Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : ذمہ دار کون؟

Updated: June 18, 2025, 1:31 PM IST | Tanveer Banu Ansari | Mumbai

کُرلا ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر ایک پر ایک خاتون تیزی سے میرے قریب آئیںاور مجھے سلام کیا۔ مَیں نے جواب تو دے دیا لیکن میری آنکھوں میں اجنبیت پڑھ کر وہ گویا ہوئیں، ’’ارے پہچانا نہیں! مَیں شاہدہ انور۔ ہدایت الاسلام کی معلمہ۔‘‘

Picture: INN
تصویر: آئی این این

کُرلا ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر ایک پر ایک خاتون تیزی سے میرے قریب آئیںاور مجھے سلام کیا۔ مَیں نے جواب تو دے دیا لیکن میری آنکھوں میں اجنبیت پڑھ کر وہ گویا ہوئیں، ’’ارے پہچانا نہیں! مَیں شاہدہ انور۔ ہدایت الاسلام کی معلمہ۔‘‘ بس پھر کیا تھا؟ میری آنکھوں کی اجنبیت نے شناسائی کا لبادہ اوڑھ لیا۔ اب مَیں نے اُنہیں غور سے دیکھا۔ زرد چہرہ، ہونٹوں پر پپڑی جمی ہوئی۔ چہرے کی جھریوں نے اُن کی عمر سو سال کے قریب بتائی جبکہ مَیں جانتی ہوں کہ اُن کی عمر ساٹھ باسٹھ کے قریب ہوگی۔ ابھی چند سال پہلے ہی تو ہمارے اسکول سے ریٹائر ہوئی تھیں۔ پھر ہمارے درمیان گفتگو کا سلسلہ چل پڑا۔
 پہلے تو یہ گفتگو رسمی رہی جیسے خیر خیریت، رہائش وغیرہ۔ اب باتوں نے وہ رُخ اختیار کیا جو ہونا چاہئے تھا یعنی سبکدوشی پر ملنے والی گریجویٹی کی رقم اور پنشن وغیرہ کا کیا کیا؟
 یہاں سے شروع ہوتی ہے ایک ریٹائرڈ ٹیچر کے چہرہ پر چھائی جھریوں کی داستان، جس نے اُسے اپنی عمر سے تیس پینتیس سال بڑا کردیا۔
 شاہدہ کا تقرر ۱۹۹۸ء میں بطور انگریزی معلمہ ہمارے اسکول میں ہوا تھا۔ اُس وقت ہمارے اسکول کو گرانٹ نہیں ملی تھی۔ شہر کی نامور شخصیات جن کے کئی اسکول ممبئی جیسے شہر کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔ اپنی قوم کی فلاح و بہبود کے مد نظر انہوں نے کُرلا کے ایک پسماندہ علاقے پر نظرِ کرم کی۔ یعنی یہاں ہمارا اسکول دو کمروں سے شروع کیا گیا۔ محنتی و جفا کش اساتذہ کا انتخاب کیا گیا۔ میرا تقرر ۲۰۰۵ء میں ہوا۔ ہمیں چند ہزار بطور تنخواہ حاصل ہوتے تھے۔ اس دوران اسکول کے گرانٹ کے لئے تگ و دو جاری تھیں۔ اسکول کے تمام اساتذہ اپنی آنکھوں میں سنہرا خواب سجائے ہوئے تھے کہ جب بھی سرکاری مراعات حاصل ہوں گی ہمارے اکائونٹ میں ایک خطیر رقم ایریئرس کی شکل میں آجائے گی۔ ہم پوری ایمانداری سے، ماتھے پہ شکن لائے بغیر اپنے فرائض ِ منصبی انجام دیتے رہے۔
 آخر ۲۰۰۸ء شروع ہوا۔ اس نوید کے ساتھ کہ اسکول کو جماعت ہشتم تا دہم گرانٹ حاصل ہوئی ہے۔ لیکن ایک خبر اور تھی کہ یہ گرانٹ اِسی سال سے لاگو ہوگی۔ یعنی اپنی پچھلی تمام خدمات کو واقعی خدماتِ خلق کے زُمرے میں ڈال دیا جائے اور اجرِ عظیم یومِ آخرت پر اٹھا رکھا جائے۔ اتنا ہی نہیں مینجمنٹ کے وعدے بھی دلالوں کے سبز باغ ثابت ہوئے۔ انہیں ہم اساتذہ کی تنخواہ کا ۱۵؍ فیصدی ہر ماہ درکار تھا۔یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔
 مینجمنٹ کی تجوریاں عمر و عیار کی زنبیل ہوتی ہیں جو بھرتی ہی نہیں۔ یہ نظام تو اس دور بالخصوص تعلیمی نظام کا جزوِ لانیفک ہوگیا ہے۔ پرنسپل حضرات اپنے رفقائے کاروں سے ہر ماہ پٹھانوں کے سود کی طرح اس رقم کو وصول کرلیتے ہیں۔ہاں ! یہ حضرات خود ہر قسم کے Deduction سے محفوظ ہوتے ہیں۔ ہمارے اسکول کی ہیڈ مسٹریس ایس صاحبہ مینجمنٹ سے اور مینجمنٹ اُن سے بڑے خوش ہیں۔ صحیح ہے، ’ سو کام نکلتے ہیں خوشامد سے جہاں میں‘۔ دیگچی اور چمچہ کا تو چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے نا۔ سو اُنہیں ہماری ضروریات، ہماری مجبوریوں سے کیا سروکار۔
 آئیے! ذرا ٹیچرس حضرات کی بات کریں۔ تواس اسٹاف میں بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ہیڈ ماسٹرس کی جی حضوری کے ذریعے اپنے نمبر بڑھاتے رہتے ہیں۔ ان کی ہر جائز و نا جائز پر لبیک کہتے ہیں۔ دوسرے ٹیچرس کے سامنے نہ اپنے ہیڈ کی بُرائی کرتے ہیں اور نہ ہی اُن کے غلط کو غلط کہنے کی جرأت کرتے ہیں بلکہ اپنے کولیگس کے زریں خیالات سے اپنے حکمرانوں کے کانوں میں رس گھولتے رہتے ہیں۔ کسی کی ذات کے پرخچے اُڑانا بُری بات ہے لیکن شاہدہ مس کا مزاج بھی کچھ اسی قسم کا تھا۔
 سرکاری تیرہ سال بعد شاہدہ مس کا وقت ِ سبکدوشی آن پہنچا۔ ہمارے اسکول سے ریٹائر ہونے والی یہ پہلی ٹیچر تھیں۔ مینجمنٹ نے تو کیا ہی دینا تھا۔ نہ اعزازی دعوت، نہ کسی قسم کے تحائف، نہ ہی اعترافیہ وغیرہ۔ اس کے برعکس ہم ٹیچرس بضد تھے کہ وہ ہمیں اپنی الوداعی پارٹی دیں۔ حالانکہ اس کا انتظام ہم ٹیچرس کو کرنا چاہئے تھا۔ مجھے احساس تھا لیکن بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا کسے نہیں بھاتا؟ سب کے ساتھ مَیں بھی اس پارٹی (الوداعی) کے نعروں میں شامل تھی۔ شاہدہ مس ریٹائر ہوگئیں۔
 اب تین سالوں بعد اُن سے اچانک ملاقات ہوئی۔ باتوں ہی باتوں میں جب گریجویٹی اور پنشن کا ذکر نکلا تو اُنہوں نے بتایا کہ اُنہیں تو کچھ بھی نہیں ملا۔ نہ گریجویٹی، نہ پنشن۔ مَیں سکتہ میں آگئی۔ ایسا کیسے ہوسکتاہے؟ اُن کے تو بہت سارے خواب تھے اس رقم کے تعلق سے۔ وہ خود کا ایک چھوٹا سا گھر لینا چاہتی تھیں۔ آخر کب تک ایک بیوہ عورت مع اپنے بیٹے کے میکے والوں پر بوجھ بنی رہتی۔ بیٹے کی اعلیٰ تعلیم کے لئے بھی کچھ رقم ضروری تھی۔ چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں سنہرے خواب سجانا، ہم متوسط طبقہ کا حق ہوتا ہے۔ ہم پہلے ہی آنے والی رقم کے تعلق سے منصوبہ بندی کرلیتے ہیں بلکہ یوں کہنا درست ہوگا کہ ہمارے سامنے ضرورتوں کے پہاڑ ہوتے ہیں جنہیں عبور کرنے کے لئے آنے والے پیسے پَر تولنے لگتے ہیں۔
 مَیں نے کہا، ’’شاید کچھ دنوں میں مل جائے!‘‘ وہ بتانے لگیں، ’’بھئی ہم اولڈ پنشن سسٹم (او پی ایس) میں تو نہیں بیٹھتے تھے کہ یہ اسکیم جنوری ۲۰۰۴ء میں رَد کر دی گئی۔ پھر ڈیفائنڈ کانٹریبیوشن پنشن سسٹم (ڈی سی پی ایس) لاگو ہوگیا جو اَب نیشنل پنشن سسٹم (این پی ایس) میں تبدیل ہوگیا۔ اس میں ہمیں اپنی بیسک تنخواہ کا ۱۰؍ فیصد جمع کرانا ہوتا ہے اور ۱۴؍ فیصد سے حکومت اُس میں شرکت کرتی ہے۔ پھر ریٹائرمنٹ پر ہماری جمع پونجی میں سے کچھ فیصد گریجویٹی اور بقیہ پنشن کی صورت میں ملتی رہے گی جو بازار کے خسارے اور نفع پر منحصر ہوگی۔ مختلف تنظیمیں اس کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ قوی امید ہے کہ نتائج ٹیچرس کے حق میں آئیں۔‘‘
 مَیں نے پھر دلاسہ دیا، ’’تو ٹھیک ہے نا! آپ کو بھی مل ہی جائے گا۔ اُمید کی رمق باقی تو ہے۔ آپ ہیڈ مسٹریس سے دریافت کریں کہ تاخیر کی کیا وجہ ہے؟‘‘ اس پر شاہدہ مس نے جواب دیا، ’’مَیں نے استفسار کیا تو انہوں نے مجھے جھڑک دیا۔ کہا کہ کیا مَیں تمہارا حق کھانے والی نظر آتی ہوں؟ کیا مَیں نے کوئی غبن کیا ہے؟ اگر سرکار نے کچھ نہیں دیا تو کیا میرا قصور ہے؟‘‘
 مَیں نے شاہدہ مس سے کہا، ’’آپ ہیڈ مسٹریس سے ضروری کاغذات وغیرہ لے کر کسی اور ذرائع سے وجوہات تلاش کریں۔‘‘ اس پر مِس نے کہا، ’’مَیں نے بھی یہ بات میڈم سے کہی تو وہ چراغ پا ہوگئیں۔ کہنے لگیں کہ ہم اپنے اسکول کے دستاویز باہر دیں تاکہ کوئی بھی کچھ کر ڈالے۔ اور اسکول کا کچا چٹھا کھل جائے۔ تم تو ریٹائر ہوگئی ہو اور ہمیں پھنسانا چاہتی ہو۔ میں گنگ ہو کر رہ گئی۔ بتائیے نا مِس! کیا مَیں ایسی ہوں؟ مَیں اپنے ہی ساتھیوں کا، اپنے اسکول کا بُرا چاہوں گی؟ مَیں نے اتنے سال میڈم سے کبھی اونچی آواز میں بات نہیں کی۔ ہمیشہ اُن کی ہاں میں ہاں ملاتی رہے اور اس کا صلہ مجھے کیا ملا؟ دو ٹوک جواب، دل آزاری، الزامات۔ بالکل تہی دست و داماں رہ گئی مَیں۔‘‘
 مَیں حیرت زدہ سی شاہدہ مِس کا چہرہ تک رہی تھی۔ وہ مزید گویا ہوئیں، ’’اب تو بھائی بھابھی نے بھی منہ پھیر لیا ہے۔ اُنہیں بھی آس تھی مطلوبہ رقم کی۔ اب مَیں اپنے بیٹے کے ساتھ ٹِٹوالا میں کرائے کے مکان میں رہتی ہوں۔ وہاں کچھ گھریلو کام مل جاتا ہے سو گزر بسر ہو جاتی ہے۔ آج تو مَیں بھائی کے پاس آئی تھی کہ کچھ رقم مل جاتی تو بیٹے کو دسویں کے لئے کلاسیس میں ڈال دیتی۔ اب تو وہی سہارا ہے۔ ‘‘
 پلیٹ فارم پر ٹرین کی گڑگڑاہٹ سُنائی دی تو شاہدہ مِس نے فوراً جانے کی تیاری پکڑی۔ ’’ارے مِس! میری ٹِٹوالا لوکل آگئی۔ مَیں چلتی ہوں۔ اپنا خیال رکھئے گا اور اسکول میں سب کو میرا سلام کہئے گا۔ اللہ حافظ!‘‘
 مجھے نیرل جانا تھا اسلئے مَیں پلیٹ فارم پر ہی کھڑی تھی۔ ذہن میں ایک فلم چل پڑی۔ کوئی ہندی فلم نہیں بلکہ ان دنوں ہمارے اسکول میں ہونے والی غیر متوقع ہلچل۔ پرنسپل صاحبہ اور کلریکل ڈپارٹمنٹ کی حرکتیں۔ وہ ہم تمام اسٹاف ممبرس کا کوئی اکاؤنٹ کھلوانے کہہ رہے تھے غالباً پرماننٹ ریٹائرمنٹ اکاؤنٹ نمبر (پی آر اے این)۔ یعنی ۲۰۰۸ء سے ۲۰۲۱ء تک ہمارا ایسا کوئی اکاؤنٹ کھولا ہی نہیں گیا جس میں ڈی سی پی ایس یا این پی ایس کی رقم جمع ہو؟
 میرے سامنے کئی سوالات ہیں۔ شاہدہ مِس کے ان حالات کا ذمہ دار کون ہے؟ ہم ٹیچرس کی لاعلمی؟ جو طلبہ کو علم دیتے ہیں، با شعور بناتے ہیں اور خود اپنے متعلق اتنے لاعلم ہوتے ہیں کہ آخری وقت پر خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔
 ہماری ہیڈ مسٹریس اور کلریکل ڈپارٹمنٹ کی نا اہلی؟ جنہوں نے بر وقت کوئی قدم نہیں اُٹھایا۔ صرف اپنی ذات میں گُم رہے۔
 ہمارے مینجمنٹ کی لا پروائی؟ جو اُن اداروں کا تو خیال برابر رکھ رہے ہیں جو ممبئی کے اچھے علاقوں میں واقع ہیں۔ جہاں سے خاطر خواہ آمدنی ہوتی ہے۔ لیکن ہماری آمدنی کے صرف Deduction پر نظر ہے۔ ہمارے حالات سے اُنہیں کوئی سروکار نہیں۔
 محکمۂ تعلیم کے سیلری شعبہ کی سست روی؟ اُن کے پاس تو تمام معلومات ہوتی ہیں۔ وہ اسکول کو بروقت مطلع کرسکتے ہیں اور ضروری اقدامات یا سختی کے ذریعے بھی اسکول کے حکام کو کام کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔
 اپنی زندگی کا ایک لمبا عرصہ خدمات انجام دینے کے بعد شاہدہ مس آج بھی کسی بڑی ضرورت کے لئے اپنے بھائی بھاوج کی محتاج ہیں۔ زندگی تو کسمپرسی کی نذر ہوگئی۔ اب شاہدہ مس کا کیا ہوگا؟ ہمارا کیا ہوگا؟ ہم جیسے دوسرے اساتذہ کا کیا ہوگا جو مینجمنٹ کے رحم و کرم پر رہتے ہیں؟
 ہمارے حالات کا ذمہ دار کون ہے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK