Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ: سبز پتلون

Updated: December 27, 2023, 1:04 PM IST | Farhat Parveen | Mumbai

نائلہ نے حفظِ ماتقدم کے طور پر فوراً ہی ملازم کو بلا کر اور پتلون دکھا کر تاکید کر دی کہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ یہ پینٹ غلطی سے بھی نہ دھلے۔ صرف ڈرائی کلین ہو۔ ان کاموں کی دیکھ ریکھ اب ملازم ہی کرتا تھا۔ اور وہ کوئی ایسی بات نہ کرنا چاہتی تھی جو بدمزگی کا باعث ہو۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

بات تو بہت معمولی تھی مگر پتہ نہیں کیسے الجھتی چلی گئی۔ اس سے پہلے ایسے چھوٹے موٹے سیکڑوں واقعات گھر کی روزمرہ زندگی میں وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں لیکن وہ صرف اِس حد تک اثر انداز ہوتے تھے جیسے جھیل کی پُرسکون سطح پر کوئی کنکر پتھر کچھ دیر کے لئے ہلچل پیدا کر دے اور کچھ دیر کے بعد سطح پھر سے ہموار ہو جائے۔ لیکن اُس روز سمے کا چکّر تھا یا تقدیر کا نوشتہ، شاید ان دونوں کو خود بھی اندازہ نہ تھا کہ وہ اس حد تک آگے نکل جائیں گے کہ واپسی کے سارے راستے مسدود ہو جائیں گے۔
 بات مضحکہ خیز حد تک معمولی تھی۔ وہ سبز رنگ کی ایک نہایت نفیس اونی پتلون تھی جو فاروق نے بڑے چاؤ سے نائلہ کو دکھاتے ہوئے کہا تھا، ’’تمہارا کیا اندازہ ہے، یہ کتنے کی ہوگی؟‘‘
 اور نائلہ نے یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ ضرور مہنگی ہوگی کہ اس کا شوہر اتنا اترا رہا ہے، اس نے اسے خوش کرنے کے لئے اپنی طرف سے بہت بڑھا کر قیمت بتائی۔ حقیقت میں اسے قطعی کوئی اندازہ نہیں تھا۔ اسے تو اپنے لباس اور زیورات کی قیمتوں تک کا اندازہ نہیں تھا چہ جائیکہ مردانہ کپڑوں کی قیمت، مگر فاروق کی بتائی ہوئی قیمت نائلہ کے اندازے سے دس گنا زیادہ تھی۔
 ’’چلو شکر ہے آپ نے بھی اپنے لئے کوئی اچھی چیز خریدی۔‘‘ نائلہ نے کہا۔
 فاروق نائلہ کو تو سونے اور ریشم سے لادے رکھتا تھا مگر اپنے لباس کے معاملے میں کنجوسی کی حد تک کفایت شعار تھا۔ نائلہ کی بات سے خوش ہو کر ہنستے ہوئے بولا، ’’دیکھو اسے دھو نہ دینا۔ یہ دیکھو اس پر لکھا ہوا ہے کہ صرف ڈرائی کلین کرنا ہے۔‘‘ اور دونوں کھکھلا کر ہنس دیئے۔ ’’توبہ....! اب تک یاد ہے آپ کو۔‘‘ نائلہ بولی۔
 ہوا یوں تھا کہ تقریباً پندرہ سال پہلے نائلہ نے فاروق کی ایک گرم پتلون کو واشنگ مشین میں دھو ڈالا تھا اور وہ سکڑ کر ایک بچے کے سائز کی ہوگئی تھی۔ فاروق غصے سے دیوانہ ہو اٹھا تھا۔ بات نقصان کی نہیں تھی۔ فاروق کھلے دل کا آدمی تھا۔ وہ ہزاروں لاکھوں کے نقصان بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کر لیتا تھا۔ مگر لاپروائی یا اپنے کہے کی خلاف ورزی برداشت کرنے کی اس میں تاب نہ تھی۔ نائلہ کا جواز تھا کہ اس نے اسے بتایا ہی نہیں تھا کہ یہ پتلون ڈرائی کلین ہونے والی ہے۔ دُھلنے والی نہیں ۔ اور فاروق کا موقف تھا کہ وہ پڑھی لکھی ہے، اسے خود معلوم ہونا چاہئے۔ آخر وہ کس دنیا میں رہتی ہے کہ اسے گرم کپڑے کی بھی پہچان نہیں ہے۔ اور پھر پتلون پر واضح طور پر ہدایات کی چٹ بھی سلی ہوئی تھی۔
 خیر بات آئی گئی ہوگئی لیکن نائلہ ہفتوں زخمی زخمی سی چپکے چپکے آنسو بہاتی پھری کہ اتنا نقصان تو ملازم سے بھی ہو جائے تو آدمی اتنی سختی نہیں برتتا۔ اس نے کوئی جان بوجھ کر تو ایسا نہیں کیا۔ پتہ جو نہیں چلا۔ اور آج فاروق نے اسی بات کا حوالہ دیا تو دونوں ہنس دیئے۔

یہ بھی پڑھئے: افسانہ: جو لوٹ نہ سکے

 یہ اُن دنوں کی بات تھی جب وہ دونوں ہی ایک دوسرے سے بدگمان سے رہتے تھے اور اپنے اپنے طور پر دونوں ہی کو یہ خیال رہتا تھا کہ دوسرے فریق کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے اس لئے دونوں ہی ہر بات کو اپنے اپنے زاویہ نظر سے دیکھتے تھے۔ تیز مزاج فاروق اپنا غصہ چیخ چلّا کر نکال لیتا اور نرم خو صابر و شاکر نائلہ دکھی ہو کر اور تنہائی میں چپکے چپکے آنسو بہا کر۔ اپنی اپنی جگہ دونوں ہی خود کو مظلوم سمجھتے تھے۔ دونوں کی توجہ ایک دوسرے سے ہٹتی گئی اور دلچسپیوں کے محور بدلتے گئے اور تب انہیں اندازہ ہوا کہ وہ ایک دوسرے سے کتنی دور چلے گئے ہیں۔
 بات جب حد سے بڑھنے لگی تو وہ ایک دن آمنے سامنے آبیٹھے۔ فاروق نے بڑی سنجیدگی اور ٹھہراؤ سے کہا، ’’سنو نائلہ! اگر تم اپنا راستہ بدلنا چاہتی ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ مجھے تمہاری خوشی عزیز ہے۔ جیسے تم پسند کرو۔ آج تک جو کچھ میرے پاس ہے وہ بھی تمہارا ہے۔ اس کے علاوہ بھی جو کچھ چاہو تو کہہ دو۔‘‘
 نائلہ کو یقین تھا کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے اسے کر دکھانے کا بھی ظرف رکھتا ہے۔ وہ چونکی اور سوچنے لگی کہ اس نے فاروق کو پہلے کیوں نہیں پہچانا۔ یہ اتنا بلند انسان اگر ذرا غصیلا ہے تو کیا ہوا۔ پھول کے ساتھ کانٹے بھی تو ہوتے ہی ہیں۔ خاموش سوچتی ہوئی نائلہ کو دیکھ کر فاروق کے دل میں خیال آیا یہ کیسی معصوم اور صابر و شاکر ہے۔ سب لوگ حتیٰ کہ میرے گھر والے اس کے گُن گاتے ہیں ۔ وسیع دل و دماغ رکھتی ہے۔ مَیں نے اس سے پہلے اس زاویے سے کیوں نہیں سوچا۔ تھوڑی لاپروا ہے تو کیا ہوا۔ مکمل تو کوئی انسان نہیں ہوتا۔ مَیں نے ہمیشہ اس سے بے اعتنائی اور سختی روا رکھی۔ آخر یہ بھی کیا کرتی۔
