• Sun, 13 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ: لالٹین

Updated: April 02, 2024, 12:15 PM IST | Yasmeen Bano Sheikh Fariduddin | Mumbai

عید قریب تھی۔ بازاروں میں چہل پہل عروج پر تھی۔ جگہ جگہ ہجوم نظر آرہا تھا۔ گھروں میں صاف صفائی زوروں پرتھی۔ بازاروں کا حسن بھی دوبالا ہو گیا تھا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

عید قریب تھی۔ بازاروں میں چہل پہل عروج پر تھی۔ جگہ جگہ ہجوم نظر آرہا تھا۔ گھروں میں صاف صفائی زوروں پرتھی۔ بازاروں کا حسن بھی دوبالا ہو گیا تھا۔ ہر طرف رنگ برنگی خوبصورت لٹکتے لالٹین راستوں کو حسین بنا رہے تھے۔ وہ قاہرہ کی سڑکوں پر ننگے پیر ادھر سے ادھر بھٹک رہی تھی۔ ان روشنیوں نے اس کی معصوم آنکھوں کو بھی خیرہ کیا تھا اور وہ بہت خوشگوار حیرت سے ان کو دیکھتی تو بس دیکھتی ہی رہ جاتی۔ آج شام جب وہ کچے راستوں سے ہوتے ہوئے ایک بستی میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ بہت سارے گھروں کے آگے خوبصورت جگمگ کرتے لالٹین روشن تھے۔ کسی سے سبز روشنی پھوٹ رہی تھی تو کسی سے زرد روشنی ...وہ ایک گھر کے آنگن میں کھڑی ہوگئی۔ گردن اُچکا کر اس خوبصورت لالٹين کو دیکھنے لگی، اس سے پھوٹنے والی روشنی نے اس کے وجود کو بھی منور کر دیا تھا اور وہ یہ محسوس کرکے اس طرح مسکرا رہی تھی گویا وہ خدا کا دیدار کر رہی ہو۔ 
 اچانک اس کے عقب سے ایک تیز آواز آئی: ’’اے کیا ہے ؟‘‘ وہ لمحہ بھر کو چونکی۔ وہ اسی مکان کا مالک تھا، جو دروازے کی طرف جا رہا تھا۔ 
 ’’کھانا ملے گا؟‘‘
  وہ بڑی لجاجت سے بولی۔ 
 ’’ہاں ! ہاں ٹھیک ہے ..بعد میں آنا۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے دروازہ کھولا تو بتول کو گھر کے اندر کا خوبصورت منظر نظر آیا اور دو سیکنڈ ہی میں غائب ہو گیا۔ جب اس آدمی نے دھڑ سے دروازہ اس کے منہ پر بند کردیا۔ وہ مایوس ہو کر پلٹی، دوبارہ لالٹین کی طرف دیکھا اور مسکرائی۔ 
 وہ جیسے جیسے آگے بڑھتی، اس کو ان خوبصورت لالٹینوں کی روشنیاں اپنی طرف کھینچتی۔ تھوڑا بہت کھانا جمع کرکے وہ گھر پہنچی اور کھانا دادی کے آگے رکھا۔ اس کا دل اب بھی ان ہی گلیوں میں بھٹک رہا تھا جہاں اس نے چکاچوند روشنیوں کو دیکھا تھا۔ 
 بتول چھوٹے موٹے کچے مکانوں کی پسماندہ بستی میں اپنی دادی کے ساتھ رہتی تھی، وہ ایک یتیم بچی تھی۔ کچھ مہینوں پہلے ہی اس کے ماں باپ ’کورونا‘ کی زد میں آ کر اس دارفانی سے کوچ کر گئے تھے۔ مجبوراً اب وہ گھر گھر جاکر کھانا مانگتی اور پیٹ کی آگ بجھاتی تھی، بوڑھی دادی جب کھانا کھا لیتی تو اسے ڈھیروں دعائیں دیتی تھی۔ 
 وہ اس رات کچھ سوچتی رہی اور آخر میں اس کے ہونٹوں پر ایک نوخیز کلی کی مانند مسکراہٹ کھل گئی۔ 
 صبح وہ ایک بازار کے نکّڑ پر کھڑی تھی۔ اس کے کچھ بال چوٹی میں بندھے تھے اور کُچھ چوٹی سے باہر جھول رہے تھے۔ کپڑے گرد آلود تھے۔ اس کی رنگت گوری تھی مگر مفلسی کی آگ سے جھلس کر ماند پڑ گئی تھی۔ بازار میں معمول کی بھیڑ تھی۔ وہ دھیمی چال چلتی ادھر سے ادھر گزرتی گاہکوں کو دیکھ رہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ دکان سے بھیڑ کم ہو اور وہ اس دکاندار سے بات کرے۔ اچانک وہ چلتے چلتے رکی اور ایک دکان کے سامنے جا کر کھڑی ہوگئی۔ دکاندار سامان ترتیب دے رہا تھا۔ بتول کی نگاہیں لالٹین پر جمی تھی، گو کہ دن کے وقت وہ روشن نہیں تھے مگر ان کی خوبصورتی تو قائم تھی۔ 
 ’’ایں ! کیا ہے بھاگ یہاں سے !‘‘ دکاندار کی آواز پر وہ چو نکی اور دو قدم پیچھے ہٹیں۔ 
 ’’وہ...... یہ کتنے کا ہے؟‘‘ 
اس نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔ 
 ’’کتنے کا ہیں ؟‘‘
 ’’ ۵؍سو کا ہے....... ۵؍سو کا۔ ‘‘
 دکاندار نے آنکھیں چمکاتے ہوئے کہا، ’’ چل بھاگ یہاں سے۔ ‘‘
 وہ تیز قدموں سے آگے بڑھی۔ اس کے جسم سے گویا کسی نے دل نکال کر کچل ڈالا ہو، آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو گر کر گریبان میں جذب ہوگئے۔ 
 ’’۵؍ سو کا ہے.... ۵؍ سو کا۔ ‘‘
  وہ الفاظ پھر گونجے۔ اتنی وہ رقم کہاں سے لائے؟ یہ سوچ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ 
 رات میں بستی پھر روشنیوں میں نہائی ہوئی تھی۔ ہر گھر ٬ ہر آنگن روشنی بکھیر رہا تھا اور ساری بستی جگمگ جگمگ کرتے لالٹینوں سے منورتھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا سے لالٹین آہستہ آہستہ جھول رہے تھے اور ہر گزرتے انسان کو دعوت نظارہ دے رہے تھے لیکن آج بتول نے کسی لالٹین کی طرف نہیں دیکھا۔ وہ گم صم گردن نیچیکئے چلتی جا رہی تھی،  حسب معمول کھانا جمع کرکے اب وہ گھر لوٹ آئی تھی اور بستیوں میں لالٹین جل رہے تھے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK