Inquilab Logo

افسانہ: ’’حسرت پہ اس مسافر بے کس کی رویئے!‘‘

Updated: October 28, 2023, 2:41 PM IST | Umme Ammara Abdulwahab | Mumbai

رات کی سیاہی ہر سو پھیلی ہوئی تھی، ہر طرف اداس آمیز خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ ایسے میں ایک لاغر وجود اولڈ ہاؤس کے بوسیدہ کمرے میں بیٹھا اپنی سوچوں میں غلطاں تھا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

رات کی سیاہی ہر سو پھیلی ہوئی تھی، ہر طرف اداس آمیز خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ ایسے میں ایک لاغر وجود اولڈ ہاؤس کے بوسیدہ کمرے میں بیٹھا اپنی سوچوں میں غلطاں تھا۔ اس کی بوڑھی آنکھوں کے سامنے ایک سوال تھا، ’’کیا اسی انجام تک پہنچنے کے لئے اس نے اپنی راتوں کی نیند حرام کی تھی؟ کیا اسی ’پھل‘ کے لئے اس نے حرام و حلال کی تمیز بھلا دی تھی؟‘‘ اگر ایسا تھا تو آج اس کے دامن میں جہنم کی آگ کے سوا کیا رہ گیا تھا! اس کی حالت اس کسان کی طرح تھی جس نے کسی پودے کی پرورش کی اور جب وہ ایک تناور درخت بن گیا تو اس کی دسترس سے بہت دور ہوگیا اب وہ اس پر لگے پھلوں کو حسرت سے تکا کرتا ہو۔ ماضی کسی فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے چلنے لگا....
 مراد آج بہت خوش تھا اللہ نے اسے ایک صحتمند بیٹے سے نوازا تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کا نام نوید رکھا۔ وہ اور اس کی بیوی نوید سے بہت محبت کرتے تھے۔ زندگی امنگوں اور ولولوں سے بھرپور اپنا سفر طے کر رہی تھی لیکن مراد کو نہیں پتہ تھا کہ چند ہی دنوں میں یہی خوبصورت زندگی اسے اپنا بھیانک روپ بھی دکھائے گی! عائشہ اس کی پیاری بیوی جسے نوید کی پیدائش کے بعد سے مستقل سر درد رہنے لگا تھا، کس نے سوچا تھا کہ وہ سر درد موت کا پیامبر ثابت ہوگا۔ جب کبھی سر درد ہوتا عائشہ ڈسپنسری سے پین کلر منگوا کر کھا لیتی اور وقتی طور پر اسے افاقہ ہو جاتا لیکن جب پین کلر بھی کوئی فائدہ نہیں دینے لگی تب مراد کو تشویش ہوئی۔ عائشہ کے ٹیسٹ ہوئے اور رپورٹ آئی تو پتہ چلا کہ اسے برین ٹیومر ہے۔ ڈاکٹرز نے آپریشن کی تجویز دی۔ مراد کے تو ہوش اڑ گئے! بہت کوششیں کیں ، پلاٹ بیچا، ادھر ادھر سے قرض لیا اور آپریشن کی تیاری کی، لیکن شاید قدرت کو آزمائش منظور تھی! بیوی بھی چلی گئی اور مراد کا برسوں کا کمایا ہوا سرمایہ بھی۔ دو سالہ نوید ماں کے بغیر کمہلا کر رہ گیا لیکن وقت کا کام گزرنا تھا سو گزر گیا۔ اب مراد نے اپنی پوری توجہ نوید کی طرف لگا لی۔ وہ نوید کو پڑھا لکھا کر ایک بڑا آدمی بنانا چاہتا تھا۔ نوید نے بھی کبھی اپنے باپ کو مایوس نہیں کیا، فرسٹ پوزیشن گویا بنی ہی اس کے لئے تھی! لیکن جس معاشرے میں پیسے کو خدا کی حیثیت حاصل ہو وہاں صرف ذہانت کی دال نہیں گلتی! اب مراد کو نوید کی اسکول فیس اپنی جیب سے بڑی دکھائی دینے لگی، اگر فیس نہیں دیتا تو نوید کو اسکول سے نکال دیا جاتا اور اس کا مستقبل تباہ ہو جاتا۔ مراد ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا بھی ساری عمر کلرکی کرے اور دو اور دو چار کرتے گزار دے۔ مراد تفکر میں پڑ گیا۔ اچانک اس کے دماغ میں کوندا لپکا! اس نے اپنا فون اٹھایا اور کسی سے بات کرنے لگا، ’’جی راجا صاحب یاد ہے آپ نے مجھے ایک کام دیا تھا؟ میں آپ کی مطلوبہ فائل غائب کرکے آپ تک پہچانے کے لئے تیار ہوں لیکن قیمت ڈبل لوں گا۔‘‘ دوسری طرف شاید اس آدمی نے حامی بھر لی تھی۔ مراد اپنی پسینے سے تر پیشانی پوچھتے ہوئے مسکرایا۔ دل کے کسی کونے سے آواز آئی، ’’مراد یہ کیا کر رہے ہو؟ اپنے ہی باس کے آفس میں چوری؟ یہ گناہ ہے۔‘‘ لیکن اس نے اپنے اندر کی آواز کو دبا دیا۔ وہ سوچنے لگا اب نوید کی فیس بھی پوری ہو جائے گی اور دوسرے اخراجات بھی پورے ہوجائیں گے۔ بس کچھ فائلیں ادھر سے ادھر کرنی تھی۔ وہ سوچنے لگام ’’کیا ملا مجھے ساری زندگی ایمانداری دکھا کر؟ غربت! ہر طرف سے دھتکار! مگر اب نہیں ۔ اگر میں پہلے ہی فیصلہ کر دیتا تو شاید عائشہ کو بھی ملک سے باہر علاج کے لئے لے جاتا اور وہ بھی زندہ ہوتی۔ لیکن اب نوید کے لئے کچھ بھی کروں گا۔ آخر وہ میرا مستقبل کا سہارا ہے۔‘‘ آخر نفس نے اسے برائی پر آمادہ کر لیا اور وہ اپنے بیٹے کے عیش و آرام کی خاطر جہنم کی آگ سے اپنا دامن بھرنے لگا۔ دھوکہ دینا اس کی عادت بن گئی اور وہ اس معاملے میں طاق ہوگیا۔ دن مہینے اور مہینے سال بن کر گزر تے گئے۔ نوید نے اپنی تعلیم مکمل کرلی اور اچھی پوسٹ پر جاب کرنے لگا، بنگلہ گاڑی غرض ہر عیش و عشرت نوید کو حاصل ہوگئی۔ مراد انتہائی خوش تھا، اسے لگنے لگا وہ کامیاب ہوگیا! لیکن کیا اصل میں وہ کامیاب تھا؟
 ایسی ہی گرمیوں کی ایک تپتی دوپہر تھی۔ مراد اپنے کمرے میں اے سی کی ٹھنڈک سے لطف اندوز ہو رہا تھا، کمرے میں موجود شیشے کی کھڑکی سے سامنے بنے اولڈ ہاوس کا برآمدہ نظر آ رہا تھا جہاں پر کچھ بوڑھے افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ مراد کے ہونٹوں پر استہزائیہ مسکراہٹ در آئی! بے اختیار اس نے اپنی اور ان افراد کی زندگی کا موازنہ کیا اور اس کی گردن تفاخر سے اکڑ گئی۔ اسے اپنے بیٹے کی محبت پر فخر محسوس ہوا کہ اس نے اسے ہر قسم کا آرام مہیا کر رکھا تھا۔ لیکن وہ بھول گیا تھا کہ نوید کے خون میں حرام رزق شامل ہے اور حرام رزق پر پلنے والوں کے دل سخت ہوتے ہیں ! ان میں وفا نہیں ہوتی!
 سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا اور چلتا رہا اس وقت تک جب تک نوید کی آنکھوں نے امریکہ جانے کے خواب دیکھنے شروع نہیں کئے۔ مراد بے خبر رہا اور نوید نے رخت سفر باندھ لیا، اور اپنے جانے کے ایک دن پہلے باپ کو اپنے امریکہ جانے کی ’خوشخبری‘ سنائی! مراد نے اپنے بیٹے کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن نوید کی آنکھوں پر ڈالرز کی سنہری پٹی بندھی ہوئی تھی۔ چنانچہ باپ کی فریاد، بے بسی، غصہ کچھ بھی بیٹے کی پاؤں کی زنجیر نہ بن سکے اور وہ چلا گیا! اپنے باپ کو آرام دہ چیزوں سے مزین گھر میں تنہا چھوڑ کر!
 بہت سارے دن گزر گئے نوید نے وہیں پر امریکن نیشنلٹی کی خاطر ایک انگریز لڑکی سے شادی کرلی، یوں گویا اس نے اپنے واپس آنے کی تمام راہیں بھی مسدود کرلیں ۔ سردی و گرمی اور برسات کے ہیر پھیر اور تنہائی نے مراد کو اور زیادہ بوڑھا کر دیا۔ وہ اکثر اپنے گھر کے سامنے اولڈ ہاؤس کے صحن میں بیٹھے گپیں مارتے افراد کو دیکھا کرتا، لیکن اب اس کی آنکھوں میں تمسخر کی جگہ ترحم ہوتا! وہ سوچتا، کچھ بھی ہو میرے پاس رہنے کے لئے ایک شاندار گھر تو موجود ہے۔ میرا بیٹا مجھ سے محبت کرتا ہے! مجھے اور کیا چاہئے؟ کس چیز کی کمی ہے میری زندگی میں ! شاید کوئی دلاسہ تھا جو وہ اپنے آپ کو دیتا تھا۔ پھر ایک دن نوید کا فون آیا۔ اب وہ بہت کم اپنے باپ کو یاد کرتا تھا۔ مصروفیات بڑھ گئی تھیں شاید اس کی! جلدی میں کہنے لگا، ’’ابو میں ہمارا گھر بیچ رہا ہوں ۔ مجھے اس وقت پیسوں کی سخت ضرورت ہے۔‘‘ ’’یہ گھر؟ جہاں میں رہتا ہوں ؟‘‘ مراد نے بے یقینی سے پوچھا۔ ’’ہاں ابو! اور بھلا کون سے گھر کی بات کروں گا مَیں ؟ آپ تو ایسے پوچھ رہے ہیں جیسے میرے لئے کتنے ہی گھر اور پراپرٹی رکھ چھوڑی ہو۔ خیر! آپ چند دن اولڈ ہاؤس میں گزاریئے جیسے ہی مجھے وقت ملا میں آپ کو اپنے پاس لے آؤں گا۔ جواد صاحب سے بات کر لی ہے مَیں نے، آپ کو وہاں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ ویسے بھی چند دنوں کی ہی تو بات ہے....‘‘ نوید اور پتہ نہیں کیا کیا کہتا رہا لیکن اسے سنائی ہی کب دے رہا تھا۔ اس کے کان سائیں سائیں کرنے لگے۔ فون کٹ ہوگیا اور مراد خالی آنکھوں سے موبائل فون کو تکنے لگا۔ پھر وہ اپنا گھر چھوڑ کر اولڈ ہاؤس آگیا۔ نوید نے اسے چند دنوں میں اپنے پاس بلا لینا تھا۔ لیکن وہ چند دن پتہ نہیں کب ختم ہونے تھے۔ وہ بہت کمزور ہوگیا تھا۔ اس کی بوڑھی آنکھیں روزانہ بیٹے کے انتظار میں رہتیں لیکن نوید نے نہ آنا تھا نہ وہ آیا۔ مراد کو ایسا لگتا جیسے زندگی صدیوں پر محیط ہو گئی ہو! پھر وہ نوید کا انتظار چھوڑ کر موت کا انتظار کرنے لگا، لیکن موت کا انتظار زیادہ دن نہیں کرنا پڑا۔ سردی کی شدت کی وجہ سے اسے شدید نمونیا ہوگیا اور وہ بسترمرگ پر تھا۔ اب اسے اپنی موت نظر آنے لگی تھی اور ساتھ ہی گزری زندگی کا ہر وہ لمحہ جس میں اس نے اپنے بیٹے کے لئے قربانی دی تھی اور آج جب وہ بستر مرگ پر پڑا تھا تو اس کا بیٹا وہاں موجود نہ تھا۔ خلاف معمول موت کو سامنے دیکھ کر آج اسے اپنے اعمال بھی یاد آرہے تھے اس نے اپنے اعمال میں سے کوئی نیک عمل ڈھونڈنا چاہا لیکن کچھ نہ ملا! عائشہ کی موت کے بعد وہ اللّہ سے بدظن ہو گیا تھا، کفر کی حد تک ناشکری کرتا آیا تھا۔ ساری زندگی دھوکا دینے اور حرام مال کمانے میں کھپا دی۔ زندگی کی فانی خوشیوں کی خاطر حدود اللہ کو پامال کیا! اس کی آنکھوں کے سامنے قرآن پاک کی آیت کا ترجمہ گھومنے لگا جو اس نے کبھی پڑھا تھا۔ پتہ نہیں کیوں لیکن آج شدت سے اسے وہ آیت یاد آرہی تھی۔ گویا اللّہ صرف اسی سے مخاطب ہو!
ترجمہ: تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے امتحان ہیں اور اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔
 یا اللہ میں نے بھی اولاد کے فتنے میں پڑھ کر تجھے بھلا دیا، میں بھول گیا تھا کہ ہر حال میں مجھے تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔ اس کی آنکھوں سے ندامت اور حسرت و یاس کے آنسوں ٹپکنے لگے۔ لیکن کیا فائدہ؟ توبہ کے دروازے اس کیلئے بند ہوچکے تھے۔ آخرکار فرشتے آپہنچے اور اللہ کا وعدہ ’’ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے....‘‘ پورا ہونے لگا۔ فرشتے اس کی روح کھینچنے لگے، آہستہ آہستہ سناٹا چھاتا گیا.... اور زندگی ختم ہو گئی۔ لیکن نہیں ! زندگی تو اب شروع ہوئی تھی اصل زندگی! اور مراد اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے سامنے تنہا کھڑا تھا اور پچھتا رہا تھا کاش وہ واپس دنیا میں بھیج دیا جائے... ’کاش‘.... وہ فریاد کر رہا تھا چیخ رہا تھا۔ یا اللہ! مجھے ایک موقع دے دے.... بس ایک موقع....

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK