گھر میں پھر وہی شور، وہی چیخ و پکار، وہی الجھنوں سے بھری فضا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی طوفان تین دن سے مسلسل اس چھت کے نیچے سانسیں لے رہا ہو۔
EPAPER
Updated: July 21, 2025, 5:03 PM IST | Khan Ifra Taskeen | Mumbai
گھر میں پھر وہی شور، وہی چیخ و پکار، وہی الجھنوں سے بھری فضا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی طوفان تین دن سے مسلسل اس چھت کے نیچے سانسیں لے رہا ہو۔
گھر میں پھر وہی شور، وہی چیخ و پکار، وہی الجھنوں سے بھری فضا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی طوفان تین دن سے مسلسل اس چھت کے نیچے سانسیں لے رہا ہو۔
اور آج، وہ طوفان کچھ زیادہ ہی بے رحم ہوچکا تھا۔
کچن میں ہنڈیا کی ہلکی سی آواز تھی، ہال میں بس ٹی وی چل رہا تھا مگر کوئی اسے دیکھ نہیں رہا تھا۔ دیواروں نے بہت کچھ سنا، اور چھت نے بہت کچھ سہہ لیا تھا۔
بات بس اتنی سی تھی کہ ذہیب کو نیا لانچ ہونے والا فون چاہئے تھا... جدید ترین ماڈل، باریک ساخت، اعلیٰ معیار کی اسکرین اور طاقتور بیٹری والا وہ فون جس کی قیمت ۲؍ لاکھ کے قریب تھی۔
اور یہ اُس کا پہلا مطالبہ نہیں تھا۔
کچھ دن پہلے ہی اُس نے ایک چمکتی ہوئی نئی موٹر سائیکل خریدی تھی.... سرخ رنگ کی، بجلی جیسے ڈیزائن کے ساتھ، سب کی توجہ کھینچ لینے والی۔
ایسا نہیں تھا کہ اُس کے پاس فون نہیں تھا.... تھا، بلکہ بالکل نیا اور بہتر، لیکن شاید آج کے بچوں کیلئے چیزوں کی قدر ختم ہوگئی ہے، اور ’’جدید ترین‘‘ اب ’’ضروری‘‘ بن چکا ہے۔
لیکن ایک طرف وہ ضد تھی، دوسری طرف فرید صاحب کی محدود تنخواہ۔
پھر بھی، فرید نے اپنے بچوں کو کبھی کسی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔
چار بچوں کو اعلیٰ تعلیم، گاڑیاں، ٹیوشن، انٹرنیٹ، اے سی والا کمرہ.... سب کچھ دستیاب تھا۔
ان کا گھر دیکھ کر کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ فرید صاحب ایک معمولی دفتر میں کام کرتے تھے، جن کا روز صبح سات بجے دفتر جانا اور شام کو تھکے ہارے لوٹنا معمول تھا۔
آج ناشتے کی میز پہلے کی طرح سجی ہوئی تھی۔
چمکتی ہوئی لکڑی کی میز پر فریش فروٹ، بٹر، ٹوسٹ، گرم چائے کے کپ، کانچ کے خوبصورت باؤل میں میکرونی، ایک باؤل میں کٹ کیا ہوا فروٹ سیلیڈ اور ہر کسی کے سامنے اس کی اپنی پلیٹ۔
کہنے کو آٹھ سے نو لوگ تھے: فرید، اُن کی بیوی صنوبر، بیٹے ذہیب اور فہد، بیٹیاں ثناء اور سبین، مَیں.... فرید کی پھوپھی.... اور دو رشتہ دار مہمان۔
لیکن اس سجی سجائی میز پر خاموشی کا ایسا راج تھا جیسے زبانیں بولنا بھول گئی ہوں، یا دلوں نے آپس میں رابطہ توڑ دیا ہو۔
ہر کوئی اپنے موبائل کی اسکرین میں گم، پیغامات دیکھتا، بیچ بیچ میں چائے کی چسکیاں لیتا۔
فرید صاحب نے نرمی سے خاموشی توڑی، ’’اور میاں ذہیب، آج مَیں تمہیں کالج چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘
ذہیب نے ایک لمحے کو نظریں اٹھا کر دیکھا، اور جیسے اُن کی بات کوئی پس منظر کی آواز ہو، ویسے ہی واپس اپنے ناشتے کی طرف جھک گیا۔ چہرے پر نہ کوئی ردّعمل، نہ شکریہ.... بس خاموش انکار۔
صنوبر نے ذرا بلند آواز میں کہا، ’’بابا کچھ کہہ رہے ہیں تم سے۔‘‘
ذہیب نے تلخ انداز میں کہا، ’’انہیں کہو میرے لئے کوئی زحمت نہ کریں، میں خود چلا جاؤں گا۔‘‘
مجھے لگا جیسے کسی نے میرے دل پر چوٹ مار دی ہو۔ مَیں ضبط نہ کرسکی اور بول پڑی،
’’کتنی بدتمیز ہوگئی ہیں آج کل کی اولادیں! تمہیں یہ بھی لحاظ نہیں کہ تمہارے گھر میں مہمان بیٹھے ہیں، اور تم اپنے والد سے یوں بات کر رہے ہو؟‘‘
ذہیب کا چہرہ سخت ہوگیا، آواز میں ایک کڑواہٹ تھی، ’’پھوپھو، آپ نہیں جانتیں، بہتر ہے آپ خاموش رہیں۔ یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے۔‘‘ وہ کہہ کر صوفے پر جا بیٹھا، جیسے اُس کی کوئی ذمہ داری ہی نہ ہو۔
فرید صاحب نے میری طرف نرمی سے دیکھا اور جیسے سفارتی لہجے میں بولے، ’’ارے باجی! مَیں معذرت خواہ ہوں۔ دراصل وہ نئے فون کی ضد کئے بیٹھا ہے۔ لیکن آپ تو جانتی ہیں، اگلے مہینے ثناء کی شادی ہے، مَیں نہیں چاہتا کسی چیز کی کمی ہو جائے۔ مَیں نے صرف کہا تھا کہ شادی کے بعد فون لے لینا، بس اسی بات پر ناراض ہے۔‘‘
کچھ دیر بعد سب اپنے اپنے کام پر نکلنے لگے۔
فرید صاحب جب گاڑی کی چابیاں لے رہے تھے، تو رک کر بیٹے سے کہا، ’’ذہیب، پھوپھو سے معافی مانگ لو، تم نے بدتمیزی کی ہے۔
ذہیب نے پہلی بار غصے سے آنکھیں اٹھائیں، ’’پھوپھو کون سی ہماری سگی ہیں؟ آپ کی والدہ کی بہن کی بیٹی ہیں تو آپ کو برا لگ رہا ہے۔ جب آپ اپنی سگی اولاد کی خواہش پوری نہیں کرسکتے تو کسی اور کو کیا دینا ہے؟‘‘
فرید کچھ بولنے ہی والے تھے کہ ذہیب کا آخری وار آیا، ’’بابا، صرف ایک سوال کا جواب دے دیجئے.... بچپن سے آج تک آپ نے میرے لئے کیا کیا ہے؟‘‘
اور وہ زور سے دروازہ بند کرکے باہر نکل گیا۔
مَیں جیسے پتھر بن گئی۔ فرید بس خاموش کھڑے رہ گئے.... لیکن اُن کی آنکھوں میں جیسے برسوں کی تھکن، برسوں کی خاموشی ایک سوال کی صورت میں پگھلنے لگی تھی۔
دوپہر اپنے جوبن پر تھی۔ سورج کھڑکی کے پردے میں سے اندر جھانک رہا تھا۔
ذہیب واپس آیا، کوئی سلام نہیں، کوئی بات نہیں.... سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
مَیں اور صنوبر ثناء کی شادی کے لئے ایک ہلکے رنگ کی تھیم پر بات کر رہے تھے۔ ساتھ ساتھ جہیز کی فہرست بھی بن رہی تھی۔
دوپہر کے کھانے پر آواز دی گئی، لیکن ذہیب نے کوئی جواب نہ دیا۔
دل میں ایک بوجھ لئے میں اُس کے کمرے کی طرف بڑھی۔ ہر قدم کے ساتھ ایک سوال میرے دل پر وار کرتا جارہا تھا۔
مَیں دروازے تک پہنچی، دروازہ تھوڑا سا کھول کر جھانکا۔ وہ کانوں میں ہیڈ فون لگا کر بستر پر لیٹا تھا، اسکرین پر مختصر ویڈیوز چل رہی تھیں۔
’’جی، آپ یہاں؟‘‘ اُس نے سر اٹھا کر کہا۔
مَیں نے دھیرے سے کہا، ’’ذہیب بیٹا! تم نے صبح ایک سوال کیا تھا.... اُس کا جواب دینے آئی ہوں۔‘‘
ذہیب کی آنکھوں میں حیرت بھی تھی، شرمندگی بھی۔
مَیں اُس کے بستر کے کنارے بیٹھ گئی، ’’تم نے پوچھا کہ تمہارے والد نے تمہارے لئے کیا کیا؟ تو سنو....
انہوں نے اپنی جوانی کی راتیں تمہاری نیند کے لئے قربان کیں،
اپنے خواب تمہارے تعلیمی اخراجات میں بیچ دئیے،
اپنی خواہشات کو تمہاری موٹر سائیکل اور موبائل کی قسطوں میں دفن کر دیا۔
بیٹا، فرید نے اپنے والد کا چہرہ تک نہیں دیکھا.... وہ تو اُس کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہوچکے تھے۔ تمہاری دادی، میری خالہ، نے لوگوں کے گھروں میں برتن دھو کر اپنے بیٹے کو پالا۔
۷؍ سال کی عمر میں فرید نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام شروع کر دیا تھا۔ کبھی ورکشاپ، کبھی کرانے کی دکان۔
ہم تین بہنوں کی ذمہ داری بھی اُس نے سنبھالی تھی۔
دسویں پاس کیا، پھر دن رات محنت کی.... تاکہ آج تم اے سی والے کمرے میں فون بدلنے کی ضد کرسکو۔‘‘
ذہیب کی آنکھوں سے آنسو خاموشی سے بہنے لگے۔
’’تمہارے والد نے تمہارے لئے سب کچھ کیا.... اور تم نے ایک فون کی خاطر اُن پر سوال اٹھا دیا؟‘‘
’’پھوپھو، مجھے معاف کر دیجئے۔ بابا نے کبھی ہمیں کچھ بتایا ہی نہیں۔ ہمیں کیا معلوم، وہ تو ہمیشہ ہنستے رہتے تھے۔‘‘
’’بیٹا، اب تم بڑے ہوگئے ہو۔ تمہیں خود سے سمجھنا ہے۔ جاؤ، اپنے بابا سے معافی مانگو۔‘‘
’’جی پھوپھو، ابھی کال کرتا ہوں۔‘‘
لیکن موبائل.... بند جا رہا تھا۔
ذہیب کی آنکھوں میں بے چینی اتر آئی۔ اُس نے کئی بار کوشش کی، پھر فرید کے دفتر میں کال کی.... جواب ملا، ’’صاحب آدھے گھنٹے پہلے نکل چکے ہیں۔‘‘
ذہیب کے لئے ہر لمحہ اب صدی بن گیا تھا۔
اس نے گاڑی نکالی، دفتر کے راستوں پر بھاگتا رہا۔ ہر موڑ پر اُنہیں تلاش کیا۔
ہر گزرتی گاڑی میں اُس کا دل دھڑکنے لگتا۔
چار گھنٹے گزر گئے۔ گھر کا ماحول بے حد سنجیدہ تھا۔ ہم سب ڈرائنگ روم میں پریشان بیٹھے تھے۔
تب گیٹ کھلنے کی آواز آئی۔
ذہیب لپک کر باہر نکلا۔ ثناء، صنوبر، اور مَیں بھی۔ فرید صاحب گاڑی سے اُتر رہے تھے۔ اُن کے ہاتھ میں ایک تحفے والا تھیلا تھا۔
ذہیب اُن کے سینے سے لگ گیا.... اُس کے آنسو فرید کے کرتے کو بھگو رہے تھے۔
’’بابا... مجھے معاف کر دیں۔ جو کچھ آپ نے ہمارے لئے کیا، شاید دنیا کا کوئی باپ نہ کرسکتا۔‘‘
فرید نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھا، ’’ارے بیٹا، میری زندگی، میری محنت.... سب کچھ تمہارے لئے ہے۔ تم ہی تو میری جنت ہو۔‘‘
’’چلو اندر چلو... ثناء، پانی کا گلاس لے آنا۔‘‘
پھر فرید نے اپنے ہاتھوں سے ذہیب کو پانی پلایا.... اور وہ گلابی رنگ کا تحفے والا تھیلا اُس کے ہاتھ میں دے دیا۔
ذہیب نے کانپتے ہاتھوں سے اُسے کھولا....
اور دیکھا....
وہی موبائل فون تھا.... جس کیلئے یہ طوفان اٹھا تھا۔