 دونوں نے اپنے اپنے دلوں میں جھانکا، نظریں اٹھائیں ، مسکرائے اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ زندگی کا اتنا مشکل موڑ اتنی سہولت سے طے کر جائیں گے۔ مگر تلوار کی دھار جیسے اس لمحے پر رک کر ہی تو انہوں نے ایک دوسرے کو پہچانا تھا۔ کون جانے اگر یہ موڑ ان کی زندگیوں میں نہ آتا تو عمر بھر ان کا ساتھ ندی کے دو کناروں جیسا تھا۔ مگر اب تو وہ صحیح معنوں میں شریک ِ حیات تھے۔ رنج تھا تو صرف اتنا کہ انہوں نے جوانی کے اتنے سارے خوبصورت سال یونہی برباد کر دیئے اور اس طرح کئی سال چپ چاپ سرک گئے۔
 نائلہ نے حفظِ ماتقدم کے طور پر فوراً ہی ملازم کو بلا کر اور پتلون دکھا کر تاکید کر دی کہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ یہ پینٹ غلطی سے بھی نہ دھلے۔ صرف ڈرائی کلین ہو۔ ان کاموں کی دیکھ ریکھ اب ملازم ہی کرتا تھا۔ اور وہ کوئی ایسی بات نہ کرنا چاہتی تھی جو بدمزگی کا باعث ہو۔
 اس کے کچھ ہی دنوں بعد سیر و سیاحت کا پروگرام بن گیا۔ موسم خوشگوار تھا۔ بچے اسکول کالج میں مصروف تھے اس لئے دونوں ہی مختلف ملکوں کی سیاحت پر چل پڑے۔ ساری کاروباری پریشانیاں ، گھریلو مسائل پیچھے چھوڑ کر کسی خوش فکر نوعمر جوڑے کی طرح، جو ہنی مون پر نکلا ہو۔
 نائلہ ہوٹل میں جب کپڑے لانڈری کے لئے دینے لگی تو اس نے احتیاط سے سبز پتلون الگ کر لی کہ گھر جا کر ڈرائی کلین کروائیں گے۔ واپسی کے سفر میں پہلا پڑاؤ فاروق کی بہن کا گھر تھا جہاں چند دن قیام تھا۔
 جس دوپہر کو وہ بہن کے گھر پہنچے طویل سفر سے تھکے ہوئے آرام کرنے کے لئے سو گئے۔ فاروق کی بہن نے سامان کا جائزہ لیا۔ ایک بیگ میں صرف میلے کپڑے تھے۔ وہ اس نے دھلوا ڈالے۔ ان میں وہ سبز پتلون بھی تھی۔ اسی شام کسی دوست نے افطاری پر بلا رکھا تھا۔ جلدی جلدی تیار ہو کر وہ چلنے لگے تو سوئے اتفاق فاروق کی بہن صحن سے سوکھے کپڑے اٹھائے اندر داخل ہوئی۔ ان میں سب سے اوپر سبز پتلون تھی۔
 فاروق کا تو دماغ بھک سے اڑ گیا۔ وہ انتہائی وحشت سے بیوی کی طرف پلٹا اور سب کی موجودگی کا خیال کئے بغیر چلّانے لگا، ’’دماغ کہاں ہوتا ہے تمہارا؟ کتنی تاکید کی تھی۔ اتنا ہی خیال ہے تمہیں !‘‘
 نائلہ چور سی بنی بیٹھی رہی۔ وقت کم تھا اس لئے دونوں گاڑی میں جا بیٹھے۔ فاروق کا غصہ عروج پر تھا۔
