Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : سسکتا آنچل

Updated: August 07, 2025, 3:45 PM IST | Bint Rafiq | Jokhanpur, Bareilly

آج صبح جیسے ہی رفعت بیگم کی آنکھ کھلی، دل جیسے پژمردہ سا تھا، عجیب سی گھبراہٹ محسوس کر رہی تھیں، نہ جانے کیوں عجیب سا دھڑکا لگا ہوا تھا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

آج صبح جیسے ہی رفعت بیگم کی آنکھ کھلی، دل جیسے پژمردہ سا تھا، عجیب سی گھبراہٹ محسوس کر رہی تھیں، نہ جانے کیوں عجیب سا دھڑکا لگا ہوا تھا۔ بچوں کے کمرے میں جھانک کر دیکھا۔ تینوں بچے سکون سے سوئے تھے، مگر سب سے بڑا بیٹا حامد غائب تھا۔ دل مزید بے قابو ہوگیا۔ یوں تو اس کی روز کی عادت تھی دیر رات تک گھر لوٹا کرتا تھا، مگر آج تو جیسے حد ہوگئی۔ سرے سے پوری رات غائب۔ دل برداشتہ ہوئیں، لیکن پھر بھی صبر کا دامن تھامے رہیں اور دوسرے بچوں کیلئے ناشتہ تیار کرنے میں لگ گئیں۔ ساتھ ہی حامد کا انتظار بھی، لیکن جیسے جیسے سورج چڑھتا رہا ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا گیا۔ بار بار دروازے کی طرف نگاہ ڈالتیں اور واپس کام میں مشغول ہو جاتی تھیں۔ دوسرے بچے بھی سو کر اٹھ گئے تھے اور ماں کی طرح فکرمند ہے۔ وہ بھی حامد کی حرکتوں سے پریشان تھے۔ رات گئے دوستوں کے ساتھ عیاشی کرتا، سگریٹ پیتا اور جوا کھیلتا اور پھر مار کٹائی تک نوبت آ جاتی تھی اور لڑ جھگڑ کر نشے میں ڈولتا ہوا گھر واپس آ ہی جایا کرتا تھا، مگر آج کیا ہوا....؟ اس بات سے سبھی فکرمند تھے۔ یہ آج کیا گل کھلائے گا؟ ڈھیروں وساوس من میں ڈول رہے تھے۔
 اچانک گھر کا دروازہ کھلا۔ حامد کے اوباش دوستوں میں سے ایک اندر آیا اور اس نے وہ جانکاہ خبر دی، جس سے سارا گھرانہ لرز گیا۔ حامد رات کو نشے میں دھت ہو کر کسی شاہراہ پر جا پڑا تھا اور وہیں کسی گاڑی نے اسے کچل دیا تھا۔ نتیجتاً اس کی موت واقع ہوگئی تھی۔ خبر کیا تھی گویا قیامت تھی۔ رفعت بیگم تو جیسے سکتے میں آگئی تھیں۔ آنکھ سے ایک آنسو نہ ٹپکا۔ صرف خاموشی کا پہرا رہا۔ باقی بہن بھائی دہاڑے مار مار کر رونے لگے، جس سے محلے پڑوس کے لوگ اکٹھا ہوگئے اور تسلی دینے لگے۔ خواتین نے بچوں کو سنبھالا اور مردوں نے حامد کے کفن دفن کا انتظام کیا۔ رشتہ داروں کو خبر دی گئی جو جو خبر سنتے تھے آتے جاتے تھے۔ رفعت بیگم کو تسلی دیتے گئے۔ اولاد بھلے بگڑی ہوئی تھی مگر تھی تو پیٹ کی اولاد.... غم کیسے نہ ہوتا....؟ رشتہ دار و محلے پڑوس کے لوگ جو اُن کے کرنے کا تھا وہ تو کر ہی رہے تھے مگر ساتھ ہی ساتھ ہی طرح طرح کی بولیاں بھی بول رہے تھے۔ خس کم جہاں پاک اور نہ جانے کیا کیا....؟ کوئی رفعت بیگم کے درد کا اندازہ نہ کرسکا، جنہیں اپنے بیٹے کی سدھرنے کی قوی امید تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ حامد کو زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کرنے سے گریز کرتی تھیں، لیکن انہیں کیا خبر تھی کہ موت اس سے پہلے ہی آ دبوچے گی۔ا ور اس کے اور ماں کے خوابوں کو چکنا چور کر جائے گی۔
 رفعت بیگم بھلے خاموش تھیں، زبان بند ہوئی تھی لیکن ان کی سوچ کی زبان کھلی ہوئی تھی۔ بیٹے کی وفات کی خبر سن کر دعا پڑھی اور خاموشی سے لوگوں کے آنے، ان کے تسلی دینے اور ان کے رویوں کو دیکھنے لگیں۔ حامد کے کفن دفن کے بعد جب سارے لوگ چلے گئے تھے چند قریبی رشتے دار باقی تھے۔ وہ خاموشی سے اٹھ کر اپنے اس کمرے میں چلی گئیں جہاں وہ بیاہ کر لائی گئی تھیں، جہاں انہوں نے سب سے پہلا قدم سرخ جوڑے میں رکھا تھا، جہاں ان کی زندگی کی بے شمار یادیں تھیں، ان کے شوہر کے ساتھ گزرا ہر لمحہ جہاں قید تھا اور جب کبھی کسی صدمے سے دوچار ہوتی تھیں، اس کمرے میں خصوصی طور پر جاتی تھیں۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں ان کے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا تھا اور اسی وجہ سے وہ یہیں چلی آئیں اور صوفے پر بیٹھ گئیں۔ یادیں انہیں بچپن، جوانی اور شادی کی طرف لے گئیں۔ انہیں اپنا بچپن یاد آ رہا تھا۔
 وہ تین بھائیوں کی اکلوتی اور سب سے چھوٹی بہن تھیں، گھر بھر کی لاڈلی، ماں باپ کی آنکھوں کا نور، دل کا سرور.... کون سی ایسی خواہش تھی جو انہوں نے حاصل نہ کی ہو؟ یہی نہیں کہ وہ لاڈو صرف اپنے گھر کی تھیں بلکہ اپنے خاندان بھر کی دلاری تھی۔ چچا کے بیٹوں اور بیٹیوں کو بھی بہت عزیز تھیں۔ کیونکہ وہ ان سے بڑی تھی اور ان کا خوب خیال رکھتی تھیں۔ لاڈ پیار کے ساتھ ساتھ ماں نے انہیں امورِ خانہ داری میں بھی ماہر بنا دیا تھا۔ گھر کا سارا کام چوکس رکھتیں، طرح طرح کے کپڑے خود ڈیزائن کرتی، خود سلائی کرتی تھیں، محلے میں، رشتہ داری میں کہیں بھی شادی ہو ان کے ہاتھوں پیروں کی مہندی قابل دید ہوتی تھی۔ بھائی پلکوں پر بٹھا کر رکھتے تھے، ہر خواہش پوری کرتے۔ حسنِ اتفاق شادی ہونے کے بعد شوہر نے بھی اس لاڈ پیار کو باقی رکھا۔ سسرال والوں سے زیادہ نہیں بنتی تھی لیکن شوہر کا پیار اس کو زیادہ محسوس نہ ہونے دیتا تھا اور ہر بار تسلی دیتے اور ڈھال بن جایا کرتے تھے۔ اس لئے رفعت بیگم بھی زیادہ اثر نہیں لیتی تھیں۔ شادی کے بعد جلد ہی تین بچوں کی ماں بن گئیں اور زندگی بڑی ہی خوبصورتی سے گزر رہی تھی کہ اچانک وہ ہوا جو اُن کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا اور پھر یہیں سے زندگی کے برے دن شروع ہوئے تھے اور جو ابھی تک جاری تھے۔ اچانک محبت کرنے والے شوہر کی ایک حادثہ میں وفات ہوگئی۔ رفعت بیگم پر یہ خبر بجلی بن کر گری اور اندر سے کھوکھلا کر گئی، ان کی دنیا الٹ گئی اس وقت یہ چوتھے حمل کی شروعات سے گزر رہی تھیں۔ خبر کیا تھی گویا قیامت تھی اور ایسی قیامت جو آج بھی باقی تھی۔
 انہیں یاد آرہا تھا کہ کس طرح سب محلے پڑوس کی عورتوں نے پیار سے مان سے تسلی دی تھی اور اپنے ہونے کا یقین دلایا تھا اس وقت لگا تھا سب اپنے ہیں لیکن ایسا نہیں تھا وہ اپنی سوچ میں غلط تھیں۔ شوہر کی وفات کے بعد کافی دنوں تک سب اپنے لگے تھے لیکن پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا سب کے حقائق سامنے آنے لگے تھے۔ وہ بھائی، جو ان کا مان تھے بدل گئے تھے۔ قطع تعلقی نہیں کی تھی لیکن وہ مان بھی باقی نہیں رہا تھا۔ کس کسمپرسی سے وہ اپنی اور بچوں کی زندگی کی گاڑی کھینچ رہی تھیں یہ وہی جانتی تھیں۔
 جب شوہر کی وفات ہوئی رفعت بیگم جوان تھی ان کی عمر کی لڑکیوں کی شادی تک نہیں ہوئی تھی خاندان والے چاہتے تو ان کی شادی کی جاسکتی تھی اور وہ بھی اچھی زندگی کی مستحق تھیں، لیکن بچوں کی وجہ سے کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی جبکہ رفعت بیگم خود بھی شادی کی خواہشمند تھیں۔ سسرال والے تو پہلے ہی ناپسند کرتے تھے۔ اب وہ تھیں.... ان کی جوانی.... بچوں کا مستقبل.... سسرال والوں کی نفرت.... قرابت داروں کی لاپرواہی اور آس پاس محلے والوں کی ترس کھاتی نگاہیں.... ان کا دل ہی جانتا تھا کہ کس طرح انہوں نے یہ معرک سر کئے تھے۔ اسی دوران بڑا بیٹا اوباشوں کے ہاتھ لگ گیا اور پھر اسکی فکر.... وقت سے پہلے بال سفید ہونا شروع ہوگئے۔ انہیں یاد آرہا تھا کہ حامد بگڑ ضرور گیا تھا لیکن اس کے دل کی کیفیت کو وہ جانتی تھیں۔ وہ اکثر ماں کے کندھے سے لگ کر بے تحاشہ روتا تھا اور بہت سارے ایسے سوالات کرتا تھا جن کے جواب رفعت بیگم چاہ کر بھی نہیں دے سکتی تھیں۔ بس صبر کے گھونٹ پی جایا کرتی تھیں اور بیٹے کو بھی اس کی تلقین کرتی تھیں۔ وہ اپنے بیٹے کی حساسیت کو سمجھتی تھیں اور دل ہی دل میں اس کیلئے دعائیں کرتی رہتی تھیں۔
 آج جبکہ حامد وفات پا گیا تھا۔ غم سے وہ یہیں سوچ رہی تھیں کہ یہ کیسا سماج ہے اور اس کے رواج ہیں کہ اگر شوہر وفات پاجائے تو عورت بھلے جوان ہو لیکن دوسری شادی کرنے کا حق نہیں رکھتی کیونکہ کوئی بھی مرد اس کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا، وہیں اگر بیوی کی وفات ہو توبھلے بڑی عمر کا ہو پھر بھی ہر کوئی اس کی شادی کرانے کی فکر میں ہوتا ہے کہ اسے بچوں کو سنبھالنے کیلئے ایک عورت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ یہ تو وہی ’ستی پرتھا‘ جیسا ہوا کہ جب عورت کو شوہر کی وفات کے ساتھ ہی مار دیا جاتا تھا۔ جینے کا حق تو ہے مگر اپنی مرضی سے نہیں۔  ان کے من میں آج بہت سارے سوال تھے کہ ان کی جوانی کے ویران گزرنے کا ذمہ دار آخر ہے کون؟ حامد کے بگڑنے میں کس کا ہاتھ ہے؟ کیا میں ذمہ دار ہوں، اہل خانہ، سسرال والے جبکہ حامد انہی کا خون تھا یا پھر سماج....؟ اور پھر اس کا جواب ان کے پاس نہیں تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK