اب میں تمہارے ساتھ تمام تعلقات توڑنے کی ایک ناکام کوشش ضرور کروں گا۔ مَیں آج بھی تنہا ہوں اگر میری زندگی کا کچھ اثاثہ ہے تو تمہاری یادیں ہیں....
EPAPER
Updated: October 28, 2023, 2:10 PM IST | Arbeena Quraishi | Mumbai
اب میں تمہارے ساتھ تمام تعلقات توڑنے کی ایک ناکام کوشش ضرور کروں گا۔ مَیں آج بھی تنہا ہوں اگر میری زندگی کا کچھ اثاثہ ہے تو تمہاری یادیں ہیں....
تو مجھے چھوڑ کے ٹھکرا کے بھی جاسکتی ہے
تیرے ہاتھوں میں میرے ہاتھ ہیں زنجیر نہیں
آج اس شعر کا مفہوم واضح ہوا۔ اس کی گہرائی کا آج پتہ چلا آج جب تم مجھ سے جدا ہوگئی ہو۔ نجانے تم نے میری ان باتوں کو سچائی کے پیمانے میں ڈال کر اس کی پیمائش کی۔ جانتی ہو مَیں نے تو بس یوں ہی کہہ دیا تھا لیکن مجھے قطعی اس بات کا علم نہیں تھا کہ میری باتیں تمہارے دل کو دکھ دیں گی اور تم حقیقتاً بے وفائی پر آمادہ ہو جاؤگی اور مجھے بے سہارا منجدھار میں چھوڑ کر کسی ’’غیر‘‘ کے ہمراہ چلی جاؤ گی۔ مَیں نے تم سے سچی محبت کی تھی اور تم نے بھی تو کہا تھا کہ ہمیشہ میرے ساتھ رہو گی۔ ہجر کا تصور بھی تمہارے لئے کسی قیامت سے کم نہ تھا۔ چاہے سارا زمانہ ہمارے خلاف ہو جائے چاہے ہمارے عزیز و اقربا ہم سے روٹھ جائے چاہے رسم و رواج کی بیڑیاں ہمارے پورے وجود کو مقید کر لیں چاہے سماج کے ذات پات کا نظام اور دستور ہمارے پیروں میں آہنی سلاخوں سے بنائی ہوئی ان زنجیروں کو ڈال دیں جن پر فرسودہ سماج کی نفرت کی مہر ثبت ہے۔ تم نے ہی مجھ سے عہد و پیما کیا تھا ہم ایک دوسرے کے ہو کر رہیں گے لاکھ نفرت کی آندھیاں آئیں ہزار، زمانہ دشمن بن جائے ہم ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔
لیکن یہ کیا؟ کہاں گئے وہ عہد و پیما؟ کہاں ہیں وہ وفا کی قسمیں ؟ کہاں ہے وہ تمہارے حوصلوں کے قصر جو ناقابل تسخیر زمانہ تھے۔ کہاں گئے وہ سب عزائم جس میں استحکام تھا۔ کہاں ہیں وہ دشوار گزار راہوں کے گلاب جسے تم نے میرے قدموں تلے بچھانے کا وعدہ کیا تھا۔ سب لغو باتیں تھیں مجھے بہلانے کی باتیں تھی۔ تم نے میرے تمام وعدوں کے گلستان میں آگ لگا دی۔ میرے جمنستانِ محبت میں تمہاری زہریلی مسکراہٹوں سے ایسا زہر پھیلا کہ سارا کا سارا گلزار چمن بانجھ ہوگیا۔ تم مجھ سے بے وفائی کرو گی میرے وہم اور گمان میں بھی نہ تھا کیونکہ میں تو تمہیں وفا کی دیوی مانتا تھا جبکہ اب تنہائی میرا مقدر ہے جب میں تنہا ہوتا ہوں تو صرف تمہاری باتوں کو ہی یاد کرکے دل بہلاتا ہوں ۔ تمہارے نقرئی قہقہے تمہاری مسکراہٹیں ، تمہارا غصہ اور پھر روٹھ جانا اور پھر ایک دوسرے کو منانا کتنا لطف تھا اس میں اور وہ لمحہ کتنا حسین ہوتا تھا جب تم روٹھنے کے بعد اپنے ہونٹوں پر تبسم بکھیر کر ناز و ادا سے اپنی سہیلیوں کی بھیڑ میں گم ہو جاتی تھی اور مَیں آہیں بھر کر مسکرا دیتا تھا۔ لیکن اب ان تمام باتوں کو ان گزرے ہوئے لمحوں کو یاد کرکے کیا فائدہ جب تم میرے پاس نہیں ہو۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب مَیں نے پہلی بار تمہیں کالج میں دیکھا تھا۔ گلابی کپڑوں میں ملبوس تم کتنی خوبصورت لگ رہی تھی۔ مَیں نے تو پہلی ہی نظر میں دیکھ کر فیصلہ کر لیا تھا کہ میں نے جو خواب برسوں پہلے دیکھا ہے تم ہی اس کی سچی تعبیر ہو۔ جب تمہاری نگاہوں کا تصادم ہوا تو تم پہلے شرمائی لیکن پھر ایک فطری مسکراہٹ تمہارے لبوں پر رینگ گئی۔ مجھے اب بھی وہ تمہاری مسکراہٹ یاد ہے جس نے میرے وجود کو متزلزل کر دیا تھا۔ لیکن اب میرے کس کام کی تمہاری مسکراہٹیں اور قہقہے ناز و انداز، یہ سب کوئی اور لے گیا.... اب تمہاری الگ دنیا ہے۔ شاید تمہیں یاد نہ ہو مگر مجھے ضرور یاد ہے جب تم کسی کے بے وفائی کے بارے میں سنتی تھی تو فوراً کہہ دیتی تھیں ، نہ جانے کیسے لوگ ہیں کسی کے جذبات کی پروا نہیں کرتے دل توڑ کر بے وفائی کر جاتے ہیں ۔ جانتی ہوں تمہاری اس قسم کی باتوں کو سن کر مَیں خود کو کتنا خوش نصیب سمجھتا تھا کہ تم تاعمر میرا ساتھ دو گی میرا دل نہیں توڑو گی میرے جذبات سے کھلواڑ نہیں کروں گی لیکن؎
تقدیر لکھنے والے نے کوئی کمی نہ کی
کس کو کیا ملا یہ مقدر کی بات ہے
مَیں نے کتنے ارمانوں سے اپنے خوابوں کاشیش محل سجایا تھا جن میں ہم تینوں کیلئے ہی جگہ تھی مَیں ، تم اور ہماری خوشیاں لیکن تم نے ان خوشیوں کو غموں کے حوالے کر دیا اور کسی ’’غیر‘‘ کے ساتھ رشتہ جوڑ کر چلی گئی۔ ہم دونوں نے ایک ساتھ رہنے کا وعدہ کیا تھا۔ زندگی کی خوشیوں اور غموں کو ہمیشہ ساتھ بانٹنا چاہتے تھے۔ لیکن نتیجہ کیا ملا تمہاری بے وفائی داغ مفارقت جسے میرے آنسو نہ دھو سکے۔
مَیں نے تم سے ہمیشہ یہی کہا تھا وقت سے پہلے اور تقدیر سے زیادہ نہیں ملتا۔ میرا یقین تھا لیکن تم نے میرے اس نظریے کی ہمیشہ نفی کی تھی۔ اور اپنا مفروضہ بیان کرتی تھی۔ انسان اگر صدقہ دل سے خدا سے رجوع ہو اور خدا سے گڑگڑا کر مانگے تو خدا ہر چیز عطا کردیتا ہے۔ لیکن شاید میرے مانگنے کا انداز پر اثر نہیں تھا۔ اس لئے میری دعائیں مقبولیت کا درجہ نہ پاسکیں اور ہم دونوں کا وصال ہجر کے عفریت نے نگل لیا۔
مَیں آج بھی جب ساحل سمندر کے کنارے چہل قدمی کرتا ہوں تو وہ تمام مناظر میری آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح گھومتے ہیں پھر نہ جانے کیوں تمہاری یاد آتے ہی میرا دل نفرت سے پُر ہو جاتا ہے اور مجھے تم سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ جانتی ہو اس کی وجہ صرف اور صرف تم ہو اور تمہاری بے وفائی کیونکہ تم نے ہی تو مجھے زندگی سے محبت کرنا سکھایا، تم میری رہبر تھی تم ہی میری منزل تھی تمہارے چلے جانے کے بعد میری زندگی رہزن کے حوالے ہوگئی میری منزل ایک سراب کے سوا اب کچھ بھی نہیں ۔
وہ دن اور وہ لمحہ اور وہ باتیں آج بھی مجھے یاد ہیں جب مَیں نے تم سے شادی کی بات کہی تھی تو تم کتنا گھبرا گئی تھی۔ لیکن چند لمحوں بعد گھبراہٹ اور شرم کے امتزاج تمہارے وجود کو معطر کر دیا اور یاد ہے تم نے کیا کہا تھا، ’’جب ہمارے والدین کو پتہ چلے گا تو وہ کیا کریں گے؟ شاید تمہیں پتہ نہیں سماج میں ان کا جینا مشکل ہو جائے۔‘‘ شاید تمہیں یاد ہوگا مَیں نے تمہیں سمجھاتے ہوئے کہا تھا؎
تم میں ہمت ہے تو دنیا سے بغاوت کر لو
ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو
تم نے اس وقت بڑی سنجیدگی سے کہا تھا کہ ماں باپ سے کیا سارے جہاں سے بغاوت کر لوں گی، لیکن تمہارا ساتھ نہ چھوڑوں گی.... اور مَیں .... مَیں نے تمہارے اوپر یقین اور اعتماد کی کثیر منزل عمارت کو تعمیر کر دیا تھا۔ لیکن اس وقت میں اس کڑوی سچائی کے ذائقہ سے ناآشنا تھا کہ اس کا انجام کیا ہوگا اور میرا یقین ہی میرا قاتل نکلا جبکہ مَیں نے تمہاری سچائی کی قسمیں کھائی تھی مجھے کیا علم تھا کہ مجھ سے جھوٹ بول رہی ہو! میں تمہاری بے وفائی کا کہاں تک ذکر کروں میں تمہیں بار بار بے وفا کہہ کر شاید تمہیں ذلیل کر رہا ہوں ممکن ہے تمہارے ساتھ زمانے کی مجبوریاں رہی ہوں کیونکہ حالات انسان کو مجبور کر دیتے ہیں جو بھی ہو لیکن ایک سچائی آج تم بھی جان لو میں نے تم سے محبت کی تھی آج بھی تم سے محبت ہے اور کل بھی رہے گی۔ اس کے باجود میں نے آج تم سے رشتے منقطع کرتا ہوں ۔ شاید تمہیں یاد ہو تم ہی نے ایک بار کہا تھا؎
تعارف روگ بن جائے تو اس کا بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کا توڑنا بہتر
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا ناممکن
اسے ایک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
اس لئے اب میں تمہارے ساتھ تمام تعلقات توڑنے کی ایک ناکام کوشش ضرور کروں گا۔ مَیں آج بھی تنہا ہوں اگر میری زندگی کا کچھ اثاثہ ہے تو تمہاری یادیں ہیں اور تمہاری بے وفائی کو خوشبو اور کچھ بھی نہیں شاید بقیہ زندگی تمہاری ان یادوں کے سہارے گزار دوں گا۔ نہیں .... نہیں ذرا سن تو لو اب مجھے اس بات کا احساس کیوں ہو رہا ہے کہ تم بے وفا نہیں ہو مَیں ہی شاید غلطی پر ہوں ۔ مَیں نے تمام الزامات تمہاری ذات سے وابستہ کر دیا اب مجھے یاد آیا تمہاری بھی تو کچھ مجبوری رہی ہوگی کیونکہ تم نے تو زمانے کے خلاف جانے کی بات کہی تھی قدرت کے خلاف نہیں ۔ سچ ہے تم بے وفا نہیں ہو اب مجھ پر یہ راز منکشف ہوا.... تم بے وفا نہیں میرا یقین کرو۔ تم نے تو صرف زندگی اور موت کے درمیان قافلہ کو مٹایا ہے.... مَیں جانتا ہوں ’’موت‘‘ نے تمہیں اپنے ساتھ جانے کے لئے مجبور کر دیا ہوگا ورنہ تم بے وفا نہیں ہوسکتی لیکن زندگی تو بے وفا نکلی.....
زندگی تو بے وفا ہے ایک دن ٹھکرائے گی
موت محبوبہ ہے اپنے ساتھ لے کر جائے گی!