• Tue, 15 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ : وجود

Updated: August 27, 2024, 1:02 PM IST | Yasmeen Bano | Jalgaon

 اُن ہی خوبصورت گلابوں کے درمیان ایک سورج مکھی کے پھول نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔ صبح کے وقت سورج کی تابناک کرنیں جب تمام پھولوں کے معصوم چہروں پر پڑیں تو اُن کا حسن دوبالا ہوگیا اور سارے پھول خوشی سے مدہوش ہونے لگے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

شیراز کی اس مہکتی وادی میں ہزاروں گلابوں کے حسین چہرے کھلے ہوئے تھے۔ چاروں طرف قطار در قطار سرخ گلابوں کی چادر بچھی ہوئی تھی۔ فضائیں ان کے دم سے معطر تھیں۔ کئی رنگین تتلیوں کے جسم ان کے اردگرد رقصاں تھے۔ ننھے ننھے پتنگے ان کے حسن سے مسحور نظر آتے تھے۔ نیلگوں آسمان نے خوشی سے گلابوں کی گلابی اپنے رخساروں پر مل کر خود کو حسین بنا لیا تھا۔ دور بہتی اٹھلاتی اتراتی نہر بھی ان کے حسن کو دیکھنے کے لئے ایک پل کو ٹھہر گئی تھی، مبہوت ہوگئی تھی۔ وہ کیا ہی حسین نظارہ تھا! وہ وادی دنیا کی حسین ترین جنت کا ایک نمونہ تھی۔
 اُن ہی خوبصورت گلابوں کے درمیان ایک سورج مکھی کے پھول نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔ صبح کے وقت سورج کی تابناک کرنیں جب تمام پھولوں کے معصوم چہروں پر پڑیں تو اُن کا حسن دوبالا ہوگیا اور سارے پھول خوشی سے مدہوش ہونے لگے۔ ننھا سورج مکھی کا پھول حیرت سے یہ دلکش نظارہ دیکھنے لگا اور مسکرا اٹھا۔ اُسے یوں مسکراتا دیکھ کر ایک گلاب کا پھول اس کی طرف متوجہ ہوا اور بولا، ’’ارے تم کون ہو... اور یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘
 ’’مَیں.... مَیں!‘‘

یہ بھی پڑھئے:افسانہ: مکافات

’’تمہارا یہاں کیا کام! یہ بزم ہماری ہے۔ دیکھو! ہم سب نے مل کر اس وادیٔ بے نور کو کس قدر پُرنور اور قابلِ دید بنا دیا ہے۔ جب کوئی شہزادہ اس رہگزر سے گزرے گا تو ہمارے حسن کے سحر سے خود کو بچا نہیں سکے گا اور تم....؟ تم یہاں کسی کی توجہ حاصل نہیں کرسکتے اور نہ ہی کسی کو خوشی دے سکتے ہو۔‘‘ یہ سن کر سورج مکھی اداس ہوگیا۔
 گلاب کی باتوں میں سچائی تھی۔ اب اسے اپنے ہونے پر شکایت تھی کہ وہ کیونکر یہاں وجود میں لایا گیا.... کاش! کہ وہ بھی گلاب کی طرح اپنے ساتھیوں کی محفل میں ہوتا، تو اسے بھی وہی خوشی حاصل ہوتی جو اس وقت یہاں موجود ہر گلاب کا دل محسوس کر رہا ہے۔
 اگلے دن اس عنبری شام بھی کچھ ایسا ہی ہوا کہ سارے گلاب کے پھول خوشگوار ہوا کے جھونکوں کے ساتھ اٹھلا رہے تھے، گیت گا رہے تھے۔ یہ دیکھ کر ذرے ذرے کا دل دھڑک رہا تھا۔ سورج مکھی اداس بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ وہ خاموش گم صم اپنی ذات کو کوس رہا تھا۔ اچانک اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھایا۔ ایسا لگا جیسے آسمان اس پر گر پڑا ہو۔ کسی نے ایک جھٹکے سے اس کو اپنی زمین سے الگ کر دیا۔ آہ! سورج مکھی بری طرح گھبرا گیا۔ اس نے ڈر کے مارے آنکھیں بند کر لیں۔ کسی کے نرم نرم ہاتھوں کا لمس اسے تھامے آگے بڑھ رہا تھا۔
 کچھ دیر بعد ہوا کے ٹھنڈے ٹھنڈے جھونکے اس کے بدن سے ٹکرائیں، وہ سہما ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں اب بھی بند تھیں۔ دل زوروں سے دھڑک رہا تھا۔ نہ جانے وہ کہاں تھا! بیقراری ہی بیقراری تھی، تاریکی ہی تاریکی تھی۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ کسی گاڑی میں ہے جو تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:افسانہ: تنہائی سے گھبرا نہ اے دل

وقت کی کچھ ساعتیں آگے بڑھیں۔ سورج مکھی کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ دل میں خوف و ہراس کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ آہ! کیا ہی ہوتا کہ وہ نہ ہوتا.... یہ مصیبت پہ مصیبت کیا اس کے ہی نصیب کا حصہ تھی.... ہائے رے قسمت! پھر یوں لگا جیسے وقت ٹھہر سا گیا ہو، ہر طرف خاموشی ہی خاموشی تھی جیسے زمین اپنے محور پر ٹھہر گئی ہو.... اس نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں۔ وہ ایک بڑا پرتعش سا کمرہ تھا جس میں دیدہ زیب دودھیا رنگ کے پردے لٹک رہے تھے۔ سارا کمرہ خوشبو سے معطر تھا۔ چھت پر ایک سفید رنگ کا فانوس مسکرا رہا تھا۔ سامنے ٹیبل پر رکھا شمع دان رات بھر جاگنے کے بعد اب سو رہا تھا۔ سورج مکھی نے فرش کی طرف دیکھا۔ وہ فرش، فرشِ سلیمانی ہی تھا گویا جو آئینے کی طرح چمک رہا تھا۔
 اس نے حیرت سے سارے کمرے کا جائزہ لیا۔ یہ عجب دنیا تھی۔ کیا وہ خواب دیکھ رہا ہے! نہیں.... پھر اس نے اپنے وجود پر نظر ڈالی۔ وہ ایک میز کے سرے پر دھرا تھا۔ قریب ہی ایک نرم صاف بستر پر ایک حسین عورت محو خواب تھی۔ اس کی رنگت زرد تھی، وہ نحیف معلوم ہورہی تھی۔ اچانک دروازہ کھلنے کی آواز پر سورج مکھی نے اس طرف دیکھا۔ وہ ابھی سنبھلا ہی تھا کہ پھر ڈر گیا۔ ایک آدمی دھیرے دھیرے چلتا ہوا اس عورت کے قریب آیا۔ کچھ دیر وہ اداس مسکراہٹ کے ساتھ عورت کو دیکھتا رہا۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ آہستہ سے اس کے ہاتھ پر رکھا۔ عورت نے اس لمس کو پا کر آنکھیں کھولیں اور ہلکا سا مسکرائی۔ سورج مکھی حیرت سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ وہ آدمی اس کے نزدیک بیٹھ گیا۔ عورت دھیرے سے اٹھ بیٹھی۔ ’’دیکھو میں تمہارے لئے کیا لایا ہوں۔‘‘ آدمی نے لپک کر سورج مکھی کا پھول ہاتھ میں اٹھایا۔ سورج مکھی بری طرح ڈرا۔ اب وہ ان دونوں کے درمیان تھا۔ ڈرا ہوا.... سہما ہوا.... عورت نے محبت بھری نگاہوں سے پہلے آدمی کو پھر سورج مکھی کو دیکھا اور دھیرے سے اسے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس کے ہاتھوں کی گرفت میں سورج مکھی کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اف میرے خدا....! اسے لگا بس اب اس کا وجود فنا ہونے کو ہے۔
 ’’اسے سونگھو! ڈاکٹر نے کہا ہے یہ تمہاری صحت کے لئے مفید ہے۔‘‘
 یہ سن کر عورت نے مسکراتے ہوئے سورج مکھی کا منہ چوم لیا۔ اس کے پھیکے پھیکے لبوں سے لگ کر سورج مکھی شرما گیا۔ اب اسے اپنے ہونے پر ناز تھا.... کہ اس کا وجود کسی کے ہونٹوں کی مسکراہٹ کا باعث تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK