Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : مسکرانے کا ہنر

Updated: August 26, 2025, 5:00 PM IST | Maryam Bint Mujahid Nadwi | Mumbai

مجھے لگا تھا کہ وہ یہ بتاتے ہوئے رو دے گی یا اداس ہو جائے گی، مگر وہ بھی عمیرہ تھی۔ کہنے لگی، ’’یہ دیکھو، یہاں لگی تھی چوٹ۔ دیکھو میرے ہاتھ کا وہ حصہ کیسے ٹماٹر جیسا لال ہوگیا ہے۔‘‘

Picture: INN
تصویر: آئی این این

’’تم جانتی ہو ہمیں ملے کتنے دن ہوچکے ہیں، ماہی؟‘‘ میرے سامنے کھڑی اس عورت کو پہلے تو مَیں گھورتی رہی، جو کہ اچھی بات نہیں ہے مجھے آگے بڑھ کر اس سے ملنا چاہئے۔ مگر مَیں اس قدر حیران ہوں عمیرہ عارف کو اپنے سامنے پا کر کہ میرے ہاتھ پیر شل ہوچکے ہیں۔
 ہم دونوں پہلی بار آٹھویں کلاس میں ملے تھے۔ جب ٹیچر نے اس کا تعارف کلاس میں کروانے کے لئے اسے بلایا تو اس کے چہرے پر ایک ہشاش بشاش سی مسکراہٹ تھی۔ ٹیچر نے اس کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ اس کی امی، جب عمیرہ چھ سال کی تھی تب فوت ہوچکی ہیں۔ اور عمیرہ کے والد دوبئی میں نوکری کرتے ہیں اور عمیرہ اپنی دادی کے پاس رہتی ہے۔ اس کی امی کے بارے میں سن کر سب ہی اداس ہوگئے۔ کئی دن انٹرول میں یہ ڈسکس ہوتا رہا کہ اگر ہماری امی نہیں ہوتیں تو ہم کیسے جیتے؟
 اسکے اسکول جوائن کرنے کے دو مہینے بعد، جب عمیرہ دو ہفتوں کی چھٹی کے بعد اسکول حاضر ہوئی تو ہمیں معلوم ہوا کہ اس کی دادی بھی فوت ہوچکی ہیں اور اب وہ اپنے ماما کیساتھ رہنے چلی گئی ہے۔ کیونکہ اس کا ددھیال میں کوئی قریبی رشتے دار نہیں ہے اور دور کے رشتے دار اسے رکھنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ مجھے تو یقین ہی نہیں ہورہا تھا جب اس نے یہ خبر بغیر روئے ٹیچر کو بتائی۔ میری ایک سہیلی نے اس وقت میرے کان میں کہا، ’’ماہی، کیا تم بغیر روئے یہ بتا سکتی ہو کہ تماری دادی بھی اب اس دنیا میں نہیں ہیں، اور اب تمہارا کوئی اور خیال رکھنے والا نہیں ہے؟‘‘ مَیں نے نفی میں گردن ہلائی اور عمیرہ کا مسکراتا چہرہ دیکھنے لگی، جو بلا کسی جھجھک، تردد اور غم کے یہ بات ہماری ٹیچر کو بتا رہی تھی۔

یہ بھی پڑھئے:افسانہ : آخری خط

میرے یادوں کے خزانوں میں ایک لمحہ یا ایک واقعہ بھی ایسا موجود نہیں ہے کہ جس میں عمیرہ عارف کا چہرہ غمزدہ ہو۔ اس نے بعد میں ہمیں بتایا کہ،’’میری مامی گھر کا کام مجھ سے ہی کرواتی ہیں اور غلطی کرنے پر مارتی بھی ہیں۔ میں نے کل ہوم ورک اسی لئے نہیں کیا تھا کہ مجھے برتن دھوتے وقت چوٹ لگ گئی تھی۔‘‘مجھے لگا تھا کہ وہ یہ بتاتے ہوئے رو دے گی یا اداس ہو جائے گی، مگر وہ بھی عمیرہ تھی۔ کہنے لگی، ’’یہ دیکھو، یہاں لگی تھی چوٹ۔ دیکھو میرے ہاتھ کا وہ حصہ کیسے ٹماٹر جیسا لال ہوگیا ہے۔‘‘ حالانکہ ہم سب کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا لیکن ہم سب ہنسنے لگے کیونکہ وہ سچ مچ میں اتنا لال ہوگیا تھا کہ بالکل ٹماٹر لگ رہا تھا۔
 بہرحال وقت جیسا بھی ہو گزر ہی جاتا ہے۔ ہم بھی اپنی زندگی میں مصروف ہوگئے۔ عمیرہ کی پریشانیاں، عمیرہ کا قصہ گویا ہمارے لئے ہر دن کی گہماگہمی کا ایک حصہ بن گیا تھا۔ اسکول کے اخیر سال ایک طرف تو یہ غم کھایا جاتا ہے کہ بہت جلد یہ جنت نما زندگی ختم ہوجائے گی، اور دوسری طرف، وقت ہوتا ہے کہ مانو اسے پَر لگ جاتے ہیں۔ بس یہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ وقت دیکھتے دیکھتے کافور ہوگیا اور پلک جھپکتے ہی دسویں کا امتحان آگیا۔ اور ختم ہوگیا زندگی کا ایک سہانا دور۔ اسکول کے دنوں کا ختم ہونا تھا کہ ہم سب سہیلیاں بکھر گئیں۔ بس فون پر کبھی کبھار رابطہ ہوجاتا۔
 اس کے اگلے سال جب میں گیارہویں کے امتحان دے رہی تھی تو کسی سے معلوم ہوا تھا کہ عمیرہ کے والد بھی ایک ہوائی جہاز کے حادثہ میں فوت ہوچکے ہیں۔ اور اب اس کی مامی نے اسکی پڑھائی بند کروا دی ہے۔ اس وقت مجھے یاد آیا تھا کہ کیسے عمیرہ کی آنکھیں چمک اٹھتی تھیں جب ہم اس سے ’مَیں بڑی ہونے کے بعد یہ بنونگی!‘ کے عنوان پر بات کرتے تھے۔ اسے ایک نرس بننا تھا اور ان لوگوں کی مدد کرنی تھی جن کا اس دنیا میں کوئی نہیں ہوتا۔ مگر شاید اب اسکی زندگی اس کی مامی کی خدمت کرنے میں ہی گزر جائیگی۔ زندگی نے کچھ اور قدم اٹھائے اور میں نہ صرف اپنی دو کتابیں چھپوانے میں بلکہ ایک اچھا نام کمانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
 مجھے وقتاً فوقتاً سب سہیلیوں کی یاد آتی تھی، لیکن میرے دل میں عمیرہ کے لئے ایک الگ ہی مقام تھا۔ میں فرصت کے لمحوں میں اکثر سوچتی بھی تھی کہ ایک دن عمیرہ سے ملوں گی مگر یہ صرف ایک سوچ بن کر رہ گئی اور ایک اور خبر (جو عمیرہ کے لئے ایک دھچکا تھی) ہم تک پہنچی کہ عمیرہ کی شادی کو تین مہینے بھی نہیں ہوئے تھے کہ اس کی مامی کی کچھ ریشہ دوانیوں کی وجہ سے اپنے شوہر سے علاحدہ ہوگئی اور وہ اپنی مامی کے گھر واپس آگئی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:افسانہ : کالا گھڑا

اس کی مامی کے دونوں بچے دوسرے ملک شفٹ ہوچکے تھے۔ اور ان کی دیکھ بھال کے لئے کسی کا ہونا تو ضروری تھا تو انہوں نے اپنے احسانوں کا بدلہ اس صورت میں عمیرہ سے لیا۔ بیچاری عمیرہ مسکرا کر پھر سے زندگی میں ایڈجسٹ ہوگئی۔ مجھے لگا تھا اس کے بعد تو وہ بالکل ٹوٹ چکی ہوگی۔ اتنی سی عمر میں اتنے غم سہنے والی لڑکی اتنی ہنس مکھ کیسے ہوسکتی ہے؟ مَیں تو اپنا ایک مضمون نہ چھپنے پر پورا ایک دن اداس رہتی ہوں، میرا دھیان کہیں نہیں لگتا اور ایک یہ لڑکی ہے جو اتنے دھچکے سہہ کر بھی اتنی خوش ہے۔ میرے دماغ نے ایک اور پہلو کی طرف میرا دھیان کھینچا، عمیرہ صرف ہمارے سامنے مسکراتی ہے، اکیلے میں وہ ضرور افسوس کرتی ہوگی، روتی ہوگی۔ مگر میرے اس خیال کو میری ایک سہیلی نے جو عمیرہ کی دور کی کزن تھی، نے غلط ثابت کردیا۔ ’’وہ ایسی ہی ہے ماہی، مَیں نے کبھی اسے اداس یا مایوس نہیں دیکھا۔ وہ کہتی ہے کہ یہ اتنی بھی بڑی بات نہیں ہے۔‘‘ سچ میں!
 آج بھی وہ ایسی ہی نظر آرہی ہے۔ مجھے وہاں کھڑا دیکھ کر اس نے ہی آگے بڑھ کر ہاتھ بڑھایا۔ تھوڑی دیر حال احوال پوچھنے کے بعد مَیں نے کہا، ’’چلو پھر ابھی گھر، بیٹھ کر باتیں کریں گے، میرے پاس تمہیں بتانے کیلئے بہت کچھ ہے۔ اور تمہارا نمبر بھی دے دینا تاکہ ہم دونوں ربط میں رہیں۔‘‘ وہ تھوڑا ہچکچائی پھر کہا، ’’سوری ماہی، لیکن میں ابھی نہیں چل سکتی۔ گھرمیں کام ہے اور میرے ماموں ہیں نا، کل ان کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ میں ابھی ہاسپٹل ہی جارہی تھی ان کیلئے پھل لے کر۔ پھر مجھے گھر جا کر دو کمرے کی مکمل صفائی بھی کرنی ہے، صابر اور مدثر بھائی بھی واپس آرہے ہیں کچھ دنوں کیلئے۔‘‘ پھر وہی مسکراہٹ اور حادثے کا امتزاج!
 اس کے چلے جانے کے بعد میں کچھ بے خیالی میں چلتے ہوئے گھر پہنچی۔ کتابوں میں کسی ایسے آہنی مزاج والے شخص کے بارے میں پڑھنا، یا پردہ پر کسی ایسے شخص کو دیکھنا آسان معلوم ہوتا ہے۔ لیکن جب ہماری حقیقی زندگی میں کوئی ایسا شخص ہمارے سامنے آتا ہے کہ جس کو زندگی کے مصائب چاہ کر بھی نہیں توڑ سکتے تو نہ صرف یہ کہ ہمیں حیرت ہوتی ہے بلکہ خوشی بھی ہوتی ہے کیونکہ ایسے ہی مضبوط ارادے والے انسانوں کی وجہ سے اس پر آشوب دور میں انسانیت آج بھی زندہ ہے۔ عمیرہ ان ہی افراد میں سے ایک تھی جو طوفان کے تھپیڑوں سے ڈرنے کے بدلے طوفان سے ٹکرانے میں یقین رکھتی تھی اور وہ بھی مسکراتے ہوئے ٹکرانے میں۔ یہ واقعی میں بہت بڑی بات ہے۔ ایسی اولو العزمی بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اسی فولادی ارادے کی وجہ سے عمیرہ کا ماضی چاہے کچھ رہا ہو، اور حال میں بھی چاہے اسے کوئی بھی مسئلہ کا سامنا ہو لیکن اس کا آنے والا کل یقیناً امید کا اور خوشیوں کا ایک روشن باب ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK