Inquilab Logo Happiest Places to Work

ناولٹ: وہ شجر سایہ دار

Updated: October 28, 2023, 4:52 PM IST | Shaaziya Shaikh | Mumbai

’’واحدی ہاؤس‘‘ خوبصورتی کا منہ بولتا شاہکار تھا باہر سے جتنا شاندار تھا اندر بھی وہی آن بان تھی۔ قدیم و جدید طرز کے فرنیچر سے آراستہ، دبیز مخملی قالین ہر کمرے کی زینت تھے۔ وسیع ڈرائنگ روم، ڈائننگ ہال، ٹی وی لاؤنج، کچن اور اسٹڈی روم نیچے واقع تھے اور ماں جی کا کمرہ بھی نیچے ہی تھا۔ ٹی وی لاؤنج سے خوبصورت ماربل کے ٹائلز سے مزین زینہ اوپر کی سمت جاتا تھا جہاں اکمل اور بچوں کے بیڈ روم تھے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

’’واحدی ہاؤس‘‘ میں جاب سے پہلے ہی اُس کی دل کی بے چینی نے اُسے تھوڑا ڈسٹرب کر دیا تھا۔ اس لئے اپنے اطمینان کیلئے وہاں کے مالک کے متعلق کافی حد تک معلومات حاصل کر لی تھی جو کچھ یوں تھی کہ ’’اکمل واحدی‘‘ بیحد انسان دوست قسم کا شخص تھا جس کا جیتا جاگتا ثبوت ادارہ ’’مددگار‘‘ تھا جو شہر سے ہٹ کر پُر فضا مقام پر واقع تھا۔ اور وہاں پر اُن بچوں کو آسرا دیا جاتا تھا جن کا دنیا میں کوئی نہیں خاص کر کوئی سگا رشتہ جنہیں بے آسرا سمجھ کر جن سے محنت مشقت والے سارے کام لئے جاتے ہیں ایسے بچوں کو ڈھونڈ کر وہاں لایا جاتا اور نہ صرف انہیں وہاں تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جاتا بلکہ معاشرہ میں جینے کے ڈھنگ بھی سکھائے جاتے اور حق اور انصاف کیلئے آواز بلند کرنا بھی سکھایا جاتا۔ اس کے علاوہ انہیں ہنر مند بھی بنایا جاتا تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔
 یہ معلومات اُسے اسی علاقے میں رہنے والے ایک معمر شخص نے دی تھی جو اتفاق سے اُس کی سہیلی کے انکل تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے بتایا تھا کہ وہ اکمل واحدی کو زیادہ نہیں جانتے کہ وہ محض ایک سال پہلے یہاں منتقل ہوا ہے اُس سے پہلے وہ کہیں اور قیام پذیر تھا۔ اُس کے گھر میں اس کی ماں اور دو بچے ہیں اور چار پانچ ملازم۔ اُسے یعنی ماروری حیات کو اُن دو بچوں کو ہی کچھ وقت دینا تھا اور پڑھانا تھا۔ صبح تو دونوں بچے اسکول جاتے تھے اور دوپہر میں کھانا کھا کر سوتے تھے اس کی ڈیوٹی چار بجے سے شروع ہوتی تھی اور رات آٹھ بجے ختم ہوجاتی تھی۔
 اکمل واحدی کی ماں بے حد باوقار اور معمر خاتون تھیں۔ ہر ہفتے باقاعدگی سے ڈاکٹر چیک اپ کے لئے آتا تھا اُن کی دواؤں اور غذا کا مکمل خیال رکھا جاتا ان کے کاموں کے لئے ایک ملازمہ مخصوص تھی۔ زینب بی جو چوکیدار کی بیوی تھیں کچن کے دیگر اُمور بھی اس کے ذمہ تھے۔ سارے گھر کی صاف ستھرائی کے لئے ایک ماسی موقف تھی اور یہ سارے ملازم جب واحدی ہاؤس بنا تھا اور اکمل واحدی یہاں آبسا تھا تب سے ہی تھے۔ ایک فضلو بابا ہی واحد ملازم تھے جو اکمل کے والد کے زمانے سے تھے انہیں ملازم کہنا بھی غلط تھا انہیں بے حد عزت حاصل تھی خود اکمل انہیں اپنا بزرگ مانتا تھا۔ وہ ایک طرح سے گھر کے منتظم اعلیٰ تھے، بے حد متقی، پرہیزگار اور مشفق۔ ایک مالی بابا بھی تھے جن پر لان کی دیکھ بھال کی مکمل ذمہ داری تھی۔
 ’’واحدی ہاؤس‘‘ خوبصورتی کا منہ بولتا شاہکار تھا باہر سے جتنا شاندار تھا اندر بھی وہی آن بان تھی۔ قدیم و جدید طرز کے فرنیچر سے آراستہ، دبیز مخملی قالین ہر کمرے کی زینت تھے۔ وسیع ڈرائنگ روم، ڈائننگ ہال، ٹی وی لاؤنج، کچن اور اسٹڈی روم نیچے واقع تھے اور ماں جی کا کمرہ بھی نیچے ہی تھا۔ ٹی وی لاؤنج سے خوبصورت ماربل کے ٹائلز سے مزین زینہ اوپر کے سمت جاتا تھا جہاں اکمل اور بچوں کے بیڈ روم تھے جس کے متعلق اُس نے صرف سنا تھا کیونکہ وہ نیچے ہی وقت گزارتی۔ اسٹڈی روم میں بچوں کی پڑھاتی، کچھ وقت ٹی وی لاؤنج میں یا لان میں بچوں کے ساتھ گزارتی یا پھر ماں جی کے کمرے میں جو بے حد محبت اور انکساری سے پیش آتی تھیں وہ۔ یہاں تک تو سب ٹھیک تھا۔ پندرہ روز ہوگئے تھے اُس کو یہاں آئے ہوئے اور ان پندرہ دنوں میں کوئی بات اُسے کھٹکی تھی تو وہ یہ تھی کہ ایک تیرہ چودہ سالہ احمر نامی لڑکا اکثر اُسے ماں جی کی خدمت کرتا نظر آتا اکثر وہ گھر کے دوسرے کام کرتا نظر آتا۔
 زینب بی نے اسے بتلایا کہ وہ کبھی کبھی اکمل کے ساتھ اُس کی فیکٹری پر بھی جاتا ہے۔ صبح کے وقت وہ اسکول بھی جاتا ہے۔ اکمل واحدی کے بچوں کی بہ نسبت وہ معمولی سی اُردو میڈیم اسکول میں زیر تعلیم تھا حالانکہ وہ ملازم نہ لگتا تھا بے حد خاموش طبع سا خاموشی سے اپنا کام انجام دیتا ہوا اور اسی بات پر ماروری کا دماغ بھنا سا گیا تھا کہ ’’مددگار‘‘ میں جن بچوں کو رکھا جاتا ہے وہ بالکل احمر نواز کی طرح کے ہی بچے تھے پھر احمر نواز کے ساتھ ایسا سلوک کیوں ؟ بچہ مزدوری کے خلاف مہم چلانے والا اکمل واحدی کا یہ دوغلا روپ اُسے ہضم نہیں ہو رہا تھا۔
