نسیم نے موقع ملتے ہی اپنی عادت کے مطابق انجم سے پہیلی پوچھ لی۔ وہ ایسی ہی تھی۔ بات بے بات پہیلیاں پوچھا کرتی۔ اگر کوئی صحیح جواب دینے میں چوک جائے تو اُسے بڑا مزہ آتا۔ نسیم انجم کی خالہ زاد تھی۔ دونوں میں سگی بہنوں جیسا پیار تھا۔
EPAPER
Updated: July 01, 2025, 12:30 PM IST | Arifa Khalid Sheikh | Mumbai
نسیم نے موقع ملتے ہی اپنی عادت کے مطابق انجم سے پہیلی پوچھ لی۔ وہ ایسی ہی تھی۔ بات بے بات پہیلیاں پوچھا کرتی۔ اگر کوئی صحیح جواب دینے میں چوک جائے تو اُسے بڑا مزہ آتا۔ نسیم انجم کی خالہ زاد تھی۔ دونوں میں سگی بہنوں جیسا پیار تھا۔
’’انجم! ایک پہیلی تو بوجھو!‘‘
نسیم نے موقع ملتے ہی اپنی عادت کے مطابق انجم سے پہیلی پوچھ لی۔ وہ ایسی ہی تھی۔ بات بے بات پہیلیاں پوچھا کرتی۔ اگر کوئی صحیح جواب دینے میں چوک جائے تو اُسے بڑا مزہ آتا۔ نسیم انجم کی خالہ زاد تھی۔ دونوں میں سگی بہنوں جیسا پیار تھا۔ کالج کی چھٹیاں چل رہی تھیں اِس لئے نسیم انجم کے یہاں ٹھہری ہوئی تھی۔ دونوں خاندانوں کے ساتھ چچا اور تایا کی فیملیاں بھی چھٹیوں میں ایک دوسرے کے گھر جاتے، بڑوں کی اپنی محفل جمتی تو الہڑ لڑکیاں اپنی بزم سجاتیں۔ تایا زاد اسلم سب کا منظور نظر ہوتا۔ اُس کی شخصیت ہی ایسی تھی۔ خوبرو جوان ہونے کے ساتھ ساتھ اچھی فرم میں نوکری کرتا تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خوش باش مزاج تھا۔ مگر آج کل کچھ ٹھیک نہیں چل رہا تھا۔ اِس لئے انجم اور نسیم اِسی پر بات کر رہی تھیں۔
مئی کے اواخر میں عبس بھری خشکی موسم ِ باراں کی آمد آنکھوں میں سجائے آسمان کو تک رہی تھی۔ دونوں بہنیں چھت پر بچھے تخت پر بیٹھی باتوں میں مصروف تھیں۔
چھت پر قرینے سے سجے گملوں میں قسم قسم کے پھولوں کی قلمیں لگی تھیں۔ اِن میں، گلاب، موگرا اور رات رانی، انجم کی پسند کے تھے۔ اِن پھولوں کی خوشبوؤں سے رچے بسے ماحول میں انجم کو وقت گزارنا ہمیشہ سے پسند تھا۔ دونوں اکثر اِس ماحول میں گھنٹوں بیٹھی دُنیا و مافیہا کی باتیں کرتیں۔ اِن کی گفتگو کا موضوع کبھی ایک سا نہیں ہوتا۔ موضوع چاہے جو ہو نسیم درمیان میں پہیلیاں ضرور لے آتی۔ آج بھی جب انجم اپنے تایا زاد بھائی اسلم اور اُس کی بیوی کا ذکر کر رہی تھی کہ نسیم پر پہیلی پوچھنے کا بھوت سوار ہوا۔ اِن دنوں انجم اپنے تایا ابو اور چاچی امّی کے لئے پریشان تھی اور یہ بات نسیم بھی جانتی تھی کہ کس طرح اسلم بھائی کا رویہ شادی کے بعد اپنے والدین کے ساتھ بدل گیا اور کس طرح اُن کے والدین دکھی ہیں.... مگر نسیموہ وقتی طور پر متاثر ضرور ہوتی پھر فوراً ہی اپنے پُرانے جامے میں آجاتی۔ آج بھی اُس کا یہی رویہ رہا تو انجم جز بز ہوئی وہ اِس لا اُبالی لڑکی سے اُلجھ گئی۔
’’حد ہوتی ہے بے حس ہونے کی بھی.... نسیم! آخر تم کب سیریس ہو گی....‘‘
لیکن نسیم کہاں ماننے والی تھی۔ وہ پھر شروع ہوگئی۔
’’مَیں پہیلی پوچھ رہی ہوں اور تمہیں جواب دینا ہوگا۔ بس! وہ کون سا ایسا جاندار ہے جو پہلے چار پیروں سے چلتا ہے پھر دو اور آخر میں تین....؟‘‘
اور نہ چاہتے ہوئے بھی انجم کو بولنا پڑا، ’’اس کا جواب تو سبھی جانتے ہیں.... وہ حضرتِ انسان ہے۔ عہدِ طفلی میں رینگتا ہے جس کے لئے اُسے دونوں ہاتھوں اور دونوں پیروں کی ضرورت پڑتی ہے پھر جوں جوں اُس کی نشوو نما ہوتی ہے وہ بڑھنے لگتا ہے تو دو ٹانگوں پر چلتا ہے اور جب وہ بوڑھا ہو جاتا ہے تو چلنے کے لئے لکڑی کا سہارا لیتا ہے۔ یہ ہے ایک اِنسان کی زندگی کا سفر۔ بچپن، جوانی اور بڑھاپا۔‘‘
’’واہ واہ ! انسانی جرنی (Journey) کو کیا ڈسکرائب (Describe) کیا ہے۔‘‘ نسیم نے داد دیتے ہوئے کہا۔ لیکن انجم کے چہرے پر اب بھی اُداسی چھائی رہی۔ اُس کی خاموشی دیکھ کر نسیم اپنے کھلنڈرے پن سے باہر آئی اور بولی، ’’یہ کیا بات ہے انجم! تم آخر اِتنی اپ سیٹ کیوں ہو رہی ہو؟ اسلم بھائی کی کہانی کوئی نئی تو نہیں.... ایسے قصے تو ہم روز سنتے ہیں۔‘‘
’’کیونکہ یہ ہمارے گھر کی بات ہے۔‘‘ انجم نے بے ساختہ کہا۔ دو گرم آنسوؤں کے قطرے اُس کے گلابی رُخسار پر ڈھلک آ ئے۔ نسیم سہم گئی۔ آج سے پہلے اُس نے انجم کو اتنا سنجیدہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔
انجم نے ایک طائرانہ نظر نسیم پر ڈالی پھر دور خلاؤں میں گھورتے ہوئے بولی، ’’تمہیں پتا ہے ہمارے والدین کا اپنی اولاد کے مستقبل سنوارنے میں کتنا بڑا عمل دخل ہوتا ہے ؟‘‘
نسیم چُپ رہی۔
’’اس بات کو سمجھنے کے لئے ہم اِس مثال کا سہارا لے سکتے ہیں کہ ایک شخص نے ریتیلی اور بنجر زمین پر کھیتی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اِس کے لئے اُس نے سب سے پہلے پتھروں کو ہٹایا۔ اِس کام میں اُسے سخت محنت کرنی پڑی اُس کے ہاتھ بھی شل ہوئے۔ پھر سخت زمین پر کُدال چلا کر کھیتی کے لئے زمین ہموار کرنا چاہی اور خود کو زخمی کیا۔ اِس درمیان فصل کے لئے پہلے پانی کا انتظام کیا پھر بیج کا، دونوں ہی کام دقت طلب تھے۔ لیکن اُس نے ہار نہیں مانی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ اُس کی دیکھ بھال کرتا رہا۔ ایک دن اُسے اُن میں ہری کونپل دکھائی دی۔ اُس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ اب وہ پہلے سے زیادہ وقت اِس کی دیکھ ریکھ میں صرف کرنے لگا۔ حتیٰ کہ اُس نے اپنے آرام کی بھی پروا نہیں کی۔ وہ اِس نرم و نازک پودے کو موسم کی سختی سے بچائے رکھنے کے جتن کرنے لگا۔ اسی طرح ہفتے ماہ و سال گزار کر اپنی خواہشات کو پس پشت ڈال کر وہ اِس پودے کی نگہداشت کرتا ہے۔ ایک طرف یہ پودا تناور درخت بن رہا ہوتا ہے تو دوسری طرف مالی اپنی ساری رونق و توانائی کھو کر، اپنی جوانی سے ہاتھ دھو کر بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ جاتا ہے۔ اُس کی آنکھوں کی روشنی ماند پڑ چکی ہوتی ہے مگر دِل روشن ہوتا ہے۔ اُس کی اُمید جوان رہتی ہے اور اُس کی آس اُسے زندہ رکھے ہوئے ہوتی ہے اِس آرزو میں کہ یہ تناور درخت اُسے پھل دے گا، زندگی کی تپتی دھوپ اور برستے ساون میں پناہ دے گا۔ یہ کسی بھی حال میں اُسے بے آسرا نہیں چھوڑے گا۔ لیکن جب یہی سائبان آنکھیں پھیر لے اور اپنے خالق کو بے مروتی سے دھتکار دے تو مالی کے دِل پر کیا بیتے گی۔‘‘
انجم نے نسیم کے چہرے کی طرف بغور دیکھا۔ اُس کے چہرے پر تفکرات کے بادل منڈلانے لگے۔ انجم پھر گویا ہوئی، ’’وہ مالی ہمارے والدین ہوتے ہیں جو اپنی ساری زندگی ہم پر وار دیتے ہیں تاکہ ہماری زندگی سنور جائے ہم اپنی زندگی میں کامیاب انسان بنے۔ لیکن اتنا سب کچھ کرنے کے بعد جب اولاد اپنے والدین کو بوجھ سمجھنے لگے، اُن کی بے عزتی کریں اور اُن سے چھٹکارے کی سبیل ڈھونڈنے لگے تو اُن بے چاروں کے دِل پر کیا گزرے گی۔ یہ کوئی نہیں سوچتا۔‘‘
انجم کے متواتر گرتے آنسو اُس کا دامن بھگونے لگے۔ انجم کی باتیں نسیم کے دل پر گراں گزر رہی تھیں۔ وہ بھی اپنے آنسو روک نہ پائی۔ کچھ دیر ماحول پر سکوت طاری رہا۔
دور کسی مل کا سائرن بج اُٹھا۔ سرمئی شام اپنے آنچل میں ستارے ٹاکنے کو بے چین نظر آنے لگی۔ دونوں بوجھل فضا میں گم گہری سوچ میں ڈوبے تھے کہ نجمہ آپی انہیں ڈھونڈتی چھت پر چلی آئیں۔ ’’واہ بھئی واہ! تم دونوں یہاں بیٹھی ہو اور مَیں نے سارا گھر چھان مارا۔‘‘
انجم اور نسیم کے چہروں کی خاموشی دیکھ کر وہ گھبرا گئیں، ’’تم دونوں رو رہی ہو؟ کیا بات ہے؟‘‘
’’آپی یہ ہماری فلاسفر خالہ انجم ہے نا انہوں نے تو میری سائیکالوجی کی کلاس لے لی....‘‘ نسیم اپنے مزاج کے ہاتھوں مجبور تھی اِس لئے زیادہ دیر سنجیدہ نہیں رہ سکی اور فوراً بول پڑی۔
’’اچ.... چھا!‘‘ انہوں نے انجم کی طرف دیکھ کر اچھا کو تھوڑا کھینچا۔ پھر بولیں، ’’کیا بات ہے انجم....؟‘‘
انجم سے کہنے سے پہلے نسیم پھر بول پڑی، ’’آپی! یہ تایا ابو اور چاچی امی کے لئے فکر مند ہے۔‘‘
اتنا سن کر نجمہ بھی اداس ہوگئی۔ پھر بولی، ’’ہاں! واقعی جب سے ہمیں اُن کے حالات کا علم ہوا ہے سبھی پریشان ہیں۔ اسلم! کسی کو بھی اُس سے ایسی اُمید نہیں تھی۔ اولڈ از گولڈ.... اگر اِس قول کو حکمت کی نظر سے دیکھیں تو زندگی کے تپتے صحرا میں زندگی گزارنے والے والدین وہ قیمتی اثاثے ہیں جن کا کوئی مول نہیں ہوتا۔ مگر آج کل کے بچّوں کو معلوم نہیں کیا ہوگیا ہے۔ وہی بچّے جو شادی سے پہلے والدین کی دعاؤں کو اپنا نصب العین مانتے تھے شادی کے بعد والدین سے دور ہوجاتے ہیں۔‘‘
’’اکثر ایسے موقعوں پر بہوؤں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔‘‘ نسیم درمیان میں ہی بول پڑی۔ ایسا ہی عام خیال اسلم بھائی کے لئے بھی ہو رہا ہے۔ شادی سے پہلے اسلم بھائی ایک فرض شناس لائق و فائق بیٹے تھے۔ مگر اب.... دیکھو تو....‘‘ نسیم نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’اِن الزامات سے نکلنے اور اُنہیں غلط ثابت کرنے میں ایک بيوی اہم رول ادا کر سکتی ہے۔‘‘ نجمہ نے بات آگے بڑھائی، ’’میرا تم دونوں سے ایک سوال ہے کہ جب تم میکے میں ایک اچھی بیٹی بن کر رہ سکتی ہو تو کیا سسرال میں نہیں رہ سکتیں؟ ما نا سسرال اور میکے میں فرق ہوتا ہے۔ بیٹی میکے میں الہڑ، شوخ، چنچل ہوسکتی ہے اور شادی کے بعد ذمہ دار بہو بن کر سنجیدہ اور متین بن جاتی ہے۔ اگر اِس کے پرے دیکھے تو دونوں گھر ہی ہوتے ہیں۔ والدین کی جگہ ساس سسر ہوتے ہیں اور بہن بھائیوں کی جگہ نند اور دیور.... اخلاق و اخلاص کو ملحوظ خاطر رکھ کر سمجھیں تو سبھی ایک سے ہوتے ہیں۔ عورت ہی گھر سنوار سکتی ہے اور بھولے بسرے مرد کو راہِ راست پر لاسکتی ہے۔ یہاں اگر اسلم کی بیوی کا کوئی قصور نہ بھی ہو تو اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ اسلم کو سمجھا ئے۔ والدین کی خدمت کرنے سے آپ کی اپنی قدر و منزلت بڑھتی ہے، دیکھیں! ہمارے پیارے آقاﷺ نے کیا فرمایا کہ اولاد کا والدین کی طرف محبت سے صرف ایک نظر دیکھنا ہی ایک مقبول حج کے ثواب کا درجہ رکھتا ہے۔ اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا کہ والدین کو اُف تک نہ کرو اور نہ ہی اپنی آواز اُن کی آواز سے اونچی کرو۔ شیخ سعدی نے بھی فرمایا، خدمت کرنے سے اِنسان کی خوش قسمتی بڑھتی ہے۔ اگر خدمت کرنے میں اپنا فائدہ ہے تو اِس سے فیض حاصل کرنا چاہئے۔ جن والدین نے بچوں کی پرورش میں اپنی زندگی قربان کر دی انہیں تھوڑی سی توجہ اور تکریم سے اچھی زندگی دی جاسکتی ہے تاکہ وہ بڑھاپے میں آرام کی زندگی گزار سکیں۔‘‘ نجمہ اتنا کہہ کر رُکی۔
دونوں لڑکیاں آپی کی باتیں دھیان سے سن رہی تھیں۔ اور دل ہی دل میں یہ طے بھی کر چکی تھیں کہ وہ ایک اچھی بیٹی، ایک اچھی بیوی اور ایک اچھی بہو ثابت ہوں گی۔
انجم کی امی جنہوں نے نجمہ کو انہیں لانے بھیجا تھا وہ بھی وہیں چلی آئیں۔ انہوں نے نجمہ کی جو باتیں سنی تو ہنستے ہوئے بولیں، ’’اگر والدین کی خدمت کی جائے تو دونوں جہاں میں کامیابی کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔‘‘
تینوں لڑکیوں نے ایکدوسرے کو دیکھا اور مسکرانے لگیں۔
’’امی آپ اپنے مطلب کی بات کر رہی ہیں۔‘‘ نجمہ آپی نے شرارت سے امی کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا۔
امی نے سنجیدگی سے کہا، ’’نہیں بیٹا! ایسی بات نہیں ہے۔ دیکھو! آج تم سب سیانی بیٹیاں ہو۔ بچیوں کو چاہئے کہ وہ گھر اور باہر والدین کی عزت کا مان رکھے اور جب سسرال جائے تو اپنے ساس سسر سے بھی اُسی طرح بے لوث محبت کرے جس طرح اپنے والدین سے کرتی آئی ہیں۔ ان میں امتیاز نہ کریں۔ مکین جب بہو کا خلوص اور نیک نیتی دیکھتے ہیں تو خود پر فخر اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ وہ خاندان میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ عورت کا چاہے جو روپ ہو اُس کا کردار ہر روپ میں اعلیٰ و مثالی ہونا چاہئے۔ آپ یہ بھی یاد رکھیں کہ کوئی سنکی یا پاگل نہیں ہوتا ہر انسان کو اللہ نے شعور دیا ہے۔ اگر ہم کسی کی طرف ایک انگلی اٹھائیں گے تو سامنے والا چپ نہیں بیٹھے گا وہ بھی اسی شدت سے جواب دے گا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بلا وجہ کوئی نہ تو کچھ بولتا ہے اور نہ ہی کچھ کرتا ہے۔ آپ اچھے تو سب اچھے۔ اچھائی کا بدلہ کبھی کسی کو بُرا نہیں ملا۔ اسی طرح آپ کی بُرائی اور شر بھی چھپ نہیں سکتے وہ ایک نہ ایک دن سامنے آکر رہیں گے، اُس دن شرمندگی اور ندامت سے نہ صرف آپ بلکہ آپ کے والدین بھی اِس کے حصار میں ہوں گے۔ عورت آج ماں ہے تو کل وہ بھی ساس بنے گی اُس وقت تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی۔ گھڑی کی سوئیاں گھوم کر وہ وقت بتائے گی جہاں آپ نے بہو بیٹی بن کر اپنا کردار ادا کیا تھا۔ آپ کو وہی ملے گا جو آپ نے ماضی میں کیا تھا۔ ہر انسان اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہوتا ہے۔‘‘
اتفاقاً اسلم کی بیوی دانیہ، انجم کے پڑوس میں ایک رشتے دار سے ملنے آئی ہوئی تھی۔ چونکہ چھت سے چھت لگی ہوئی تھی اِس لئے اُسے اُن چاروں خواتین کی باتیں صاف سنائی دے رہی تھی۔ اُس کا سر شرم و ندامت سے جھک گیا۔ اسلامی شعار کو مہمیز کرتے دلائل نے اُس کے کردار کو وہ کچوکے لگا ئے کہ آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ پشیمانی کے عالم میں وہ جھروکے سے باہر آئی اور فیصلہ کن قدموں سے اپنے گھر کی سمت چل پڑی۔ اب ایک نئی دانیہ گھر کے دالان کو عبور کر رہی تھی۔
اُس نے عہد کیا کہ اب وہ ایک صالح بہو بن کر اپنی پچھلی تمام کوتاہیوں کا ازالہ کریں گی اور اپنے گھر کو جنت نشاں بنائے گی۔ آخر کو صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ آیا۔