آج کل شہر کے حالات بہت خراب ہو رہے تھے دشمن ہر گزرتے دن کے ساتھ حملے کرنے میں مصروف تھے۔ مسجدوں، گھروں، دکانوں یہاں تک کہ اسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا تھا۔
EPAPER
Updated: November 07, 2023, 1:31 PM IST | Ulama Ansari | Mumbai
آج کل شہر کے حالات بہت خراب ہو رہے تھے دشمن ہر گزرتے دن کے ساتھ حملے کرنے میں مصروف تھے۔ مسجدوں، گھروں، دکانوں یہاں تک کہ اسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا تھا۔
آج کل شہر کے حالات بہت خراب ہو رہے تھے دشمن ہر گزرتے دن کے ساتھ حملے کرنے میں مصروف تھے۔ مسجدوں، گھروں، دکانوں یہاں تک کہ اسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ پورا ملک سخت مشکل سے دو چار تھا۔ احمد اپنے گاؤں سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقعہ شہر میں تھا جہاں پر دشمنوں کی مسلسل بمباری سے پورا شہر ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا۔ وہ دن بھر ملبے کے ڈھیر سے لوگوں کو نکالتا۔ جو زندہ ہوتے انہیں ایمبولنس اسپتال لے جاتی اور جو زندگی کی جنگ ہار گئے انہیں ان کی اخری ارام گاہ میں پہنچایا جا رہا تھا۔ کہیں شور شرابہ، آہ و بکا دل دہلا دینے والی چیخیں تھیں تو کہیں روحوں کو پرسکون کرتے لوگ جو قرآنی آیتیں پڑھ کر زخمیوں کے زخم پر مرہم چھڑک رہے تھے۔ احمد تھک کر ایک ملبے پر بیٹھ گیا سر ہاتھوں میں گرا لیا۔
یکا یک اس نے اپنے گاؤں کا نام سنا۔ گردن گھما کر دیکھا تو ایک اسپتال کا اہلکار ایمبولنس کے ڈرائیور کو گاؤں جانے کا کہہ رہا تھا۔ احمد بھاگتا ہوا اس کے قریب پہنچا اور بولا، ’’کیا ہوا ایمبولنس گاؤں کیوں جا رہی ہے؟‘‘ ’’ہمیں خبر ملی ہے کہ گاؤں میں بھی دشمنوں کی جانب سے بمباری ہوئی ہے اس لئے....‘‘ اہلکار عجلت بھرے انداز میں کہتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ احمد کو لگا کسی نے اس پر آسمان گرا دیا، وہ شل کھڑا رہ گیا تبھی ایمبولینس کے ڈرائیور کی آواز اس کے کانوں میں پڑی، ’’تم ساتھ چلو گے؟‘‘
’’ہاں وہ میرا گاؤں ہے۔ میرا گھر ہے وہاں....‘‘ احمد نم لہجے میں بولا اور چپ چاپ ایمبولنس میں بیٹھ گیا۔ اس کے ساتھ تین اور امدادی اہلکار شامل تھے۔
کچھ دیر بعد وہ سڑک پر کھڑا سامنے کا منظر دیکھ رہا تھا۔ گاؤں کے کچے پکے گھر سب مل کر ایک بڑا سا ملبہ بن گیا تھا۔ سائرن کی آواز پورے گاؤں میں گونج رہی تھی جس کا مطلب تھا اور ایمبولنس گاؤں میں داخل ہو رہی ہیں۔ احمد کچھ دیر یوں ہی کھڑا رہا پھر بھاگتا ہوا اپنے گھر کے ملبے کے پاس پہنچا اور اینٹیں پتھر ہٹا ہٹا کر اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے لگا۔ خدا نے اس کے صبر کا امتحان نہ لیا اور بہت جلد ہی اسے سامنے زمین پر پڑی اپنی ماں نظر آئی۔ اس نے ماں کے مردہ جسم کو اٹھانا چاہا ہاتھ کپکپانے لگے، ہونٹ پھڑپھڑائے آنسو آنکھوں سے نکل کر چہرہ بھگونے لگے جسم میں لرزہ سا طاری ہو گیا۔ اندر سے اواز آئی، ’’بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ اس نے ماں کو اپنے مضبوط بازوؤں میں اٹھایا اور اس گاڑی کی طرف چل دیا جو قبرستان جا رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس آیا تو دیکھا کہ کچھ لوگ اس کی بیوی کو اسٹریچر پر لیٹا چکے ہیں۔ وہ قریب گیا اور اس کے نازک ہاتھوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں لیا۔ هدیٰ کے ہاتھ برف سے ٹھنڈے پڑے تھے۔ جانے کتنی دیر وہ اپنی محبوب بیوی کے بے جان وجود کو سینے سے لگائے چپ چاپ آنسو بہاتا رہا۔ دل و دماغ نے کام کرنا بند کر دیا ہو جیسے، اپنے گھر کا اکلوتا مرد ہونے کے ساتھ مضبوط اعصاب کا مالک آج بکھر رہا تھا۔ اچانک دماغ میں بجلی سی کوندی لب پھڑپھڑائے، ’’حمنہ....‘‘
وہ بھاگتا ہوا ایک بار پھر گھر کا ملبہ ہٹانے لگا۔ دل بے قابو ہو رہا تھا۔ دماغ میں اندیشے پیدا ہو رہے تھے۔ وہ اینٹیں پتھر سب ہٹا کر دیکھ رہا تھا اور حمنہ کو آوازیں دے رہا تھا جیسے ہی اس نے لکڑی کی الماری ہٹائی وہ سامنے تھی۔ اس کی بیٹی ہو بہو اس کی بیوی کا عکس، احمد نے جلدی سے اس کو گود میں اٹھایا۔ حمنہ بے ہوش تھی اور زخمی بھی۔ احمد پانی کے ٹینک سے ایک بوتل پانی لے آیا اور حمنہ کا منہ اور ہاتھ پاؤں صاف کرنے لگا۔ احمد نے اس کے منہ پر پانی کی چھینٹیں ماریں تو حمنہ نے آنکھیں کھولی۔ وہ پانچ سال کی معصوم باپ کو دیکھتے ہی رونے لگی۔ احمد نے بڑے پیار سے اسے چپ کرایا اور گھر سے کچھ دوری پر واقعہ اسپتال (جو آدھا ٹوٹ چکا تھا) لے آیا۔ حمنہ کا جسم جگہ جگہ زخمی تھا اور ہونٹ پھٹ چکے تھے جن سے خون رس رہا تھا۔ حمنہ کے ہونٹ ہلے، ’’بابا پانی....‘‘ حمنہ نے سوکھے ہونٹ پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔
’’آپ یہاں بیٹھو میں پانی لے کر آتا ہوں۔‘‘ احمد اسے اسپتال کی سیڑھیوں پر بٹھاتے ہوئے بولا۔ اور گلی کے نکڑ پر کھڑے پانی کے ٹینکر سے پانی لینے چل دیا۔ اچانک فضا میں آواز گونجی۔ احمد نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ بم سیدھے آکر اسپتال میں گرا، اور احمد کی آخری امید بھی دم توڑ گئی۔