مریم ایک گھریلو عورت تھی، سلجھی ہوئی، صبر و تحمل سے بھری ہوئی، لیکن زندگی کے نشیب و فراز نے اس کے دل میں ایک عجیب سی تھکن بھر دی تھی۔
EPAPER
Updated: July 17, 2025, 2:15 PM IST | Nazia Munawar Hussain | Mumbai
مریم ایک گھریلو عورت تھی، سلجھی ہوئی، صبر و تحمل سے بھری ہوئی، لیکن زندگی کے نشیب و فراز نے اس کے دل میں ایک عجیب سی تھکن بھر دی تھی۔
مریم ایک گھریلو عورت تھی، سلجھی ہوئی، صبر و تحمل سے بھری ہوئی، لیکن زندگی کے نشیب و فراز نے اس کے دل میں ایک عجیب سی تھکن بھر دی تھی۔ اس تھکن کی ایک بڑی وجہ تھی — اُس کی سخت مزاج ساس، جس کا دل صرف بیٹے کے تصور سے دھڑکتا تھا۔
مریم نے جیسے ہی اپنے سسرال میں قدم رکھا، محبت کی امید لے کر آئی تھی مگر قسمت نے اُس کے ہاتھ میں بیٹیوں کی تقدیر تھما دی۔ یکے بعد دیگرے اُسکے یہاں تین بیٹیاں ہوئیں، اور ہر بیٹی کے ساتھ اُس کی ساس کے طعنے بھی بڑھتے گئے۔
’’بیٹیوں کی ماں ہو؟ ہمارے خاندان کا چراغ تو بجھ ہی گیا!‘‘
ایسے جملے مریم کا دن رات کا حصہ بن گئے۔ مریم کی خاموشی، اُس کی آنکھوں کے آنسو، اور اس کی دعائیں.... سب بے رنگ لگتے تھے۔ اُس کا دل کئی بار چاہا کہ بیٹیوں کو سینے سے لگا کر کہیں چھپ جائے، دور کسی ایسی جگہ جہاں کوئی طنز و تیر کے نشتر نہ ہو۔
لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
پھر ایک دن، آخرکار، اُس کی گود میں ایک ننھا سا بیٹا آیا.... ارسلان۔ اُس دن مریم کی آنکھوں میں برسوں بعد خوشی کی نمی تھی۔ ساس کے چہرے پر پہلی بار مسکراہٹ دیکھی، شوہر کی آنکھوں میں فخر دیکھا۔ جیسے بیٹے کی پیدائش نے مریم کے سارے دکھ دھو ڈالے ہوں۔بیٹے کی ماں ہونے کا احساس اسے ساتوں آسمان کی سیر کرا رہا تھا ۔ ارسلان اُس کا شہزادہ بن گیا۔ اُسے محلوں کی سی پرورش ملی، ماں کی مامتا، بہنوں کی محبت اور دنیا کی ہر سہولت۔
وقت گزرتا گیا۔ تینوں بیٹیوں کی شادیاں ہو گئیں، مریم نے اپنا فرض نبھا دیا۔ ساس بھی دنیا سے رخصت ہوچکی تھیں۔ اب مریم صرف ایک ماں نہیں، بلکہ ایک مضبوط ستون بن چکی تھی اپنے بیٹے ارسلان کے لئے۔
ارسلان تعلیم یافتہ، خوبرو، سلجھا ہوا نوجوان بن گیا۔ اب وقت تھا اُس کے لئے دلہن تلاش کرنے کا۔ بہت تلاش کے بعد، روما اُن کے گھر کی بہو بنی.... خوبصورت، نازک مزاج، نرم لہجہ، اور سلیقے والی۔ روما کی آمد سے گھر میں نئی روشنی آگئی۔ مریم کے چہرے پر غرور تھا کہ اُسے اتنی اچھی بہو ملی ہے۔
لیکن وقت کے ساتھ کچھ بدلنے لگا۔
مریم، جو ایک زمانے میں بہو کے درد سے گزری تھی، اب خود ایک کٹھور ساس بننے لگی تھی۔
بیٹیاں آئے دن میکے آتیں، بہن بھائیوں کی ملاقاتیں ہوتیں، اور سارے کام کا بوجھ روما پر آجاتا۔ روما مسکرا کر سب کرتی، نہ کبھی شکایت، نہ کوئی گلہ۔ لیکن مریم، جو خود بہو رہ چکی تھی، یہ سب بھول چکی تھی۔
ارسلان، ماں اور بیوی کے بیچ کی سیاست سے دور، اپنی دنیا میں مگن تھا۔ اُسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ روما پر کیا بیت رہی ہے۔
پھر ایک دن وہ خوشخبری آئی، جس کا ہر عورت کو شدت سے انتظار ہوتا ہے.... روما ماں بننے والی تھی۔
مریم کے چہرے پر خوشی دیدنی تھی، اُس نے ہر کام سے روما کو چھٹی دے دی، اُس کا خاص خیال رکھا جانے لگا۔ نندیں بھی خوش تھیں۔ گھر میں جشن جیسا ماحول تھا۔
ایک دن، تینوں نندیں اپنی ماں مریم کے ساتھ بیٹھ کر ہنسی مذاق میں لگیں۔ باتوں باتوں میں ایک نے پوچھا،
’’اماں، کیا لگتا ہے؟ بیٹا ہوگا یا بیٹی؟‘‘
مریم نے فوراً فخر سے کہا،
’’بیٹا ہی ہوگا، ظاہر ہے۔‘‘
چھوٹی نند نے مسکرا کر کہا،
’’اور اگر بیٹی ہوئی تو؟‘‘
مریم کا چہرہ یکدم سرخ ہوگیا۔ اُس نے غصے سے کہا،
’’خبردار! بیٹی کا نام بھی نہ لینا۔ بیٹی ہوئی تو چوٹی پکڑ کے بہو رانی کو اُس کی اماں کے گھر چھوڑ آؤں گی! ہم پر تو رحم آیا خدا کو، اب پھر سے وہی آزمائش؟ نہیں، اب بس بیٹا ہی چاہئے!‘‘
یہ سب الفاظ روما کے کمرے تک پہنچ چکے تھے۔ وہ کانپنے لگی، جیسے اُس کے اندر کا سارا حوصلہ ٹوٹ گیا ہو۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ وہ ماں بننے کے اس حسین وقت کو خوشی سے جینا چاہتی تھی، انجوائے کرنا چاہتی تھی، لیکن مریم کے الفاظ نے جیسے اس خوشیوں پر سیاہی پھیر دی۔
اب روما ہر دن بےچینی میں گزارنے لگی۔ اُسے ہر وقت ایک ہی خوف ستاتا۔
’’اگر بیٹی ہوئی، تو میرا کیا ہوگا؟ کیا واقعی وہ مجھے گھر سے نکال دیں گی؟‘‘
وہ ماں بننے کا خواب دیکھنا چاہتی تھی، مگر اُس پر خوف کے بادل چھا چکے تھے۔
مریم یہ کیسے بھول گئی تھی کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب وہ خود انہی طعنوں کے نیچے دبی تھی؟
کیا بیٹی پیدا کرنا واقعی اتنی بڑی خطا تھی؟
کیا ساس بن کر اُس کے دل سے وہ درد بھی نکل گیا تھا جو اُس نے بہو ہوتے ہوئے جھیلا تھا؟
وقت نے جیسے اُسے آئینہ نہیں دکھایا، یا شاید اُس نے خود آنکھیں بند کر لی تھیں۔
روما چپ چاپ، سہمی ہوئی، آنے والے دن کا انتظار کرنے لگی.... یہ سوچ کر کہ اگر بیٹی ہوئی، تو کیا وہ بھی ایک دن اپنی ساس جیسی بنے گی؟
آخر میں سوال یہی رہ جاتا ہے:
کیا عورت اپنی گزری ہوئی تکلیفوں کو فراموش کرکے دوسری عورت پر وہی ظلم دہرا سکتی ہے؟
کیا ہر ساس کو یہ یاد نہیں رکھنا چاہئے کہ وہ بھی کبھی ایک بہو تھی؟