سب سے اوپر اور اچھی جگہ رکھی جاتی تھیں....‘‘ انہوں نے دلچسپی سے کہا۔
’’ویسے تمہارا نام کیا ہوتا؟‘‘ بوڑھے آدمی نے پوچھا۔
’’زیبہ نور۔‘‘ وہ دوبارہ مسکرائی۔
’’پھر تم آئے گا نا زیبہ نور کتابیں لینے؟‘‘
’’جی انکل ضرور! اب میں چلتی ہوں۔ وہ دونوں ہاتھ سے کتاب بازوؤں میں تھامے مسکرا کر آگے بڑھی۔ کچھ دور چل کر اس نے دوبارہ ان شاپس کو دیکھا جس میں بھیڑ بڑھتی ہی جارہی تھی۔ ایک لمبی آہ.... بھر کے پھر سے وہ آگے بڑھ گئی!