 ’’اس میں میرا کوئی قصور نہیں ۔‘‘ نائلہ آہستہ سے بولی۔
 ’’اور میرا ہے کیا؟ میرا کسی سے کوئی واسطہ نہیں ۔ یہ تمہاری ذمہ داری تھی کہ خود دیکھ بھال کر لانڈری کے لئے کپڑے دیتیں ۔ اتنا ہی خیال ہےتمہیں میرا؟‘‘
 یہاں تک تو بات ٹھیک تھی لیکن اس نے کہا کہ، ’’میرا خیال ہے اب ہمیں اپنے راستے الگ کر لینے چاہئیں ۔ ایسے ساتھ کا کیا فائدہ کہ ذرا بھی دوسرے کا احساس نہ ہو۔‘‘
 نائلہ کے اندر کوئی چیز چھن سے چور چور ہوگئی۔ اتنی ہی قیمت ہے میری! کیا غلطیاں انسانوں سے نہیں ہو جاتیں اور کیا یہ زندگی کا حصہ نہیں ؟ وہ بھی ان کی کیسی کیسی غلطیوں کو خندہ پیشانی سے سہہ جاتی ہے، اور اس میں تو اس کا براہِ راست قصور تھا بھی نہیں ۔ سب کے سامنے دو کوڑی کا کرکے رکھ دیا۔ پھر بھی چین نہیں ۔ یہ اسے معلوم تھا کہ بات مالی نقصان کی نہیں ۔ اسی سیر و سیاحت میں وہ لاکھوں خرچ کر آئے تھے اور فاروق نے بے شمار تحائف خرید کر دیئے تھے۔ بس اس نے اسے وقار کا مسئلہ بنا لیا تھا اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس پتلون کا کچھ بھی نہیں بگڑا تھا اور استری ہونے کے بعد بالکل نئی معلوم ہو رہی تھی۔ ’’بس آج سے تم میری کسی چیز کو نہ چھونا۔‘‘ اس نے اضافہ کیا، ’’باقی باتیں واپسی میں طے کر لیں گے۔‘‘ ’’ٹھیک ہے۔‘‘ نائلہ نے بھی جب بڑی ٹھہری ہوئی آواز میں کہا تو اندر سے وہ چونکا کہ بجائے عذر معذرت یا معافی تلافی کے کتنا اکڑ کے جواب دیا ہے۔ اسے تو واقعی کوئی احساس نہیں ۔
 دعوت پر سب ٹھیک رہا لیکن فاروق نائلہ پر مستقل ڈھکے چھپے طنز کرتا رہا۔ واپسی پر فاروق نے پھر بات چھیڑی، ’’کیا سوچا ہے تم نے؟‘‘
 ’’جو آپ مناسب سمجھیں ۔‘‘
 ’’مَیں اب مزید برداشت نہیں کرسکتا۔ فیصلہ ہو ہی جانا چاہئے۔‘‘ ’’ٹھیک ہے۔ جو آپ کی خوشی۔‘‘ ’’میری خوشی کو چھوڑو۔ تم اپنی بات کرو۔‘‘
 ’’ہاں میرے خیال میں یہی بہتر ہے۔‘‘ نائلہ نے سرد لہجے میں کہا۔
 جب اتنے برسوں کے ساتھ میں ہم اتنا ہی ایک دوسرے کو سمجھ سکے ہیں تو پھر ساتھ رہنا یا الگ رہنا برابر ہے۔ نائلہ نے سوچا۔ اور فاروق نے سوچا ہاں اب اسے میری کیا ضرورت ہے۔ مشکل وقت نکل گیا۔ بچے جوان ہوگئے۔ ویسے بھی ماں سے زیادہ قریب ہیں ۔ ماں کا ساتھ دیں گے۔ اکیلا تو مَیں رہ گیا ہوں ۔ اس نے خود کو بہت مظلوم اور تنہا محسوس کیا۔
 ’’اتفاق سے تم یہاں وطن میں ہو۔ اپنے کسی بہن بھائی کو اس فیصلے کے بیچ لانا چاہو تو لاسکتی ہو۔‘‘ فاروق نے مضبوطی سے کہا۔
 اور چور چور نائلہ کے ہاتھ سے آخری اُمید کا دامن بھی چھٹ گیا کہ شاید غصہ کم ہو جانے پر اسے اپنی زیادتی کا احساس ہو۔ ’’نہیں مجھے کسی کی ضرورت نہیں ۔ مَیں کوئی بچی نہیں ہوں ۔ میرا خیال ہے معاملہ ہم دونوں کے درمیان ہے۔ کسی تیسرے کی ضرورت نہیں ۔ لیکن اگر آپ اپنے کسی بہن بھائی کو شامل کرنا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔‘‘ ’’تم ایسا کرو کہ سب شرط شرائط لکھ لینا۔ مَیں دستخط کر دوں گا۔‘‘ ’’نہیں آپ لکھ لائیں ۔ مَیں دستخط کر دوں گی۔‘‘ ’’مجھے کچھ اعتراض نہیں ۔ رہی بات اثاثوں کی تقسیم کی، وہ جو تم کہو گی مَیں ویسے کر دوں گا۔‘‘ فاروق نے دریا دلی کا مظاہرہ کیا اور یہ حقیقت ہے کہ وہ تھا بھی دریا دل۔ ’’ٹھیک ہے، یہ مَیں طے کرکے کل بتا دوں گی۔‘‘
 اور فاروق اندر سے بالکل ڈھے گیا۔ وہ باقی ہر معاملہ اس پر چھوڑ رہی تھی اور اثاثوں کی تقسیم پر کیسے کہہ دیا کہ ٹھیک ہے، یہ وہ طے کرے گی۔ اس معاملے میں کیوں نہیں کہہ دیا، جیسے آپ کی مرضی مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ کیسے عمر بھر ظاہر کرتی رہی کہ اسے مال و دولت کا کوئی لالچ نہیں ۔ اور وہ بھی جنم جنم کا بیوقوف، یہ یقین کرتا رہا کہ وہ بڑی بے غرض اور درویش طبیعت ہے۔ صرف اسی یقین کے تحت تو اس کی لاپروائی بھی گوارا کی تھی۔ سچ ہے، انسان کو پہچاننا ناممکن ہے۔
 دونوں ایک ہی بستر پر کروٹ بدلے اندر ہی اندر جاگتے رہے لیکن مزید کوئی گفتگو نہ ہوئی۔ فاروق سیلف میڈ آدمی تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس کی بیوی اس کی زندگی میں خوش قسمتی لائی ہے اس لئے وہ خوش قسمتی کی علامت کے طور پر ہر چیز اسی کے نام سے خریدتا تھا۔
 چند ایک چیزوں کو چھوڑ کر قریب قریب ساری جائیداد نائلہ ہی کے نام تھی۔ بینک اکاؤنٹ مشترک تھے۔ جائیداد اس کی ہے، بچے اس کے ہیں ۔ اب میں تو فالتو ہی ہوں ۔ جو تھوڑا بہت میرے لئے کرنا پڑتا ہے اور یا کبھی کبھار جو اونچ نیچ ہو جاتی ہے تو وہ بیکار کی کوفت کیوں پا لے گی۔ یہ تو اس کے ہاتھ اچھا موقع آیا ہے جان چھڑانے کا۔ پیش رفت چونکہ میری طرف سے ہوئی ہے تو سچی بھی وہی رہے گی۔ ایک بار بھی نہیں روکا۔ آنکھوں میں آنسو تک نہیں آئے۔ پتہ نہیں کب سے حسرت لئے بیٹھی تھی اس موقع کی۔
 اور نائلہ کی آنکھوں کی برسات رکنے میں نہ آتی تھی۔ نہ ہچکی نہ سسکی، بس ندی کی روانی سے آنسو بہے جا رہے تھے۔ وہ سوچ رہی تھی، ہر چیز دے کر بھی وہ جان چھڑانے کے در پے ہیں ۔ منّت تو کروں ، منا تو لوں مگر زبردستی چمٹے رہنے کی بھی کیا خوشی۔ جب ان کے دل میں گنجائش ہی نہیں ۔ بچے بڑے ہوگئے ہیں ۔ ان کے پاس روپیہ پیسہ ہے، دولت ہے۔ میری ضرورت بھی کیا ہے۔ میرے جیسی دس اور مل جائیں گی۔ انہیں عمر بھر کی رفاقت کا کوئی لحاظ نہیں تو ایسے بے معنی ساتھ میں کیا رکھا ہے۔ اور بات اتنی بڑی بھی تو نہیں تھی۔ یہ اس طرح بہانے کیوں ڈھونڈ رہے تھے۔ نہ معلوم کیا ٹھان رکھی ہے انہوں نے۔ آخر میں ان کے پروگراموں اور خوشیوں میں کیوں حارج ہوں ۔
 ویسے دونوں کے دلوں میں اپنی اپنی جگہ پر موہوم سی اُمید تھی۔ کتنے مشکل حالات اور کیسے کیسے معاملات انہوں نے اتنی آسانی سے نمٹا لئے تھے مگر پتہ نہیں یہ کوئی سمے کا چکّر تھا یا نوشتۂ تقدیر، دونوں آگے ہی آگے بڑھتے گئے اور آخر وہ دو راہا آگیا جہاں سے دونوں کے راستے الگ ہوگئے۔
 دستخط کرنے سے پہلے فاروق نے نائلہ کو دیکھا، ’’اثاثوں کے متعلق پہلے طے کر لیں یا علاحدگی کے کاغذات پر پہلے دستخط کریں ۔‘‘
 ’’کیا آپ کا خیال ہے کہ اثاثوں کے معاملے میں ہم میں اختلاف رائے ہو جائے گا؟‘‘
 ’’نہیں ۔‘‘ فاروق نے مختصر جواب دیا۔
 ’’علاحدگی تو اسی وقت ہو جاتی ہے جب دل جدا ہو جائیں ۔ اب تو صرف دستخط کی رسم باقی ہے۔‘‘ نائلہ نے کہا۔
 اور فاروق نے فوراً ہی دستخط کر دیئے۔ ستائیس سال کی ازدواجی رفاقت کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ گئی۔
 نائلہ نے بڑے تحمل سے کاغذات وصول کئے۔ انہیں چند لمحے دیکھتی رہی اور پھر بڑی احتیاط سے انہیں لفافے میں ڈال کر اپنے سامنے رکھ دیا۔ ’’یہ مَیں اثاثوں کے متعلق کاغذات تیار کر لائی ہوں ۔ مَیں نے دستخط کر دیئے ہیں ۔ آپ کرکے اپنے پاس رکھ لیں ۔‘‘
 فاروق نے سرسری نظر کاغذات پر ڈالی۔ وہ ساری جائیداد اس کے نام منتقل کروا لائی تھی۔ فاروق کی زبان گنگ ہوگئی۔
 ’’سب کچھ آپ ہی کا تھا۔ میرا کیا تھا۔‘‘ نائلہ عجیب انداز سے مسکرائی، ’’بس آپ....‘‘ وہ رُکی۔ اس کی آواز بھیگی مگر چند لمحے کی خاموشی کے بعد جیسے اس نے سارے آنسو گلے میں اتار لئے۔
 ’’بس آپ وہ سبز پتلون مجھے دے دیں۔‘‘ اس نے کھوکھلی سی آواز میں کہا۔
 فاروق نے چونک کر نظر اٹھائی۔
 اس نے اب تک جو پتھر کی طرح بے حس چہرہ بنا رکھا تھا، اس میں بے شمار دراڑیں سی پڑی ہوئی معلوم ہو رہی تھیں ، یوں جیسے اگر چھوؤ تو ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائے گا۔ آنکھوں میں صحرا پھیلے ہوئے تھے اور چہرے پر یوں گرد اُڑ رہی تھی جیسے کسی عزیز ترین ہستی کی میّت دفنا کر آئی ہو۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK