ہندوستانی فلمی دنیا میں میگھنا گلزار ایک ایسا نام ہے جو کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ نہ تو شور مچاتی ہیں، نہ ہی اپنی فلموں کے گرد مصنوعی ہائپ بناتی ہیں۔
میگھنا گلزار کی فلمیںاحساس سے پر ہوتی ہیں۔ تصویر:آئی این این
ہندوستانی فلمی دنیا میں میگھنا گلزار ایک ایسا نام ہے جو کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ نہ تو شور مچاتی ہیں، نہ ہی اپنی فلموں کے گرد مصنوعی ہائپ بناتی ہیں۔ ان کی شناخت اُن کی فلموں کے موضوعات سےقائم ہے یعنی گہرے، سچے، تلخ مگر انسانی تجربات سے بھرپور موضوعات۔۱۳؍ دسمبر۱۹۷۳ءکوپیدا ہونے والی میگھنا، شاعر و ہدایت کار گلزار اور ممتاز اداکارہ راکھی کی اکلوتی بیٹی ہیں۔ اُن کے گھر میں لفظوں کی خوشبو، ریاضت کی ثقافت اور فن کی خاموش عظمت بچپن ہی سے رچی بسی تھی۔چائے کی بھاپ، میز پر پھیلے ہوئے کاغذ، والد کے قلم کی سرسراہٹ اور والدہ کی سنجیدہ مسکراہٹ… اُن کا بچپن انہی مناظر سے بنا۔یہ وہ ماحول تھا جہاں فن ایک پیشہ نہیں بلکہ عبادت جیسا تھا۔میگھنا نے فلم اور ادب دونوں سے اپنی تربیت حاصل کی۔ انہوں نےممبئی کے سینٹ زیوئرز کالج میں تعلیم حاصل کی، پھر نیویارک فلم اکیڈمی میں باقاعدہ فلم سازی کی تعلیم لی۔ بقول اُن کے،’’کیمرہ آپ کو دنیا کو خاموشی سے دیکھنا سکھاتاہے، اور لکھائی آپ کو اندر کی دنیا کو پہچاننے کا راستہ دیتی ہے۔‘‘اسی دوہری تربیت نے میگھنا کو ایک ایسا فلم ساز بنا دیا جس کی فلمیں نہ ہنگامہ کرتیں، نہ الجھاتیں،بس دل میں اُتر جاتی ہیں۔
فلمی دنیا میں آنے سے پہلے انہوں نے اپنے والد گلزار کی چند فلموںکے علاوہ کئی بڑے فلم سازوں کے ساتھ بطور اسسٹنٹ کام کیا۔ اس دوران انہوں نےسیٹ کی فضا،اداکاروں کی نفسیات، روشنی اور منظر کے تعلق اور کہانی کے تال میل کو قریب سے دیکھا۔یہ سیکھنے کا دور اُن کے مستقبل کی بنیادوں میں اینٹوں کی طرح رکھا ہوا ہے۔
ہدایت کار کے طور پر ان کی پہلی بھرپور جھلک ۱۹۹۹ءمیںگلزار کی فلم ’ہُو تُو تُو‘ کے لیے اسکرین رائٹنگ سے سامنے آئی، جس کے بعد انہوں نےخود ہدایت کاری کی طرف قدم بڑھایا۔۲۰۰۲ءمیںاُن کی پہلی بطور ڈائریکٹر فلم ’فی الحال‘ ریلیز ہوئی۔ اگرچہ فلم کو اُس وقت باکس آفس پر بڑا تجارتی فائدہ نہیں ملا۔اسی دور میں انہوں نے دو ڈاکیومنٹری فلمیں بھی بنائیں اور کچھ سال کے لیے مین اسٹریم سنیما سے قدرے فاصلے پر رہ کر اپنی سوچ کو پختہ کیا۔
۲۰۱۸ءمیںآئی ’’راضی‘‘ ان کی فلمی زندگی کا سنگ میل ثابت ہوئی۔ہریندر سکّا کے ناول پر مبنی اس فلم میں میگھنا نے جنگ، سیاست اور وطن پرستی جیسے موضوعات کو شور شرابے سے نہیں، بلکہ جذبات کے ہلکے لمس سے بیان کیا۔عالیہ بھٹ کےکیریئر کی سب سےخالص اداکاری،مضبوط اسکرپٹ، اور میگھنا کی ہدایات نے راضی کو قومی سطح پر کامیاب ترین فلموں میں شامل کردیا۔ فلم نے یہ ثابت کیاکہ سنیما صرف تفریح کا نہیں، احساس کا بھی ذریعہ ہے۔
میگھنا آج بھی وہیں کھڑی ہیں جہاں اچھے سنیما کے چراغ جلائےجاتےہیں۔ان کی نئی فلمیں،ویب سیریز اور مستقبل کے پروجیکٹس اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ سماج کی نبض پر انگلی رکھ کر کام کرتی ہیں،سوچتی ہیں، پرکھتی ہیں، اور پھر ایک ایسی کہانی بناتی ہیں جو طویل عرصے تک یاد رہتی ہے۔روایت بھی یہی کہتی ہے کہ فنکار اپنی پہچان کسی ایک فلم سے نہیں، اپنے پورے سفر سے بناتا ہےاور میگھنا کا سفر آج بھی جاری ہے۔