 اُس نے اکمل واحدی کو دو تین دفعہ دیکھا تھا وہ بھی سرسری سا اور احمر نواز کے تعلق سے جو غصہ تھا اُسے تو اس نے کبھی اکمل کو مزید دیکھنے کی خواہش بھی نہ کی تھی مگر نہیں جانتی تھی کہ اچانک ایک دن اُس کا اکمل واحدی سے سامنا ہوجائے گا۔
 وہ جانے سے پہلے ماں جی کو حسب ِ معمول خدا حافظ کہنے آئی تھی تو اُسے وہاں بیٹھا ہوا پایا اُسے حیرت ہوئی کہ وہ عموماً اس وقت گھر میں نہیں ہوتا تھا۔ بلیک سوٹ میں ڈارک بلیو شرٹ پہنے وہ اپنی تمام تر وجاہت سمیت اُس کے سامنے تھا۔ وہ حیران سی بے احتیار اُسے دیکھے گئی کہ اُسے دیکھ کر بالکل بھی ایسا نہیں لگتا تھا کہ وہ شادی شدہ اور دو بچوں کا باپ ہوسکتا ہے مگر ایسا ہی تھا۔ کافی فریش سا وہ کہیں جانے کے لئے تیار تھا۔
 اُس نے سلام کر لیا تو وہ چونک کر اُس کی جانب متوجہ ہوا۔ سلام کا جواب دے کر بے حد قرینے سے اُس کی خیریت پوچھی اور یہاں اُسے کوئی تکلیف یا شکایت تو نہیں یہ بھی پوچھا... تو دل تو کیا کہ اپنی شکایت بیان کر دے مگر چپ رہ گئی۔
 ’’آپ شاید واپس جا رہی ہیں ؟‘‘
 ’’جی!‘‘
 ’’تو چلئے مَیں آپ کو راستے میں ڈراپ کر دوں گا، آپ کے ہاسٹل کے روٹ ہی جانا ہے مجھے۔‘‘ وہ کھڑا ہوگیا اور وہ چاہ کر بھی انکار نہ کر پائی کہ اس کا لہجہ حتمی تھا۔
 وہ پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی اور وہ ڈرائیور کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ راستہ خاموشی سے کٹا تھا۔ وہ وقفے وقفے سے ڈرائیور سے کچھ باتیں کرتا رہا مگر اُسے مخاطب نہ کیا تھا اور اُن کے بیچ باتیں ہوں ایسا کوئی تعلق تھا بھی نہیں۔
 دونوں بچے جڑواں تھے اشہب اور ایمن۔ بے حد خوبصورت تھے، ابھی پانچ سال کے تھے اور سینئر کے جی میں پڑھ رہے تھے اور اُسے حیرت تھی کہ اتنی چھوٹی کلاس کے بچوں کو ٹیوشن کی کیا ضرورت تھی اور یہی بات اُس نے لاؤنج میں کسی کام سے آئی ہوئی زینب بی سے پوچھ لی۔
 ’’ہاں بی بی جی! بات تو آپ کی صحیح ہے مگر صاحب اس وقت بڑے مصروف ہوتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ بچے اُن کے پاس ہوتے ہیں تو یا شرارت کرتے ہیں یا لاڈ اٹھواتے ہیں اور یہ بات درست ہے وہ صاحب کے پاس پڑھ نہیں سکتے ورنہ چھوٹے سے بڑا صاحب ہی نے تو کیا ہے۔‘‘
 ’’اور اُن کی ماں ....؟‘‘
 ’’وہ تو سنا ہے بچے بہت چھوٹے تھے تبھی گزر گئی۔‘‘
 ’’سنا ہے یعنی؟‘‘ وہ چونکی۔
 ’’جی! مَیں تو ابھی ایک ہی سال سے کام کر رہی ہوں اور ایک سال میں ان بچوں کی ماں کے تعلق سے یہی بات سنی۔‘‘ زینت بی کی باتوں پر وہ چونک گئی تھی۔
 اکمل واحدی اُسے ایک سر بستہ راز کی طرح لگنے لگا جس کی کچھ باتیں چھپی ہوئی سی بھی محسوس ہو رہی تھی اگر اُسے کوئی جانتا بھی تھا تو صرف ایک سال سے اُس سے پہلے وہ کہاں رہتا تھا، کیا کرتا تھا، اُس کی بیوی واقعی میں دنیا میں ہے یا نہیں .... وہ الجھ سی رہی تھی۔
 زینب بی اپنا کام کرکے کچن میں جاچکی تھیں ۔ ’’یہ اکمل واحدی اتنا پُراسرار کیوں ہے؟‘‘ اس نے باآواز بلند سوچا۔ ’’ہیلو پاپا!‘‘ اچانک ہی اشہب نے ہوم ورک کرتے ہوئے سامنے دیکھ کر کہا تھا۔ وہ چونک کر اُس جانب متوجہ ہوئی جہاں وہ متوجہ تھا یعنی جس صوفے پر وہ بیٹھی تھی اُس کے عقب میں اور وہاں نظر پڑتے ہی اس کی سٹی گم ہوگئی۔ 

اکمل واحدی زینے کے اختتام پر کھڑا تھا وہ ایک نظر ڈالنے کے بعد دوسری نہ ڈال سکی اُسے لگا وہ اپنی سنہری آنکھوں سے اُسے گھور رہا ہے۔ یقیناً وہ اُس کا اپنے بارے میں خیال سُن چکا تھا لیکن یہ کیا۔ ’’بیٹا! آپ آنٹی کو پریشان تو نہیں کرتے نا؟‘‘ وہ دم بخود سننے لگی۔
 ’’نہیں پاپا! آنٹی تو اتنی اچھی ہیں کہ انہیں کوئی تنگ نہیں کرسکتا۔‘‘ اشہب نے جھٹ کہا۔
 ’’مگر شاید یہ جسے چاہے تنگ کرسکتی ہیں ۔‘‘ وہ ہونٹوں میں مسکراہٹ دبائے دھیمے سے بولا اور تیزی سے باہر نکل گیا اور وہ حواس باختہ سی ہوگئی۔ ایک ساتھ غصہ اور خجالت اور بے چارگی اُس پر حملہ آور ہوئے تھے۔

