• Mon, 01 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : تخلیق ِ نو

Updated: September 01, 2025, 4:06 PM IST | Khan Shabnam Farooq | Mumbai

رات گہری ہوچکی تھی۔ کھڑکی کے باہر چاند بادلوں میں چھپا اپنی روشنی روکنے کی کوشش کر رہا تھا اور کمرے کے اندر ایک ٹیبل لیمپ کی مدھم روشنی خالی کاغذ پر گر رہی تھی۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

رات گہری ہوچکی تھی۔ کھڑکی کے باہر چاند بادلوں میں چھپا اپنی روشنی روکنے کی کوشش کر رہا تھا اور کمرے کے اندر ایک ٹیبل لیمپ کی مدھم روشنی خالی کاغذ پر گر رہی تھی۔ وہ کاغذ ایسا لگتا تھا جیسے کسی سنسان قبر کی مٹی سفید خاموش اور ساکت۔
 میز کے پیچھے بیٹھی زریاب کے ہاتھ میں قلم تھا مگر وہ قلم جیسے برسوں کا قیدی ہو جنبش نہ کر رہا تھا۔ اس کی نظریں کاغذ پر جمی تھیں اور ذہن پر جمود چھایا ہوا تھا۔ کبھی وہ گھنٹوں بیٹھ کر لکھا کرتی تھی الفاظ اس کے دماغ سے پھوٹ کر صفحے پر بہا کرتے تھے۔ مگر آج....
 آج الفاظ جیسے اس کے ذہن کے دریچوں پر دستک دینا بھول گئے تھے۔ کتابوں کا ڈھیر اس کے اردگرد بکھرا تھا۔ ہر کتاب کی جلد ایسے محسوس ہو رہی تھی جیسے وہ اس سے سوال کر رہی ہو، ’’ہمیں بھلا کیوں دیا؟ تمہاری تحریر کہاں گم ہو گئی؟‘‘ مگر زریاب کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔

یہ بھی پڑھئے:افسانہ : مسکرانے کا ہنر

 کمرے میں ایک اور خاموشی تھی۔ اس کے دل کی۔ وہ خاموشی جو کسی گہرے سمندر میں ڈوب جانے جیسی تھی۔ ایک ایسا سمندر جس کی تہہ میں اداسی کا سست رو زہر گھل چکا تھا۔ وہ مسکراتی تو تھی مگر وہ مسکراہٹ ہونٹوں تک آ کر مر جاتی تھی دل تک پہنچنے سے پہلے ہی۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک یاد اُبھری وہ لمحہ جب پہلی بار اس نے قلم تھاما تھا۔ کیسے الفاظ بارش کے قطروں کی طرح بہہ کر صفحے پر گرتے تھے۔ مگر اب؟ اب وہ بارش جیسے کسی سوکھے بادل میں قید ہوچکی تھی۔
 زریاب نے آہستہ سے قلم کو میز پر رکھا اور سر جھکا کر گہری سانس لی۔ ’’کیا واقعی سب ختم ہو گیا؟‘‘ اس نے سوچا۔
 مگر دل کے کسی کونے میں ایک ہلکی سی سرگوشی اب بھی زندہ تھی: ’’اٹھو.... لکھو....‘‘
 یہ آواز کمزور ضرور تھی مگر اس میں زندگی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ ٹوٹ چکی ہے لیکن کئی بار وہ منتشر وجود کو جوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی.... اس بار بھی وہ شکست خوردہ وجود سے اٹھ کر اپنے منزل کی طرف گامزن ہوگی....
 زریاب نے کاغذ کی طرف دیکھا جیسے کسی دشمن کو آخری بار للکار رہی ہو:
 ’’مَیں ہار نہیں مانوں گی....!‘‘
 اس نے قلم اٹھایا اور پہلی لکیر کھینچ دی۔ وہ لکیر محض سیاہی کا نشان نہیں تھی، بلکہ ایک وعدہ تھی خود سے، زندگی سے اور ان سب کہانیوں سے جو ابھی تک اس کے اندر قید تھیں۔ وہ جانتی تھی کہ یہ لکیر ایک داستان کا آغاز ہے۔ ایک ایسی داستان جو اداسی اور جنون کے امتزاج سے جنم لے گی۔ ایسی کہانی جو صرف اس کی نہیں بلکہ ہر اس روح کی ہوگی جو جمود کے یخ بستہ پانیوں میں ڈوبنے کے بعد دوبارہ سانس لینا سیکھتی ہے۔ زریاب کے قلم سے دوبارہ الفاظ بہنا شروع ہوگئے۔ اور اس لمحے اس نے محسوس کیا کہ اس کی تحریر کی دُنیا کا سورج ایک بار پھر طلوع ہوچکا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK