ایک ایسا افسانہ جو تنہائی اور اداسی سے باہر نکلنے کا حوصلہ دیتا ہے۔
EPAPER
Updated: May 07, 2025, 12:27 PM IST | Khan Shabnam Farooq | Mumbai
ایک ایسا افسانہ جو تنہائی اور اداسی سے باہر نکلنے کا حوصلہ دیتا ہے۔
اذیتوں کی داستاں بہت طویل ہے شاید یہ میری لحد تک میرا ساتھ نہ چھوڑیں گی.... کچھ ایام.... نہیں بلکہ کچھ لمحے شادمانی کے گزرتے ہیں پھر وہی تاریک سیاہ اداسی اپنی ساری منحوسیت سمیت پنجے گاڑ کے دل میں ڈیرا بسا لیتی ہے.... سارے مثبت خیالات کہیں ناراض ہو کر مجھ سے کوسوں دور چلے جاتے ہیں.... میری ساری امیدیں آخری سانس لے رہی ہوتی ہیں.... اور میرا وجود ہولے ہو لے تنہائی کے خوف سے لرزتا فنا ہونے کےلئے ہر لمحہ تیار ہوتا ہے۔
کون سے دوست اور کیسے خونی رشتے جنہیں یہ تک احساس نہیں کہ ہمارا پیارا خاموشی سے مر رہاہے.... کہاں گئے وہ والدین جنہیں اپنے بچوں کی شکلوں کو دیکھ کر ان کی خوشی اور غم کا اندازہ ہوتا تھا.... اب تو سالہا سال بچے اذیت، درد تکلیف میں گزار دیتے ہیں لیکن والدین کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔
محبّت کا دعویٰ کرنے والے ہی ہماری اذیتوں سے نا واقف ہوتے ہیں.... واحد خداوند کریم ہے جو اپنے بندوں کی کیفیت سے واقف ہے.... اور جو جانتا ہے وہی تو مسائل سے باہر بھی نکال سکتا ہے۔
اسی لئے شاید اس دنیا کو دھوکے کا گھر کہا گیا ہے جو نظر آرہا ہے وہ حقیقت میں ہے نہیں.... سارے رشتے پانی کا ایک بلبلہ ہیں جو وقت کی گرد پڑتے ہی ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔
اس سے زیادہ اس سے نہیں پڑھا گیا.... ڈائری کو اس نے بند کر دیا۔
’’زندانِ حیات بقلم فریال‘‘
ڈائری کے سر ورق پر جلی حرفوں میں درج تھا جبکہ عنوان کے نیچے یہ شعر درج تھا؎
تعجب ان کو ہے کیوں میری خود کلامی پر
ہر آدمی کا کوئی راز داں ضروری ہے
’’فریال!‘‘ اس کے منہ سے ایک گہری چیخ نکلی.... ’’فریال تم تو ایک متاثر کن شخصیت ہو.... تم تو ہمیشہ بہادری کے ساتھ ہر مسائل سے لڑی ہو.... مجھے یقین نہیں آتا یہ تم نے لکھا ہے میری پیاری دوست! میری جان! تم تو بہت تنہا ہو.... بہت....!‘‘ سبرینہ حیرت، دکھ کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ خود سے ہم کلام تھی۔
وہ سارے واقعات سبرینہ کے ذہن میں کسی فلم رول کی طرح چلنے لگے جہاں فریال کو مشکلات کے باوجود مسکراتا پایا گیا۔
اس کا لئے دیئے رہنا جسے سنجیدہ شخصیت کی نشانی سمجھ کر حلقہ احباب فریال سے متاثر ہوا کرتے تھے۔ کبھی کسی نے جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ اس کے پیچھے وجہ کیا ہے.... کیا وہ اذیتوں بھری زندگی تو نہیں گزار رہی ہے۔
’’السلام علیکم! یار تم تو میرے گھر پر ہی مجھ سے چھپی پھرتی ہو۔ یہ آج تمہیں میرا کتب خانہ کیسے یاد آگیا۔ کون سی کتاب پڑھ رہی ہو؟‘‘ فریال کی اچانک آمد پر سبرینہ ہڑبڑا سی گئی۔
’’کچھ.... کچھ بھی تو نہیں۔‘‘
اچانک خیال کا تسلسل ٹوٹا۔
سبرینہ نے بے اختیار ہاتھ پیچھے کیا.... خود پر قابو پاتے ہوئے کہا، ’’یار بس ایک کتاب کی تلاش میں تھی سوچا کہ تمہارے پاس تو کتابوں کا ڈھیر ہے دیکھ لیتی ہوں۔ تو آگئی یہاں۔ خالہ سے تمہارے بارے میں پوچھی تو انہوں نے کہا، ’’کتابوں میں سر دیئے بیٹھی ہوگی اس لئے میں چھت کے بجائے یہاں آگئی۔‘‘
’’کوئی نہیں.... مَیں چھت پر ہی تھی.... موسم بہت اچھا ہو رہا تھا تو کچھ دیر اوپر چلی گئی.... تم بتاؤ تمہیں ملی وہ کتاب جس کی تلاش تمہیں یہاں کھینچ لائی ہے؟‘‘ سبرینہ دایاں ہاتھ پیچھے کئے مضبوطی سے ڈائری کو پکڑا۔
’’ہاں! مل گئی ہے۔ اب مجھے جانے دو گھر جا کر مجھے پڑھنا بھی ہے۔‘‘ فوری طور پر سبرینہ، فریال کو سامنے سے ہٹاتے ہوئے نکل گئی۔
’’ارے! ابھی تو تم آئی تھی۔ خیر کوئی نہیں۔‘‘
سبرینہ جاچکی تھی۔
’’ویسے بھی انسان جب اکیلے رہنے کا عادی ہوجائے تو اسے کسی کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑنا چاہئے۔‘‘ خود سے کہتی شیلف سے کوئی کتاب تلاش کرنے لگی۔
ابھی تو یہیں تھی.... کدھر گئی.... اوہ یہاں پر ہے.... میری ہم راز.... میری رہبر تم ہو.... شعور کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی مَیں نے تمہیں اپنا ساتھی منتخب کیا ہے اور تم میری بہترین ساتھی ہو.... وہ کتابوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ان سے مخاطب تھی۔
یہ بھی پڑھئے:افسانہ : چھاؤں کے نیچے
’’مما.... مما سنیں....‘‘ سبرینہ گھر آ کر فوراً اپنی امی کے کمرے میں گئی۔ ’’مما آپ کہتی تھی نا تمہاری دوست بہت گہری باتیں کرتی ہے.... مما آج اس کی ڈائری ملی ہے۔‘‘
سبرینہ فریال کے بعد اگر کسی پر اعتماد کرتی تھی تو وہ اس کی امی تھی جن سے چند باتوں کے علاوہ ہر بات شیئر کرتی تھی۔ فرحت بھی ہمیشہ بیٹی کی باتوں کو انہماک کے ساتھ سنتی اور ضرورت کے مطابق ہدایت اور مشوروں سے بھی نوازا کرتی تھیں۔
’’کیا فریال سے تم نے لی ہے؟‘‘
’’نہیں....‘‘
’’یوں کسی کی ذاتی ڈائری کا مطالعہ کرنا مناسب نہیں بیٹا!‘‘
’’مما آپ پڑھیں گی تو متحیر رہ جائے گی کہ فریال اس قسم کے جذبات سے گزر رہی ہے۔‘‘
’’کیوں کیا لکھا ہے اس میں؟‘‘
’’مما میں آپ سے مدد مانگنے آئی ہوں۔ کیا کرنا چاہئے اب مجھے؟‘‘
’’سببّی بیٹا پہلے مجھے کچھ بتاؤ تو؟‘‘
سبرینہ ڈائری کے کچھ اوراق امی کے سامنے کھول دئیے۔ ’’ہممممم....!‘‘ ایک گہری سوچ کے بعد فرحت نے کہا۔
’’سبرینہ کچھ لوگ اپنے غموں میں بھی بہت خود دار ہوتے ہیں وہ دکھ درد کو صرف اپنی ذات تک محدود رکھتے ہیں۔‘‘
’’لیکن امی اس طرح سے تو انسان ڈپریشن میں چلے جاتا ہے۔‘‘
’’نہیں بیٹا ڈپریشن کا تعلق غموں کو خود تک محدود رکھنے سے نہیں ہے بلکہ آسان لفظوں میں کہوں تو نا امیدی سے ہے.... اور فریال کبھی بھی نا امید نہیں ہوسکتی کیونکہ جتنا ہم اسے جانتے ہیں وہ بھلے ہم سے اپنے جذبات و کیفیات چھپاتی ہو.... وہ کسی سے تو کہتی ہوگی.... انسان کے پاس کوئی ایک ذات تو ایسی ضرور ہونی چاہئے جس کے سامنے وہ اپنے آپ کو سچائی کے ساتھ بیان کرسکے۔ اس کا انتخاب تو دیکھو.... وہ رب جس کی کبریائی پوری کائنات پر محیط ہے.... فریال نے اسے منتخب کیا ہے۔ جس کے ساتھ اللہ کی عظیم الشان ذات ہو اسے ڈپریشن کا عارضہ کیسے لاحق ہوسکتا ہے.... فریال نے جسے چنا ہے وہ ذات کبھی بھی اپنے رفیق کو تنہا نہیں ہونے دیتی۔‘‘
’’امی! لیکن فریال کی ڈائری سے تو لگتا ہے وہ بہت اداس اور تنہا ہے۔‘‘
’’بیٹا! اداس ہونا فطری کیفیت ہے۔ انسان جب تکلیف اور غموں کے حصار میں ہوتا ہے تو اداسی ڈیرا جمانے لگتی ہے لیکن جب انسان اپنی کیفیت باہری کسی عناصر پر انڈیل دیں تو وہ خود کو بہتر محسوس کرتا ہے۔ اگر وہ خود سے اپنی باتیں آپ سے شیئر کرے تو بالکل آپ اسے متوجہ ہو کر سنو لیکن اگر وہ نہیں کہنا چاہتی تو آپ اسے فورس نہیں کرسکتی.... اور وہ اپنے جذبات دوسرے طریقے سے باہر نکال رہی ہے، وہ لکھ رہی ہے۔ اس کا لکھنا اس کیلئے ’ہیلینگ پروسیس‘ ہے۔ وہ اپنی اداسی صفحات پر قلم بند کر رہی ہے۔ دیکھو اسی لئے تو ہمارے سامنے کبھی اداس نظر نہیں آتی۔
’’تو کیا امی اسے میں سمجھاوں نہیں؟ فریال کے الفاظ نے مجھے حیرت میں ڈال دیا ہے.... امی ہمیں اسے سمجھانا چاہئے۔‘‘ سبرینہ فکرمند تھی۔
’’نہیں بیٹا! ہر انسان کے کتھارسس (جذبات کی تسکین) کا طریقہ مختلف ہوتا ہے۔ وہ اسی طرح سے خود کے جذبات کو ڈیل کرتا ہے۔ آپ اپنی باتوں کو شیئر کر دیتی ہو، اس طرح تمہارے دل کا غبار نکل جاتا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ تنہائی میں رونا پسند کرتے ہیں۔ کچھ خود کلامی کرتے ہیں، کچھ مراقبہ کرتے ہیں۔ کچھ خداوند تعالیٰ سے محو کلام ہوتے ہیں۔ ہزاروں طریقے ہیں جن سے انسان اپنے غموں کو منیج کرتا ہے۔ انسان کو اپنے آپ کو Heal کرنے آنا چاہئے.... ورنہ انسان غموں کی شدت سے ڈپریشن اور انزائٹی کا شکار ہوجائے۔‘‘
’’کیا فریال تنہائی میں روتی ہوگی؟ مَیں تو اسے بہت بہادر اور مضبوط سمجھتی ہوں۔‘‘
’’بیٹا! مضبوط انسان وہ نہیں ہوتا جو کبھی روئے نہ ہر وقت خوش نظر آئے بلکہ یہ علامتیں تو غیر صحتمند زندگی کی نشانی ہیں....
....رونا تو صحتمند زندگی کی علامت ہے۔ انسان جب خود کو بے بس محسوس کرتا ہے تو رونا اس کے لئے بہت ضروری ہوجاتا ہے تاکہ وہ اس مشکل وقت سے باہر آسکے۔ اگر انسان غموں میں رونا چھوڑ دے تو وہ اعصابی امراض کا ڈھیر بن جائے گا۔ اس لئے اللہ نے آنسوؤں کو بنا کر ہمارے لئے راحت کا سبب بنا دیا۔‘‘
’’ہممم! آپ صحیح کہتی ہیں.... مَیں نے غور کیا ہے۔ کسی عزیز کو کھونے پر آنسو بہا لینے والے کچھ دنوں میں خود کو سنبھال لیتے ہیں لیکن جن کا غم آنسو کے ذریعے باہر نہیں آتا وہ آہستہ آہستہ مضطرب، تنہائی اور ڈپریشن کا شکار ہونے لگتے ہیں۔‘‘
’’نہیں رونا انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ مجھے لگتا ہے فریال کے ساتھ مجھے زیادہ وقت گزارنا چاہئے تاکہ اس کی زندگی کا خلا کچھ تو پُر کر سکوں۔‘‘ ’’سبرینہ تم صرف تسلی اور دلاسہ دے سکتی ہو۔‘‘ فرحت نے بیٹی کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ انسان کی زندگی میں خلا آجائے تو وہ کبھی نہیں بھرتا بلکہ انسان اس کے ساتھ رہنا سیکھ جاتا ہے۔ فریال اپنے خلا کے ساتھ جینا سیکھ رہی ہے۔ یہ ہی مضبوط شخص کی نشانی ہے۔‘‘
کتنی عجیب بات ہے نا ہم اس کے اتنے قریب ہوکر بھی جان نہیں پائے کہ وہ کن حالات سے گزر رہی ہے۔‘‘
’’پریشانی میں بھی ہمیشہ میں نے اسے مسکراتے ہی دیکھا ہے۔ مجھے لگتا تھا کہ سب کی زندگی فریال جیسے ہی ہونی چاہئے.... ہنستے مسکراتے.... لیکن میں غلط تھی۔ اس دنیا میں سانس لے رہا ہر شخص کسی نہ کسی مسائل سے دوچار ہے.... غم، تکلیف اور پریشانی ہر ایک کی زندگی کا حصہ ہے۔ بس کچھ لوگ چہرے پر مسکراہٹ سجا کر اس کا سامنا کرتے ہیں کچھ گریہ و زاری کرکے۔‘‘ سبرینہ ڈائری کے سر ورق پر اپنی انگلیاں پھیر رہی تھی۔ شاید وہ فریال کے غموں کی شدت محسوس کرنا چاہتی تھی۔
فرحت نے بیٹی کو بازو میں بھرا اور کہنے لگی، ’’سبرینہ تم پریشان نہ ہو، یہ جو ہمارا تخلیق کار ہے نا وہ اپنے بندوں کو مصائب سے لڑنے کی طاقت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ ہر کوئی غموں سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ جانتا ہے۔ کچھ صحیح طریقے سے خود کو غم سے دور کر دیتے ہیں جبکہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو غلط طریقہ اختیار کرلیتے جس کی وجہ سے ان کا غم ان کی زندگی کا روگ بن جاتا ہے۔ یہ درحقیقت کمزور لوگ ہیں.... جو اپنی ذات سے اور اپنے تخلیق کار سے ناواقف ہوتے ہیں۔‘‘ فرحت مزید اسے سمجھاتی رہی۔
سبرینہ آج ایک نئی فریال سے واقف ہو رہی تھی.... اس کے دل میں اس کا مرتبہ مزید بڑھتا جارہا تھا۔
آج صبح ہی سے گہرے سرمئی بادل آسمان پر چھائے ہوئے تھے۔ وقفے وقفے سے بجلی چمک کر ماند پڑ جاتی۔ تیز ہوا کے جھونکے درختوں کو یوں پریشان کر رہے تھے جیسے کوئی چھوٹا بچہ اپنے بڑوں کو پریشان کرکے چھپ جاتا ہے.... ہر طرف گرد و غبار اپنے پیر جمائے ہوئے تھے.... یہ وہی منظر ہے جب موسم باراں کی آمد سے قبل ہر طرف ہو کا عالم ہوتا ہے۔ فریال اس منظر کا بے صبری سے انتظار کرتی یا یوں کہہ لو وہ مئی کے اکثر ایام چھت پر گزارتی یا وقفے وقفے سے چھت پر آتی، ہواوں کو محسوس کرتی، درختوں کے پتوں کی سرسراہٹ کو بغور سنتی پرندوں کی نقل مکانی دیکھتی.... اور اندازہ لگاتی کہ کب قدرت جلوہ گر ہوگی۔
آج صبح سے وہ چھت پر بیٹھی تھی۔ ٹیبل پر ایک طشتری میں پستہ رکھے ہوئے تھے جبکہ چھلکے پاس ہی ایک رکابی میں رکھے تھے.... کچھ کتابیں، ڈائری اور ساتھ ہی قلم....
’’فری کیسی ہو؟‘‘
’’اوووو تم! بہت اچھا کیا آگئی۔ موسم دیکھو کتنا حسین ہو رہا ہے۔‘‘
سبرینہ دوسری کرسی لے کر بیٹھ گئی، ’’فری آج کل کیا پلان ہے، کیا کر رہی ہو؟‘‘
’’کچھ خاص نہیں ٹریننگ اور گھر داری میں مصروف ہوں۔ ارحم ایک نئے پروجیکٹ پر کام کر رہا ہے اس کی اسکرپٹ لکھ رہی ہوں بس....‘‘ ’’اووؤوو.... واؤ! یعنی ڈائریکٹر صاحب کو تمہاری کہانی پسند آئی تبھی دوسری کی فرمائش آگئی....‘‘
فری محض ہمممم کرکے مسکرا دی۔
’’فری ایک بات پوچھو تم سے؟‘‘
’’ہاں بالکل پوچھو؟‘‘
سبرینہ کچھ متذبذب تھی کہ اسے یہ کہنا چاہئے یا نہیں!
’’تم پریشان ہو؟‘‘ آخرکار اس نے سوال داغا۔ ’’ہاں تھوڑا سا؟‘‘
سبرینہ اس جواب کی بالکل توقع نہیں کر رہی تھی کیونکہ فریال ہمیشہ یہ کہتی وہ ٹھیک ہے۔ سبرینہ کے لئے اپنی بات رکھنا مزید آسان ہوگیا۔
’’تم مجھ سے اپنی باتیں شیئرکرسکتی ہو اگر مناسب لگے؟‘‘
فریال ڈائری کو اپنی جگہ نہ دیکھ کر اندازہ لگا چکی تھی کہ ڈائری کو کسی نے ضرور لیا ہے۔ وہ منتظر تھی ان سوالوں کہ تاکہ پتا چل سکے ڈائری کس کے پاس ہے۔ سبرینہ کے سوال نے اس پر آشکار کر دیا کہ ڈائری اس کے ہاتھ لگ چکی ہے۔ لہٰذا وہ خود کو تمام ذاتی سوالوں کے لئے تیار کرکے آئی تھی۔
’’سبرینہ! زندگی میں موجود ہر شخص کسی نہ کسی مسئلہ میں گرفتار ہے۔ کیا تم جانتی ہو وہ کون لوگ ہیں جو جلد اپنے مسائل پر قابو پا لیتے ہیں؟‘‘
’’ہاں بالکل جو اپنے مسئلے دوسروں سے شیئر کرتے ہوں اس کی وجہ معلوم کرتے ہوں، پھر تدبیر کرتے ہیں۔‘‘
’’ہمممم! تم نے آخری جملہ درست کہا۔ لیکن پہلا جملہ ہر بار درست ثابت نہیں ہوتا.... ضروری نہیں سب باتیں شیئر کی جائے.... اگر ہم ہر تکلیف ہر مسئلہ شیئر کرنے لگے تو ہم جذباتی طور پر مستحکم نہیں ہو پاتے.... ہم ہمدردی کے طالب بن جاتے ہیں اور مسائل ختم ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہونے لگتے ہیں کہ فلاں شخص مجھے وقت نہیں دیتا، میری باتیں نہیں سنتا یا توجہ نہیں دیتا۔‘‘ ’’لیکن فریال میں ایسی نہیں ہوں.... مَیں تمہاری خیر خواہ ہوں.... مَیں چاہتی ہوں تم ہمیشہ خوش رہو.... مَیں تمہارے لئے ہر وقت موجود ہوں۔‘‘
’’سبّبی مَیں جانتی ہوں تم میری خیر خواہ ہو.... اور مَیں یہ بھی جانتی ہوں تم میری ایک پکار پر آجاؤ گی.... اس لئے مَیں چاہتی ہوں میرا کردار تمہارے سامنے ایک مضبوط لڑکی کا ہو جو اپنے مسائل خود حل کرنے والی ہو، جو کسی پر انحصار کرنے کے بجائے تدبیر اور ترکیب خود بنا سکتی ہو۔ اگر مَیں ہر وقت تمہیں یا کسی اور کو اپنا سہارا بنانے لگوں تو میرے ساتھ تمہاری شخصیت پر بھی گہرا اثر پڑے گا.... انسان کی فطرت ہے وہ کسی کے مسائل کو بار بار نہیں سن سکتا وہ بیزارگی اور اکتاہٹ کا شکار ہونے لگتا ہے.... مَیں اپنی ذات سے کسی کو پریشان نہیں کرنا چاہتی ہوں۔ قادر مطلق اللہ رب العزت قرآن مقدس میں فرماتا ہے انسان اپنے آپ کو سب سے بہتر جاننے والا ہے.... میں پوری دنیا سے اپنے مسائل بیان کرتے رہوں لیکن یہ اس وقت تک حل نہ ہوں گے جب میں خود اس پر متوجہ نہ ہوں۔ کیونکہ اپنے مسائل کی باریکیوں سے میں واقف ہوں کوئی اور نہیں.... اس لئے مَیں خود کے ساتھ بیٹھتی ہوں، خود سے سوال کرتی ہوں، مسئلہ کیا ہے؟ کیوں آج پریشان ہوں؟ اسے کیسے حل کیا جائے؟ مَیں خود کو بتاتی ہوں، مَیں تمہارے ساتھ ہوں، تم اگر اسے نہ بھی حل کرسکی ہو تب بھی مَیں تمہارے ساتھ ہوں.... موجودہ پریشانی یا مسئلے کو اس طرح کہتی ہوں گویا کوئی بہت متوجہ ہو کر سن رہا ہے.... اس طرح مَیں خود کو مسئلے کو حل کرنے کا اہل پاتی ہوں۔‘‘
فریال کہتے کہتے ٹھہر گئی۔ ایک تیز ہوا کا جھونکا آیا جو نئی شروعات کا پیغام دے گیا.... فریال نے سبرینہ کے دونوں ہاتھوں کی کلائیوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر کلام کا سلسلہ جاری کیا، ’’سبرینہ اللہ نے ہمارے اندر معجزاتی قوت تخلیق کی ہے ہم خود سے جو باتیں کرتے ہیں ہمارا جسم ویسا رد عمل کرنے لگتا ہے.... میں خود سے کہتی ہوں فریال تم منیج کرلو گی ابھی نہیں تو کچھ دنوں میں، اللہ تمہارے ساتھ ہے، تم بس حل پر غور کرو، ترکیب پر عمل کرو.... مناسب لگے تو مشورہ لو.... اور اس طرح میں حیران رہ جاتی ہوں۔ اگرچہ تاخیر سے لیکن وہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ سبرینہ تمہارے خلوص کا بہت شکریہ! تم نے میرے بارے میں سوچا لیکن یہ بات یاد رکھو لوگوں کیلئے خود کو بیساکھی مت بناؤ بلکہ ان کو یہ احساس دلاؤ کہ اللہ کو تم سے بہت بڑے کام لینا ہے۔ ان بڑے کاموں کی انجام دہی سے قبل پہلے اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کو خود پورا کرنا سیکھو.... خود انحصار بننا سیکھو۔
....مسائل زندگی کا حصہ ہیں ہمیں انہیں حل کرنے آنا چاہئے.... ہم مشورہ کریں، مطالعہ کریں، لوگوں کے تجربات سے استفادہ کریں.... لیکن یہ سب ہمیں خود کرنا ہے، دوسرے ہمارے جذبات اور کیفیات اس طرح سے محسوس نہیں کرتے جو ہم کر رہے ہوتے ہیں، اس لئے اپنی مدد آپ کا جذبہ اپنے اندر پیدا کریں.... لوگوں کو اپنا حال سنانے سے بہتر ہے کہ اپنے ساتھ بیٹھیں، خود سے پوچھیں.... اور سبرینہ یہ جو اندر چھپا ہمارا اپنا آپ ہے نا یہ سب جانتا ہے اس کے پاس تمام مسائل کا حل ہے.... بس ہمیں اس سے گفتگو کرنے آنا چاہئے۔ ہم جیسے دوسروں سے اپنے غم کا برملا اظہار کرتے ہیں اسی طرح خود کو بتانا چاہئے.... دیکھو آج مَیں پریشان ہوں.... مجھے کیا کرنا چاہئے.... یہ جو اندر ہے نا....‘‘ سینے پر انگلی رکھ کر اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’یہ اندر بیٹھا شخص منتظر ہے، ہم کب اس سے مدد طلب کرے.... لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے وجود کے حصے کو فراموش کرکے پوری دنیا کے لوگوں کو دکھڑے سناتے پھرتے ہیں یہ جانے بغیر کہ وہ ہمیں ہمارے مسائل کو کس انداز سے دیکھتے ہیں۔ اس لئے میں اپنے مسائل کسی سے بیان نہیں کرتی کیونکہ مسئلہ میرا ہے، حل بھی مجھے کرنا ہے۔ البتہ ضرورت پڑنے پر مخلص احباب سے مشورہ ضرور کرتی ہوں۔ سبرینہ مجھے تمہارے خلوص پر کوئی شبہ نہیں یقیناً مَیں تمہیں بہت عزیز ہوں۔ اس لئے مجھے مضبوط رہنے دو.... مجھے روتی گاتی لڑکیاں نہیں پسند جو چھوٹی سی بات سے گھبرا جاتی ہیں... اور ہر طرف واویلا مچاتی ہیں، ہمدردی حاصل کرنا چاہتی ہیں.... مجھے ام صفیہ جیسی بننا ہے جو مشکلات آنے پر اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہیں۔‘‘
’’ہمممم! مجھے رشک آتا ہے تم پر میری پیاری دوست...‘‘ سبرینہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
بادلوں کی اٹھکیلیاں بڑھتے جارہی تھیں.... پرندے اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹ چکے تھے، ان کی چہچہاہٹ ہوا میں تحلیل ہو کر ماند پڑچکی تھی کہ اچانک بادلوں نے برسنا شروع کردیا۔ بارش کی بوندیں زمین پر آنے کیلئے بیتاب ہونے لگی۔ فریال اور سبرینہ دونوں اپنی باتوں کا اظہار کرکے چہروں پر سکون اور اطمینان کے آثار لئے تھیں۔
فریال نے گہری سانس لی اور آسمان کی طرف دیکھا، ’’آج موسم کتنا خوبصورت ہے۔‘‘ مسکراتے ہوئے کہا۔
سبرینہ نے اثبات میں سر ہلایا، ’’ہاں، بالکل! مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک نئی شروعات کی علامت ہے۔‘‘
سبرینہ نے فریال کی طرف دیکھا اور اس کا ہاتھ تھام لیا، ’’تم درست کہتی ہو.... مَیں نے سیکھا ہے کہ خود سے کیسے محبت کرنی ہے اور اپنی طاقت پر کیسے بھروسہ کرنا ہے۔‘‘ فریال نے مسکراتے ہوئے سبرینہ کا ہاتھ دبایا۔
سبرینہ نے ایک نئی ڈائری کھولی اور ایک تازہ صفحہ نکالا۔ اس نے قلم اٹھایا اور لکھنا شروع کیا، ’’آج مَیں نے اپنی زندگی کا ایک نیا باب شروع کیا ہے۔ مَیں نے تنہائی کو قبول کرنا سیکھ لیا ہے اور مَیں جانتی ہوں کہ مَیں تنہا نہیں ہوں۔ میرے پاس میرے دوست ہیں، میرا خاندان ہے اور سب سے اہم بات، میرے پاس مَیں خود ہوں۔ مَیں اس وقت تک ہار نہیں سکتی جب تک مَیں خود نہ چاہوں۔ مجھے اپنے آپ کو وقت دینا ہے، اسے سننا ہے، کیونکہ سب سے مخلص ساتھی ہمارا اپنا آپ ہے۔‘‘ سبرینہ نے ڈائری بند کی اور فریال کی طرف دیکھا، ’’مَیں جانتی ہوں کہ زندگی میں ہمیشہ مشکلات آتی رہیں گی، لیکن اب مَیں ان سے نمٹنے کے لئے تیار ہوں۔ مَیں نے سیکھا ہے کہ خود انحصاری کتنی اہم ہے اور مَیں جانتی ہوں کہ مَیں کسی بھی چیز کا سامنا کرسکتی ہوں۔‘‘
سبرینہ نے مسکراتے ہوئے فریال کے کندھے پر ہاتھ رکھا، ’’مجھے تم پر فخر ہے۔ تم ایک بہادر لڑکی ہو۔‘‘
دونوں خاموشی سے بیٹھی رہیں، بوندیں ان کے وجود کو بھگونے لگی.... لیکن دونوں مسحور ہوتی ہوئی بارش سے لطف اندوز ہونے لگی.... ان کے دل امید اور خوشی سے بھرے ہوئے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ زندگی میں کچھ بھی ہوجائے، وہ ہمیشہ ڈٹ کر مقابلہ کریں گی!