 ظلم سہنا بھی ظلم کرنے کے مترادف ہے، ظلم سہنے والا بھی ظالم ہے۔ یہ ان سارے قول کو دھیان میں رکھتے ہوئے اُس نے چچا چچی کے ظلم کے خلاف آواز بلند کر دی تھی۔ بات دراصل یہ تھی کہ جس سال اس نے میٹرک کیا تھا اسی سال ایک حادثے میں اس کے والدین داغِ مفارقت دے گئے تھے اور وہ تنہا ہوگئی تھی۔ اپنے ماں باپ کی اکلوتی لاڈلی اولاد تھی ہمیشہ خوشیاں دیکھی تھیں مگر ماں باپ نے کچھ اس انداز سے پرورش کی تھی کہ اتنے بڑے غم کو صبر سے جھیل گئی کہ اُسے اپنے ماں باپ کا خواب پورا کرنا تھا جو انہوں نے اس کی تعلیم کے تعلق سے دیکھا تھا اور اسی تعلیم کے لئے وہ چچی کے ناروا سلوک کو بھی سہہ رہی تھی۔ لیکن جب ایف ایس سی کے بعد چچا نے اُسے آگے پڑھنے سے منع کر دیا تو اس کے ضبط کی حد ختم ہوگئی پہلے پہل اُس نے التجائیں کیں ہر طرح سے انہیں منانا چاہا اپنے والدین کا واسطہ دیا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے تو وہ بھڑک اٹھی اور خاندان اور محلے کے چند معزز افراد کو جمع کر لیا اور اپنا مسئلہ اُن کے سامنے رکھ دیا جس پر چچا چچی حواس باختہ ہوگئے۔ ایسے میں چچی نے پینترا بدلا اور اسے گستاخ، آزاد جیسے القاب سے نوازا کچھ اُن کے ہمنوا تھے تو کچھ نے دل سے اُس کی حمایت کی کہ کافی حد تک سب چچا چچی کے ستم سے واقف تھے اور بالآخر اُس کی جیت ہوئی اور اُس کے والد کے حصے کی رقم چچا کو اُسے دینی پڑی اور ساتھ ہی یہ کہہ دیا کہ آج سے اُن کا اُس سے کوئی تعلق نہیں اور کچھ ہاتھ لالچ میں اُس کی جانب آسرا دینے بڑھے تھے مگر سگے رشتوں سے دھوکا کھانے کے بعد وہ کسی پر بھی بھروسہ نہیں کرسکتی تھی لہٰذا اُس نے تنہا رہنا ضروری سمجھا جس پر اُسے بہت ساری باتیں سننی پڑیں مگر وہ نظرانداز کئے اپنی سوچ پر عمل پیرا ہوئے آگے بڑھ گئی۔ کالج میں ایڈمیشن کے ساتھ اُس نے ہاسٹل میں رہائش اختیار کرلی اور ساتھ ہی ساتھ ٹیوشن بھی پڑھانے لگی اور وقت کے ساتھ ساتھ تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے اُس نے ٹیوشن کلاسیز میں پڑھانا شروع کر دیا۔ ایم ایس سی کر لینے کے بعد اُسے یونیورسٹی ہاسٹل چھوڑنا پڑا تو اُس نے شہر کا جانا مانا ویمن ہاسٹل ’’پناہ گاہ‘‘ کا رخ کیا جہاں کا ماحول بااعتبار تھا۔ ہاسٹل کی نگراں مسز لودھی شریف اور ہمدرد خاتون تھیں ۔ اُن کے سسر نے ہی یہ ہاسٹل خالی کر بے آسرا اور تنہا عورتوں کے لئے بنوایا تھا اور یہاں شفٹ ہوتے ہی وہ جاب کی تلاش میں سرگرداں ہوگئی۔ اور جلد ہی اُسے جاب مل بھی گئی لیکن کچھ دنوں کے بعد ہی اُس نے اپنے باس کی نیت اور نظر کو بدلتے دیکھا تو کچھ دن خاموش رہی پھر اس طرح کی آفس جاب کے لئے کان پکڑ لئے ساتھ ہی خیال آیا کہ اگر اُس کے والدین ہوتے تو اس طرح کی جاب کی کبھی اجازت نہ دیتے۔ جیتے جی ماں کی فرمانبرداری کرنا نیک عمل ہے مگر اُن کے بعد اُن کی فرمانبرداری ثواب کا باعث تو بنتی ہے ساتھ ہی ماں باپ کی روح کو سکون بھی عطا ہوتا ہے اور یہی سوچ کر اُس نے فی الحال جاب کی تلاش شروع کر دی اب وہ کسی گرلز کالج میں لیکچرار شپ کے لئے اپلائی کرنا چاہتی تھی مگر کچھ وقت آرام کرنے کے بعد اچانک مسز لودھی ’’واحدی ہاؤس‘‘ والی جاب لے کر چلی آئیں ۔ اور معصوم سے بچوں کے ساتھ وقت بتانے کی تمنّا کو وہ دبا نہ سکی۔ ساری معلومات لینے کے بعد مکمل طور پر اطمینان کرنے کے بعد اُس نے یہ آفر قبول کر لی۔ ویسے تو مسز لودھی کی گارنٹی بھی کافی تھی اور اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ ’’واحدی ہاؤس‘‘ میں جاب کرتے ہوئے بے حد مطمئن تھی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ تپتی دھوپ سے گھنی چھاؤں تلے آگئی ہو لیکن پتہ نہیں کیوں اُس کا سکون وقتی ثابت ہوا تھا۔ کچھ باتیں اُس کا سکون درہم برہم کر رہی تھیں حالانکہ محفوظ ماحول تھا۔ ماں جی محبت نواز تھیں ۔ بچے بھی اس کا احترام کرنے والے تمیز دار تھے۔ تنخواہ بھی بہتر تھی اور ہاسٹل بھی قریب ہی تھا پھر بھی کچھ باتیں تھیں جو بری طرح سے کھٹک رہی تھیں سب سے زیادہ ڈسٹرب کیا تھا اُسے اکمل واحدی کی پر اسرار شخصیت نے جو ایک ہی سال سے یہاں تھا اُسے کوئی زیادہ جانتا نہ تھا سوائے فضلو بابا کے ہر ملازم نیا تھا۔ بچے تھے مگر بیوی کے وجود کا کوئی پتہ نہ تھانہ ہی گھر میں کوئی تصویر ہی نظر آتی تھی نہ ہی ماں جی کی زبان سے اُس کا ذکر سنا تھا اور ایک دن اشہب نے بات کرتے ہوئے بتایا ’’دادی پہلے یہاں نہیں رہتی تھیں ہمارے ساتھ، پاپا ایک دن لے کر آئے اور کہا کہ یہ آپ کی دادی ہیں پہلے گاؤں میں رہتی تھیں اب یہاں رہیں گی پھر احمر بھیّا آئے۔ پاپا نے کہا یہ آپ کے بڑے بھائی ہیں ۔‘‘ اور وہ دم بخود سنتی رہی کہ آخر احمر نواز کا کیا رشتہ ہے اکمل واحدی سے۔ اگر وہ کوئی رشتہ دار ہے تو ماں جی کی خدمت پر کیوں معمور تھا اور اگر وہ ملازم تھا تو اکمل واحدی یقیناً دو کردار رکھتا تھا۔ وہ جتنا سوچتی الجھتی جاتی اور آخر اُس نے یہ جاب چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور اپنے فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے چھٹی والے دن یعنی سنڈے کے دن دوپہر میں واحدی ہاؤس چلی آئی کہ یہی ایک دن ہوتا تھا جو اکمل واحدی گھر میں رہتا تھا اور اسی دن وہ یہاں نہیں آتی تھی اس لئے فضلو بابا اُسے دیکھ کر چونکے پھر آنے کی وجہ پوچھی۔ 
 ’مجھے اکمل صاحب سے ضروری کام ہے وہ کہاں ہوں گے؟‘‘ وہ اُن کے چونکنے پر گڑبڑائی پھر سنبھل کر بولی۔
 ’’اکمل بیٹا تو اس وقت اسٹڈی روم میں ہیں۔‘‘
 ’’جی ٹھیک ہے، مَیں وہیں اُن سے مل لیتی ہوں۔‘‘ وہ سیدھی اسٹڈی روم کی جانب بڑھی۔ پہلے دروازہ ہلکے سے ناک کیا جس پر اندر سے پوچھا گیا ’’کون؟‘‘
 اور چونکہ دروازہ ادھ کھلا ہوا تھا کون کے جواب میں وہ اندر داخل ہوگئی۔ اکمل واحدی نے چونک کر سر اٹھایا تھا اور اُس پر نظریں پڑتے ہی مبہم سا مسکرایا تھا اور ریلیکس ہوکر ریوالونگ چیئر سے پشت ٹکا دی اور بولا ’’جب آپ میری اجازت کے بغیر اندر آگئی ہیں تو مزید آگے آنے کی زحمت بھی گوارا کر لیجئے۔‘‘
 اس کی استہزائیہ مسکراہٹ پر ماروری کا دل چاہا پیر پٹک کر واپس کی راہ پر موڑ جائے مگر وہ ایسا نہ کرسکی بلکہ نپے تلے قدم اٹھاتی میز کے قریب جا رُکی اور خاموشی سے میز کی سطح پر انگلی پھیرنے لگی۔
 ’’مجھے لگتا ہے کہ آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہیں آخر مجھے نہیں یاد کہ مَیں نے آپ کو بلایا ہے۔‘‘ اس کا لہجہ ہنوز وہی تھا۔ وہ چڑ کر اُسے دیکھنے لگی جو اس وقت سرمئی کرتا شلوار میں اپنی تمام تر وجاہت سمیت اُس کے سامنے تھا۔
 ’’مَیں یہ جاب چھوڑنا چاہتی ہوں ۔‘‘ وہ ہمت کرکے لہجے کو پُراعتماد بناتے ہوئے بولی۔
 ’’بعد شوق! آپ پابند ہرگز بھی نہیں ہیں لیکن ابھی ایک ماہ بھی مکمل ہوا نہیں ۔‘‘
 ’’مجھے تنخواہ چاہئے بھی نہیں ۔‘‘ وہ جلدی سے بولی۔ ’’مَیں تنخواہ کے تعلق سے کہہ بھی نہیں رہا تھا بلکہ مَیں وہ وجہ جانتا چاہتا ہوں جس کی وجہ سے آپ یہ جاب چھوڑرہی ہیں کہ آخر ایک ماہ میں ایسا کیا ہوا؟‘‘
’’مَیں وجہ بتانا ضروری نہیں سمجھتی۔‘‘ وہ ہٹ دھرمی سے بولی۔ اُسے غصہ آرہا تھا کہ اُس نے اُسے بیٹھنے کے لئے نہیں کہا تھا۔ حالانکہ وہ بیٹھنا چاہتی بھی نہیں تھی۔
 ’’کہیں میری پُراسرار شخصیت تو وجہ نہیں ۔‘‘ وہ دھک سے رہ گئی، نظریں جھک گئیں۔ ’’ویسے مجھے تو نہیں لگتا کہ میری شخصیت میں کچھ اسرار چھپے ہیں۔‘‘ وہ مسکرا کر بولا اور اسے ایک دم سے غصہ آگیا۔ ’’آپ کی شخصیت میں اسرار نہیں فریب چھپا ہوا ہے، آپ دوغلے انسان ہیں۔‘‘
 ’’وہاٹ! تمیز سے بات کیجئے محترمہ!‘‘ اکمل کی بھی تیوری چڑھ گئی۔
 ’’کیوں بری لگ گئی میری بات.... سچائی کڑوی ہی لگتی ہے آپ دو کردار رکھتے ہیں جس کا ثبوت احمر نواز ہے ایک طرف بے یار و مددگار بچوں کو سہارا دیتے ہیں اور ایک طرف ایسے ہی معصوم بچے سے اپنے گھر میں کام لیتے ہیں ۔ بولئے کیا یہ غلط ہے۔‘‘ وہ خاموش ہوکر اُسے دیکھنے لگی جو نیم وا آنکھوں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔
 ’’یہ تو بہت معمولی بات ہے میرے دوغلے پن کی اور بھی تو نشانیاں ہوں گی وہ بھی بیان کر دیجئے۔‘‘ وہ طنزاً بولا اور وہ واقعی میں شروع ہوگئی۔
 ’’ ہاں ہے! آپ بھروسے کے لائق نہیں لگتے نہ جانے یہاں آنے سے پہلے آپ کیا کرتے رہے ہیں جو نہ صرف گھر تبدیل کیا بلکہ ملازم بھی سارے نئے رکھے، آپ کی ماں بھی پہلے آپ کے ساتھ نہیں رہتی تھیں اور آپ کے بچوں کو اپنی ماں کا نام بھی نہیں معلوم، نہ ہی آپ کی بیوی کی کوئی تصویر ہے نہ ہی آپ کی ماں ہی اس کا ذکر کرتی ہیں اور ضرور اس سب کے پیچھے کوئی راز ہے۔‘‘ وہ خاموش ہوئی تو وہ چند لمحے بغور اُسے دیکھتا رہا پھر اُٹھ کر اُس کے قریب چلا آیا۔ ’’مجھے کیوں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آپ یہاں نوکری کرنے نہیں بلکہ میری جاسوسی کرنے آئی ہیں آخر اتنا غصہ اتنا عناد اتنی نفرت کس لئے مجھ سے جبکہ آپ کی آنکھیں تو مجھے کچھ اور کہتی محسوس ہوئی تھیں ۔‘‘ وہ اُس کے دلکش چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے گہرے لہجے میں بولا اور وہ ایک دم سے گڑبڑا گئی۔ اس کے سامنے سے ہٹنے کے لئے آگے بڑھنا چاہا مگر نہ بڑھ سکی کہ اُس کی خوبصورت نازک سی کلائی اکمل کے مضبوط ہاتھ کی گرفت میں جا چکی تھی۔
 ’’یہ کیا حرکت ہے؟ ہاتھ چھوڑیئے میرا....‘‘ وہ بے انتہا طیش سے کہنا چاہتی تھی مگر نہ جانے کیا ہوا تھا وہ دھیمے سے لہجے میں کہہ گئی۔
 ’’اتنے سارے الزامات عائد کئے ہیں تو مجھے بھی اپنی صفائی میں کچھ تو کہنے دو گی یا نہیں ۔‘‘ مدھم لہجے میں کہتے ہوئے اُس نے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ دیا تو وہ جلدی سے صوفہ چیئر پر بیٹھ گئی اور وہ صوفے پر بیٹھ گیا۔ پتہ نہیں کیا تھا اکمل کے لہجے میں کہ وہ اس کی بات سننے سے انکار نہ کرسکی اور اُس کا دل بھی تو اُس کی سچائی جاننا چاہتا تھا نہ جانے کیوں ..... ’’تم بات سننے کو تو راضی ہو مگر کیا جو کہوں گا اُس پر اعتبار بھی کرو گی؟‘‘ وہ دھیرے سے آپ کے تکلف سے ہٹ کر ’’تم‘‘ کی جانب بڑھا تھا۔ وہ اُس کی جانب دیکھنا چاہتی تھی مگر نہ دیکھ پائی بس اثبات میں ہلا دیا۔ وہ حیران تھی اپنے دل کی کیفیت پر جو ایک طرف اُس شخص سے بدظن تھا تو دوسری طرف اُس پر یقین بھی کرنا چاہ رہا تھا۔
 ’’میرے والد ایک یتیم خانے میں پلے ہوئے انسان تھے اور اسی لئے جب وہ اپنی قابلیت اور زورِ بازو پر ترقی کی منزلیں طے کرتے گئے تو بے آسرا بچوں کو آسرا دینے کے لئے ’’مددگار‘‘ شروع کیا اور پھر ایک بے آسرا لڑکی ہی سے شادی کی یعنی میری ماں اور مَیں دس برس کا تھا کہ اپنی ماں کے مشفق سائے سے محروم ہوگیا۔‘‘ وہ ٹھہرا۔ ماروری اُسے دیکھنے لگی مگر وہ اُس کی جانب متوجہ نہیں تھا۔ نظریں جھکائے غیر مرئی نقطے پر اُس کی توجہ مرکوز تھی۔
 ’’وقت کا کام گزرنا ہے گزرتا رہا اپنی ماں کی کمی کو ہر ہر پل محسوس کرتے ہوئے مَیں نے کئی منزلیں طے کیں کہ میرے بابا جان کی مجھ سے بہت سی اُمیدیں وابستہ تھیں اور سب سے زیادہ اُن کو یہ اُمید تھی کہ مَیں بھی اُن کی طرح انسانیت کی خدمت کروں اور خدا کا شکر تھا کہ خلق ِ خدا کی خدمت کا جذبہ مجھ میں بھی اُن کی طرح بدرجۂ اتم موجود تھا۔ مَیں تعلیم سے فارغ ہی ہوا تھا کہ بابا جان بھی مجھے صدمے سے دو چار کرکے مالک حقیقی سے جاملے۔ وہ نہیں تھے مگر اُن کی کہی باتیں اُن کے کئے عمل میرے لئے مشعل ِ راہ تھے اور مَیں نے ہر ممکن کوشش کی اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی مگر لگتا ہے مَیں ناکام ہوگیا ہوں ورنہ آج فریبی.... دوغلے کے خطاب سے نوازا نہ جاتا۔‘‘ وہ دل گرفتگی سے بولا اور وہ لمحہ بھر کو شرمندہ ہوئی لیکن اگلے ہی پل خیال آیا کہ ابھی اس کے لگائے الزامات کے جواب نہیں دیئے ہیں اس لئے استہزائیہ انداز میں اُسے دیکھنے لگی اور وہ اُس کی نظروں کا مفہوم سمجھ کر ہلکے سے مسکرایا۔
 ’’اگر تم مجھے غلط انسان سمجھتی ہو تو اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہے کہ آج کا زمانہ اور اُس میں بسنے والا انسان زیادہ تر خود غرض اور مطلبی ہے ایسے میں کوئی بے غرض انسان ہمیں نظر بھی آتا ہے تو ہم اُس میں خامیاں تلاش کرنے لگتے ہیں ۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ مَیں بے غرض ہوں ، نہیں .... مَیں بھی خود غرض ہوں ۔ میرا بھی اس کے پیچھے مطلب چھپا ہوا ہے۔ مجھے بھی اپنے عمل کا بدل چاہئے رشتوں کی صورت میں ۔ ’’مددگار‘‘ میں رہنے والے بچوں کے منہ سے خود کے لئے چاچو سن کر خوش ہوتا ہوں مَیں ۔ ماں جی جب مجھے بیٹا کہتی ہیں تو مَیں خود کو خوش قسمت سمجھنے لگتا ہوں .... احمر جب مجھے بھیّا کہتا ہے تو مجھ میں ایک خاص ذمہ داری کا احساس جاگ اُٹھتا ہے کہ مجھے احمر نواز کے مستقبل کو تابناک بنانا ہے اور جب اشہب اور ایمن مجھے پاپا کہتے ہیں تو مَیں ایک انوکھے احساس سے ہم آہنگ ہوجاتا ہوں ۔‘‘ وہ بے حد جذب سے کہہ رہا تھا۔
 ’’تو کیا ان سب سے آپ کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔‘‘ وہ حیران سی بولی۔
 وہ مسکرایا اور اٹھ کھڑا ہوا اور میز کے پاس جاکر اُس سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔ دونوں ہاتھ سینے پر باندھے، وہ بغور اُسے دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہنے لگا ’’ہاں ! ٹھیک سمجھ رہی ہو تم کہ ان سب سے میرا کوئی خونی رشتہ نہیں بلکہ دل کا اور انسانیت کا رشتہ ہے۔‘‘ وہ ٹھہرا.... ’’اشہب اور ایمن چھ ماہ کے تھے جب مجھے ایک یتیم خانے میں نظر آئے تھے۔ اور فطرتاً ہر انسان کو خوبصورتی اپنی جانب کھینچتی ہے مَیں بھی دونوں معصوم بچوں کی خوبصورتی سے متاثر ہوگیا۔ دونوں جڑواں ہیں اور وہاں کے سارے بچوں میں سب سے چھوٹے تھے اور ان کا پورا کنبہ ایک حادثے کی زد میں آکر ختم ہوگئے تھے یہ اُسی وقت پیدا ہوئے تھے اور اسپتال میں تھے۔ حادثے کی خبر سے ان کی ماں کی طبیعت بھی خراب ہوگئی اور وہ بھی انہیں تنہا چھوڑ گئی اور اگر ان کی ماں کے والدین حیات ہوتے تو شاید وہ اُن کی ذمہ داری لیتے۔ کچھ دور کے رشتے دار تھے مگر ان کی ذمہ داری اٹھانے کے لئے تیار نہ تھے بلکہ اُنہیں رشتہ داروں نے یتیم خانے میں ڈال دیا ان معصوموں کو اور بس مَیں نے قانونی طور پر انہیں گود لیا۔ پھر ڈیڑھ سال پہلے مجھے ماں جی ملیں ۔ میرے دوست کے دوست کی ماں جنہیں اُن کا بیٹا اور بہو درخواعتنا جانتے تھے اور اولڈ ایج ہوم بھیجنے کی تیاری میں تھے۔ مَیں انہیں ساتھ لے آیا اور اُن کے آنے سے مجھے ماں مل گئی اور انہیں بیٹا.... حالانکہ وہ اپنے بیٹے کو بہت چاہتی تھیں مگر اس کے بیگانہ سلوک نے اُن کے دل کو دکھ بھی پہنچایا۔ وہ اپنا سب کچھ اپنے بیٹے کو دے چکی تھیں اور شوہر کے انتقال کے بعد بیٹا انہیں نوکر سے بھی بدتر حالت میں رکھ رہا تھا۔ حق لے چکا تھا مگر فرض نبھانے کیخلاف تھا.... ایسا بیٹا چاہے امیر ہو اُسے غریب ہی کہیں گے کہ ماں جیسی دولت جس کے پاس ہو اور وہ اُسے ٹھکرا دے وہ دُنیا کا سب سے زیادہ غریب آدمی ہی ہوسکتا ہے۔‘‘ 

 ....وہ اپنے پوتے احمر سے ملنے اُس کے اسکول جاتی رہتی تھی وہ بھی اُن سے بے حد محبت کرتا تھا اور اپنے ماں باپ کے اقدام سے شرمندہ تھا اور آخر اُس نے فیصلہ کر لیا اپنے ماں باپ کو چھوڑنے کا اور وہ اپنی دادی کے پاس ایک دن چلا آیا۔ بے حد ڈرا ہوا بھی کہ نہ جانے مَیں کیا کہوں .... مجھے اُسے رکھنے میں کوئی عار نہ تھا لیکن مَیں اُسے یوں والدین کے خلاف اقدام کرنے نہیں دے سکتا تھا اس لئے مَیں احمر کو اُن کے پاس واپس لے گیا۔ تب اُن کی باتوں نے مجھے حیران کر دیا۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ اُن کے اور بچے ہیں ایک کے نہ ہونے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا ویسے بھی دادی کا ہمنوا نیتا تھا ہمیں درس دیتا تھا اچھا ہے بلا ٹلی.... مَیں اُن کی باتوں پر افسوس کرتا لوٹ آتا اور پوری طرح سے احمر کی ذمہ داری اٹھا لی مگر وہ بے حد خوددار لڑکا ہے کہنے لگا کہ وہ بوجھ نہیں بننا چاہتا اس لئے مجھے ہار ماننا پڑی وہ فیکٹری میں بھی تھوڑا بہت میرا ہاتھ بٹاتا ہے اور یہاں اپنی دادی کی خدمت بھی کرتا ہے مَیں نے انگلش میڈیم اسکول میں اُسے داخل کروانا چاہا تو اُس نے کہا وہ جہاں پڑھ رہا ہے وہ بھی اچھی اسکول ہے ویسے بھی ترقی کے لئے ذہانت، لگن اور صلاحیت کی ضرورت ہے پھر اسکول کوئی بھی ہو اور مَیں قائل ہوگیا کہ اتنی سی عمر میں زندگی کو بے حد قریب سے دیکھا تھا اُس نے۔ اب تم کہو میرے دو روپ ہیں یا زندگی کے اس دنیا کے یا اس دنیا میں رہنے والوں کے....‘‘
 وہ خاموش ہو کر اُسے دیکھنے لگا جو گم صم سی ہوگئی تھی کچھ لمحے خاموشی کی نذر ہوگئے تھے پھر وہ دھیرے سے اُٹھ کر آہستگی سے چلتی ہوئی اُس کے روبرو آ کھڑی ہوئی اور اُسے دیکھا جس کے چہرے اور آنکھوں میں سچائیاں رقم تھیں ۔
 ’’آئی ایم سوری! مَیں نے کافی ہرٹ کر دیا آپ کو۔‘‘ وہ دھیرے سے بولی۔ لہجہ ندامت کا مظہر تھا۔ وہ مسکرایا، وہی مسکراہٹ جو مقابل کو تسخیر کر لیتی تھی۔
 ’’مجھے تمہاری معافی نہیں ساتھ چاہئے۔‘‘ لہجہ بے حد گھمبیر اور لو دیتا ہوا تھا۔ وہ دم بخود رہ گئی دل شدت سے دھڑک اٹھا۔ وہ اچانک اتنی بڑی بات کہہ دے گا کہاں جانتی تھی وہ۔
 ’’یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟‘‘ وہ بُری طرح گڑبڑا کر بولی۔ وہ خود حیران تھی کہ اُسے غصے کے بجائے حیا محسوس ہو رہی تھی۔
 ’’وہی تو مانگ رہا ہوں جو تمہارے پاس ہے جو تم مجھے دے سکتی ہو۔ کیا تم میرے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دے سکتیں ۔‘‘ وہ اُس کی گھنی سیاہ پلکوں کو رخسار پر لرزتا دیکھ کر سنجیدگی سے بولا اور اپنا ہاتھ اُس کے سامنے پھیلایا۔
 ’’پلیز اکمل....! چپ ہوجایئے..... ہمارے بیچ کوئی رشتہ نہیں جو آپ اس طرح کی باتیں کررہے ہیں ۔‘‘ لرزتے لہجے میں زبان نے تو کہہ دیا کہ کوئی رشتہ نہیں مگر وہ اس دل کا کیا کرتی جو اُسے اپنا کہے جا رہا تھا۔ دل کی آواز سے گھبرا کر وہ رُخ موڑ گئی۔
 ’’مانا کہ ہمارے بیچ کوئی رشتہ نہیں لیکن کوئی تو بات ہے جو مَیں اپنی زندگی کا ورق ورق تم پر کھولتا چلا گیا اور جانتی ہو وہ کیا ہے....‘‘ وہ کہتے ہوئے اُس کے سامنے آگیا اور وہ اپنے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرنے لگی کہ اُس پر اپنی کمزوری واضح کرنا نہیں چاہتی تھی۔
 ’’مَیں نہیں جانتا مجھے کیسے محبت ہوئی مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ اس میں قصور تمہاری باغی آنکھوں کا بھی ہے جو تمہارے دل کے راز کی مظہر ہیں ۔‘‘ وہ گہری سنجیدگی سے بولا اور وہ ایک دم آپے سے باہر ہوگئی۔
 ’’پلیز! بند کیجئے یہ بکواس....‘‘ وہ چیخی اور اُسے سامنے سے ہٹاتی ہوئی اسٹڈی روم سے نکلتی چلی گئی اور وہ چاہتا تو بڑھ کر اُسے روک سکتا تھا لیکن وہ اُسے کچھ وقت دینا چاہتا تھا کہ جانتا تھا جیت تو اُسی جذبے کی ہوئی تھی جسے محبت کہتے ہیں ۔

تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا
زندگی دھوپ تم گھنا سایہ
 زندگی کی دھوپ میں گھنا سایہ بن کر ہی تو ملا تھا اکمل واحد اور یہ سچ تھا کہ اُسے اکمل سے محبّت ہوئی تھی.... قطعی اجنبی شخص سے جسے بس چند دنوں سے ہی وہ جاننے لگی تھی اور شاید اسی لئے جب اُسے یہ محسوس ہونے لگا کہ اُس کے دل اور زندگی کے لئے جو اہمیت اختیار کر گیا ہے اس میں کچھ خامیاں ہیں تو وہ الجھنے لگی اسی لئے وہ سراپا سوال بنی، اُس کے سامنے جاکھڑی ہوئی اور جب وہ پوری ایمانداری سے اُس کے ہر سوال کا جواب دیتا چلا گیا تو جہاں دل میں سکون اترتا ہوا محسوس ہوا وہیں اپنا آپ کھل جانے اور ایک دم سے اُس کے اظہار محبت پر اُس کی حالت غیر ہوگئی کہ ابھی تو وہ خود سے بھی اعتراف نہ کر پائی تھی۔ اسے کیا جواب دیتی۔ وہ کیسے ہاسٹل پہنچی وہی جانتی تھی۔ تب سے اب تک دو دن ہوگئے تھے اسے خود کا ہوش نہ تھا بخار میں پھنک رہی تھی اس کی ساتھی لڑکیوں نے تو اس کا خیال رکھا ہی تھا۔ مسز لودھی نے بھی اُس کا پورا خیال رکھا تھا اب بھی اس کے لئے ناشتہ لے کر خود آئی تھیں اس کی روم میٹ اپنی جاب کے لئے نکل چکی تھی۔ انہیں ٹرے لئے اندر آتا دیکھ کر وہ شرمندہ سی ہوگئی۔
 ’’پلیز آنٹی! آپ مجھے شرمندہ کر رہی ہیں ۔‘‘ وہ اٹھتے ہوئے بولی۔
 انہوں نے ٹرے رکھ کر جلدی سے آگے بڑھ کر اُسے اٹھنے میں مدد کی اور بیڈ کی بیک سے تکیہ لگا کر اُسے بٹھایا۔
 ’’تھینکس!‘‘ وہ بولی۔ آواز ہی نہیں اس کا پورا وجود بھی نقاہت زدہ تھا۔
 ’’تم کیوں شرمندہ ہوتی ہو.... کیا مائیں اپنی بیٹیوں کے کام نہیں کرسکتیں ۔‘‘ انہوں نے پیار سے کہا۔ ’’ماں !‘‘ وہ زیر ِ لب بولی۔
 ’’ہاں بیٹی یہاں رہنے والی ساری لڑکیاں مجھے بیٹی کی طرح ہی عزیز ہیں ، چلو اب خاموشی سے ناشتہ کرو، کتنی کمزور ہوگئی ہو۔‘‘
 انہوں نے ٹرے اُس کے قریب رکھ دی اسے لگا کہ شاید وہ اپنے ہاتھ سے ہی کھلانے نہ لگیں اس لئے وہ آہستہ آہستہ کھانے لگی۔ اس درمیان مسز لودھی پاس پڑے میگرین کا مطالعہ کرنے لگی پھر اچانک بولیں ’’تم ناشتہ کر لو پھر مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔‘‘ وہ چونکی اُسے اُن کی باتوں میں کچھ خاص تاثیر سا محسوس ہوا۔ ناشتے سے فارغ ہوکر اُنہیں دیکھنے لگی۔ اس کے متوجہ ہونے پر میگزین اور ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر اُسے بے حد پیار سے دیکھتے ہوئے کچھ خاص انداز سے مسکرائیں ۔ اُسے عجیب سی گھبراہٹ ہونے لگی۔
 ’’ایک کام مجھے کافی مشکل لگ رہا تھا مگر اللہ کا شکر ہے کہ اس نے سب کچھ آسان کر دیا۔‘‘
 ’’کون سا کام آٹنی؟‘‘ وہ حیران ہوئی۔
 ’’وہی بتانے جا رہی ہوں ، اکمل کے والد اور میرے شوہر بڑے اچھے دوست ہوا کرتے تھے۔ حالانکہ وہ عمر میں میرے شوہر سے دس برس بڑے تھے لیکن دونوں کا کام ایک جیسا تھا۔ انسانیت کی خدمت کا اسی وجہ سے مراسم ہوئے اور دوستی ہوئی، اُن کی بیوی کا انتقال میری شادی کے ایک سال بعد ہی ہوگیا تھا بڑی نیک خاتون تھیں ۔ اکمل اپنے ماں باپ دونوں کا پَرتو ہے بڑا ہی نیک بچہ ہے اتنی عمر میں بڑی ذمہ داریاں اٹھا رکھی ہیں مجھے اور میرے شوہر کو بے حد عزیز ہے اسی لئے جب اس نے ہم پر یہ خیال ظاہر کیا کہ وہ شادی کرنا چاہتا ہے اور ہم اس کے لئے لڑکی پسند کریں وہ بھی اپنے والد کی طرح بے آسرا لڑکی سے شادی کا ارادہ رکھتا تھا۔ ساتھ ہی وہ چاہتا تھا کہ وہ لڑکی اس کے ساتھ ساتھ ان سب کو بھی اپنائے جنہیں اس نے اپنایا ہے۔‘‘ وہ لمحہ بھر کو خاموش ہوئیں ۔ ماروری حیران تھیں کہ وہ اکمل کی شادی کاتذکرہ کیوں کر رہی ہیں ۔ اس کے دل کی کیفیت عجیب سی ہو رہی تھی۔
’’مَیں نے سوچا کہ اکمل تو دل میں نیک جذبات رکھ کر شادی کرنا چاہتا ہے مگر ضروری نہیں کہ ہر بے آسرا لڑکی معصوم بھی ہو۔ ساری زندگی کا معاملہ ہے اگر کسی نے اکمل کی اچھائی کا غلط فائدہ اٹھایا تو اور جن کو اُس نے اپنایا ہے انہیں کوئی نیک دل لڑکی ہی اپنا سکتی ہے اور پھر شادی ایک ایسا رشتہ ہے جس میں محبت اور مکمل دل کی پسندیدگی نہ ہو تو وہ رشتہ ادھوراسا لگتا ہے۔ رشتے کا حسن بھی کھو جاتا ہے محض ہمدردی میں جڑا رشتہ ناپائیدار بھی ہوسکتا ہے اس لئے مَیں نے بہت سوچنے کے بعد ایک فیصلہ کر لیا۔ لڑکی تو میری نظر میں تھی، ایسی لڑکی تھی جو ایک عزت دار فیملی سے تعلق رکھتی ہے اور مَیں چاہتی تھی کہ اکمل اور وہ لڑکی ایک دوسرے کو اچھی طرح دیکھ پرکھ لے اس لئے مَیں نے ایک ترکیب کی اس لڑکی کو مَیں نے اکمل کے گھر جاب کے لئے بھیج دیا اور....‘‘ وہ جان بوجھ کر اپنی بات ادھوری چھوڑ کر اسے دیکھنے لگیں ۔
 ’’تو کیا.... وہ لڑکی.... مَیں .... مَیں ہوں ، آپ نے اسی لئے مجھے وہاں جاب کے سلسلے میں بھیجا تھا آپ نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ وہ نظریں جھکائے بکھرے ہوئے لہجے میں بولی۔
 مسز لودھی نے پیار سے اُس کے جھکے چہرے کو دیکھا اور اس کی بھیگی پلکیں بہت کچھ منکشف کر رہی تھیں ۔ بہت کچھ تو ان پر پہلے ہی آشکار ہوچکا تھا آخراکمل اُن کے لئے بیٹے کی حیثیت رکھتا تھا وہ اپنی آنٹی سے کبھی کچھ نہ چھپاتا تھا۔
 انہوں نے ایک دم سے اُس کا چہرہ ہاتھوں میں بھر لیا ’’کیا مَیں نے غلط کیا تھا.... میرے نیک کام میں میرا ساتھ اللہ رب العزت نے بھی دیا تم دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے محبّت اتار دی۔‘‘ اُن کا اتنا کہنا ہی غضب ڈھا گیا۔ وہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر رو پڑی۔ انہوں نے محبت سے اُسے اپنے ساتھ لگا لیا اور اُس کے آنسو اُن کا شانہ بھیگونے لگے جی بھر کر رو لینے کے بعد وہ دھیرے سے ان سے الگ ہوئی اور اپنے آنسو پونچھتی ہوئی ان سے نظریں چراتے ہوئے بولی ’’آپ نے مجھ سے چھپا کر یہ سب کیوں کیا؟‘‘
 ’’اگر بتا کر کرتی تو کیا تم وہاں جاب کرنے جاتی، اور مَیں نے تو محض رشتہ کرنا چاہا تھا محبت تو تم دونوں کرنے لگے۔‘‘ انہوں نے آڑے ہاتھوں لیا وہ چہرہ ہی نہیں سر بھی جھکا گئی۔
 ’’سچ کہوں اکمل نے جب شادی کا ارادہ ظاہر کیا تو میری نظروں میں تم ہی آٹھہریں ، ہر طرح مکمل ہو تم.... صورت، سیرت، کردار اور خاص کر بے حد نرم اور خلوص بھرا دل رکھتی ہو لیکن سنا ہے میرے بیٹے پر خاصی برہم ہوئی تھیں ۔‘‘ انہوں نے چھیڑا وہ جھینپ گئی۔
 ’’انہوں نے سب کہہ دیا آپ سے....‘‘ وہ خجل سی بولی۔
 ’’سب تو نہیں ہاں اتنا ضرور کہا کہ تمہارا جواب مثبت ہوگا۔ بولو.... اس کا یقین مستحکم ہے نا۔‘‘ مسز لودھی بات کو دوسرا رخ دے کر بولیں ۔
 وہ چپ رہی مگر اس کی خاموش سب کچھ کہہ رہی تھی۔
 ’’ماروری بیٹا! زیادہ مت سوچو.... مجھ پر بھروسہ رکھو، اکمل اعتماد کے لائق ہے اور سب سے اہم اپنے دل کا کہنا سنو وہ تو غلط نہیں کہہ رہا ہے۔‘‘ مسز لودھی پیار سے بولیں ۔
 ’’جی ہاں ....! میرا دل غلط نہیں کہہ رہا کہ محبت کرنے والا دل غلط نہیں کہہ سکتا۔‘‘ وہ نظریں جھکا کر بولی اور مسز لودھی نے جھک کر اُس کی پیشانی چوم لی۔
ماروری کے چچا بھی نکاح میں شریک ہوئے تھے۔ اکمل کے ساتھ فضلو بابا اور اُس کے دوست آئے تھے اور مسٹر اینڈ مسز لودھی اور ہاسٹل میں رہنے والی لڑکیاں شریک تھیں ۔
 سادگی سے نکاح کی رسم ادا ہوئی اس کے چچا زیادہ دیر ٹھہرے نہیں اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر دعا دیتے چلے گئے۔ اس وقت اسے شدت سے اپنے والدین یاد آگئے تھے۔ آنکھیں بھیگنے لگی تھیں ۔ ہاسٹل میں رہنے والی لڑکیوں نے ہی اُسے تیار کیا تھا۔ اکمل کے دوست چلے گئے تو فضلو بابا کو بھی اکمل نے اُن کے ساتھ یہ کہہ کر بھیج دیا کہ وہاں دلہن کے استقبال کی تیاری کرے ۔ وہ چلے گئے تو وہ مسز لودھی سے اجازت لے کر اس روم میں آگیا جہاں ماروری تھی، بے حد خاموش سی وہ بیٹھی ہوئی تھی۔ دروازے کے ہلکے سے کھٹکے پر چونک کر نظریں اٹھائیں تو اکمل کو دیکھ کر بے ساختہ کھڑی ہوگئی۔ ہاتھ سر پر آنچل درست کرنے لگا۔ وہ دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتا اس کے قریب آ گیا تھا ’’آج مجھے یقین ہو گیا کہ محبت نہ صرف بے اختیار ہوتی ہے بلکہ کامیاب بھی ہوتی ہے۔‘‘ وہ بے حد خوبصورت لہجے میں بولا۔
 ماروری کی خوبصورت آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوگئیں ’’ماروری! یہ آنسو کیوں ....؟‘‘ وہ حیران سا بولا۔
 ’’اکمل....! مجھے بتایئے کہ مجھ میں ایسا کیا دیکھ لیا آپ نے جو مجھے اپنی زندگی میں شامل کر لیا۔‘‘ وہ نظریں جھکائے بولی۔
 دل کا سوال لبوں پر آہی گیا تھا۔
 ’’محبّت! تم میں سراپا محبّت دیکھی ہے مَیں نے.... وہ محبّت جو بے ریا پاک اور اٹوٹ ہے اور خوبصورت بھی....‘‘ وہ گھمبیر لہجے میں جذب سے بولا، وہ ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہی تھی۔
 ’’کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘ وہ پوچھنے لگا۔
 وہ پھر بھی اُسے دیکھ رہی تھی ’’دیکھ رہی ہوں کہ وہی سب کچھ تو میرے مقابل بھی ہے۔ آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ نے کتنی وسعت دی ہے کہ آپ بیک وقت کتنے لوگوں سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘ وہ عزت کی نگاہ سے دیکھ کر بولی۔
 ’’کیا تم بھی ہر اس رشتے کے ساتھ مخلص رہوگی جنہیں مَیں نے اپنا یا ہے؟‘‘ وہ اچانک سنجیدگی سے پوچھنے لگا۔
 ’’بالکل اکمل!وہ کوئی بدنصیب ہی ہوگی جو اتنے سارے پیارے رشتوں کو نہ اپنائے لیکن ایک شرط پر....‘‘
 وہ چونکا ’’کیسی شرط؟‘‘
 ’’وہ یہ کہ سب کے ساتھ میرے لئے بھی وہ شجر بنے رہیں گے جس کے سائے میں مَیں ہر موسم کے، ہر رنگ کو ہنس کر جھیل لوں .... بولیں بنے رہیں گے نا ایسا شجر....‘‘
 وہ یقین چاہ رہی تھی.... ایک اٹوٹ یقین اور وہ کیسے نہ دیتا کہ محبت یقین اور اعتماد کے بغیر ادھوری ہوتی ہے اور اسے محبت کو ہمیشہ مکمل رکھنا تھا۔ اکمل نے محبت سے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھام لیا اور ماروری کو لگا کہ وہ واقعی میں تیز دھوپ سے شجر کے سائے تلے آگئی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK