Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : شکایتوں میں پنہاں محبّت

Updated: July 30, 2025, 2:04 PM IST | Tayyaba Israr Ahmed | Mumbai

کھڑکی کے پار دوپہر نیم خوابیدہ باغ پر چھائی ہوئی تھی۔ آم کے درخت کے پتوں سے چھن کر آتی دھوپ، فرش پر گویا ایک بے آواز نظم بن رہی تھی۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

کھڑکی کے پار دوپہر نیم خوابیدہ باغ پر چھائی ہوئی تھی۔ آم کے درخت کے پتوں سے چھن کر آتی دھوپ، فرش پر گویا ایک بے آواز نظم بن رہی تھی۔ ادھوری مگر جذبات سے پُر۔ سدرہ ایک مٹیالے رنگ کی کتاب کھولے کھڑکی کے قریب رکھی کرسی پر بیٹھی تھی۔ میز پر اسکول کے یونٹ ٹیسٹ کے چیک شدہ پرچے، اور ایک لفافہ رکھا تھا، شاید کسی تربیتی ورکشاپ کی اطلاع۔ دوسری طرف نازلی، جو سدرہ سے صرف ایک سال چھوٹی تھی، مگر شکایتیں گویا صدیوں پرانی، زمین پر بیٹھی بالوں کو سنوار رہی تھی۔ اس کی نظریں اپنی بہن سدرہ پر ٹکی ہوئی تھیں۔ وہ پچھلے کئی دنوں سے محسوس کر رہی تھی کہ سدرہ اپنے کاموں میں کچھ زیادہ ہی مصروف ہے۔ وہ خود کو ’’صفحے کے بیچ چھپی ہوئی سطر‘‘ کی مانند محسوس کرنے لگی تھی۔ جو موجود ہو، مگر اکثر نظرانداز ہو جائے۔
 ’’سدرہ؟‘‘
 ’’ہمم؟‘‘ سدرہ نے نظریں کتاب سے نہیں ہٹائیں لیکن آواز میں نرمی تھی۔
 ’’تم اتنی دیر تک کتاب کیسے پڑھ لیتی ہو؟ مجھے تو دو صفحے کے بعد نیند آجاتی ہے۔‘‘
 سدرہ نے کتاب بند کی اور مسکرا کر اس کی طرف دیکھا، ’’شاید تمہیں لفظوں سے رشتہ جوڑنے کے بجائے صرف مطلب نکالنے کی عادت ہے۔‘‘
 ’’اچھا جی! اور تم؟ تم تو لفظوں سے ایسے باتیں کرتی ہو جیسے وہ تمہارے بچپن کے ساتھی ہوں۔‘‘
 ’’نہیں، وہ میرے ہم راز ہیں۔‘‘
 ’’پھر مَیں کیا ہوں؟‘‘ نازلی کی آواز ہلکی ہوئی۔ آم کے درخت کے پتوں کی مدھم سرسراہٹ یوں محسوس ہو رہی تھی جیسے فضا میں کوئی ان کہی بات گردش کر رہی ہو۔
 ’’تم؟ تم تو وہ خامشی ہو، جو مجھے کسی بھی شور سے زیادہ عزیز ہے۔‘‘ سدرہ نے کرسی سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا۔
 نازلی نے چٹیا ادھوری چھوڑ دی، ’’بہت ہوگئی تمہاری شاعری، آج شام باہر جانا ہے۔ صاف صاف بتا دو، چلو گی یا پھر ان کتابوں اور پرچوں میں سر دیئے بیٹھی رہو گی؟‘‘
 ’’شاید....‘‘
 ’’دیکھو! ’شاید‘ کا مطلب ’نہیں‘ ہوتا ہے، اور تمہارا ’پھر کبھی‘ ہمیشہ ’کبھی نہیں‘ بن جاتا ہے۔‘‘ ’’نازلی.... تم جانتی ہو، مَیں تمہارے ساتھ باہر نہ جا سکوں، تو بھی تم میرے اندر، میرے دل میں ہمیشہ ساتھ رہتی ہو۔‘‘
 ’’ارے ہاں....! تمہارے اندر۔ بس وہی جگہ ہے جہاں میں تمہارے ساتھ رہتی ہوں۔ باقی حقیقت میں تمہاری کتابیں، تراشے، کولیگز اور تمہارے فرینڈز تمہیں مجھ سے چرا لے جاتے ہیں۔‘‘ اس نے خفگی سے کہا۔
 چند لمحے کمرے میں خاموشی چھائی رہی۔ بادلوں نے دھوپ سے آنکھ مچولی شروع کر دی تھی۔ افق پر گھنے بادلوں کا کارواں خاموشی سے ڈیرے ڈال رہا تھا۔
 ’’افف....! اتنی شکایتیں، مجھے علم نہیں تھا۔‘‘ سدرہ نے ہنستے ہوئے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا۔
 ’’تمہیں ہر چیز کا خیال ہے.... سوائے میرے....‘‘ نازلی کی آواز میں نمی تھی۔
 سدرہ کرسی سے اٹھ کر نازلی کے قریب آبیٹھی، ’’تم وہ لطیف خیال ہو جو میرے دل کی دھڑکنوں اور ذہن کی پرتوں میں یوں رچا بسا ہے کہ زبان خاموش ہو تو بھی تمہاری باز گشت ہر لمحہ سنائی دیتی ہے.... نہیں تم خیال نہیں، میری زیست کی معنویت ہو.... تم تو میری زندگی کی مکمل کتاب ہو، جسے پڑھوں تو ہر بار ایک نیا صفحہ کھلتا ہے، نئی خوشبو، نیا مفہوم۔ تم وہ کتاب ہو جس کا کوئی اختتام نہیں، کیونکہ تم کہانی نہیں، میری زندگی کا تسلسل ہو۔‘‘ سدرہ نے نازلی کے بالوں کو باندھتے ہوئے محبت بھرے لہجے میں کہا۔
 ’’ارے او چاپلوسوں کی ملکہ! پھر وہی چینی میں لپٹی چاپلوسی شروع۔ کوئی ناراض ہو تو تمہیں مزہ آتا ہے تا کہ میٹھی میٹھی باتوں سے منانے کا شو چلا سکو.... کان کھول کر سن لو جو تم باتوں میں لپیٹ کر دل چوری کر لیتی ہو اسے محبت نہیں ، فنکاری کہتے ہیں۔‘‘
 سدرہ ہنس پڑی، ’’تو پھر مان لو مَیں فنکار ہوں اور تم شاہکار....‘‘
 ’’اتنی چاپلوسی اچھی نہیں، کہیں میں واقعی مان نہ جاؤں۔‘‘ چند لمحوں بعد نازلی اٹھ کھڑی ہوئی، ’’ٹھیک ہے۔ باہر نہ سہی، چائے تو پی سکتی ہو میرے ساتھ؟‘‘
 جواب کا انتظار کئے بغیر، وہ باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی۔ (’’شکایتیں تو بہانہ ہیں، اصل میں تو تمہیں لمحہ بھر اپنے پاس بٹھانا ہی میری ضد ہے۔‘‘ نازلی نے دل میں سوچا)
 یہ ان دونوں کے درمیان ایک غیر رسمی معاہدہ تھا جب دل بوجھل ہو، کوئی نوک جھونک ہو، یا کوئی بات دل میں رہ جائے، تو نازلی چائے بناتی، اور سدرہ خاموشی سے پی لیتی۔ یہ روز کا معمول تھا۔
 چند لمحوں بعد، نازلی نے چائے کے دو کپ میز پر رکھ دیئے۔ ’’دیکھا؟ تمہارے لئے اپنی خواہش چھوڑ دی، صرف چائے کے بہانے۔ اب تم بھی ضد چھوڑو، اور کم از کم ایک سطر میرے نام لکھ دو۔‘‘
 ’’اچھا خاصا موسم خوشگوار ہوا تھا، پھر یہ شکایتوں کی گھٹائیں کہاں سے آگئیں؟ تمہارا مان جانا بھی عارضی ہوتا ہے، جیسے بارش کے بعد نکلا سورج۔ کچھ لمحے چمکتا ہے، پھر بادلوں میں چھپ جاتا ہے۔‘‘ سدرہ نے کپ اٹھاتے ہوئے مصنوعی خفگی سے کہا۔
 ’’بس یہی مسئلہ ہے تمہارا! ہنسی مذاق میں بات ٹال دیتی ہو۔ جو پوچھا ہے وہ بتاؤ، موسم کا حال بعد میں سنانا۔‘‘
 سدرہ نے نرمی سے کہا،‌ ’’سنو، تم سطر نہیں، میری کہانی کا عنوان ہو۔ ہمراز بھی تم، ہم نوا بھی تم۔‘‘
 ’’اگر مَیں تمہاری کہانی کا عنوان ہوں، تو باقی صفحات میں کیوں گم ہو جاتی ہوں؟‘‘ اس نے شکوہ کیا۔ یکایک فضا بادلوں کی گرج سے گونج اٹھی، گویا وہ بھی نازلی کی تائید میں بول اٹھے ہوں۔
 سدرہ نے نظریں ملائیں، ’’اس لئے کہ عنوان ہر صفحے پر نہیں لکھا جاتا.... لیکن ہر صفحہ اس کے تحت چلتا ہے۔ جیسے تمہاری شکایتوں میں میری محبت سانس لیتی ہے۔ وہی محبت جو مجھے خود سے زیادہ عزیز ہے۔ تمہاری خفگی، تمہاری ضد.... دراصل شکایتوں میں پنہاں محبت ہے۔ وہ محبت جو تم سیدھے لفظوں میں نہیں کہہ پاتی، بس یوں گلہ بن کر ظاہر ہو جاتی ہے....‘‘
 سدرہ نے چائے کا آخری گھونٹ پیا۔ نازلی کے چہرے پر ایک اطمینان بخش مسکراہٹ پھیل گئی۔
 کھڑکی سے باہر بارش دھیرے دھیرے اندر کی خاموشی سے باتیں کرنے لگی۔ ان دونوں کی ناراضگیاں، شکایتیں اور خفگی، گویا محبت میں گندھی وہ مٹی تھی جو خاموشی کے صفحے پر بہنوں کے رشتے کی خوشبو بن کر ٹھہر گئی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK