’’لفظی جنگ‘‘کیا ہے یہ ہر شخص جانتا ہے مگر باقاعدہ لکھے جانے والے لفظ اور باقاعدہ لڑی جانے والی جنگ میں بھی کوئی تعلق ہوسکتا ہے اس بارے میںکبھی سوچا نہیں جاتا۔ اس مضمون میں، اسی موضوع سے بحث کی گئی ہے۔
EPAPER
Updated: May 05, 2025, 3:15 PM IST | Professor Sarwar Al-Huda | Mumbai
’’لفظی جنگ‘‘کیا ہے یہ ہر شخص جانتا ہے مگر باقاعدہ لکھے جانے والے لفظ اور باقاعدہ لڑی جانے والی جنگ میں بھی کوئی تعلق ہوسکتا ہے اس بارے میںکبھی سوچا نہیں جاتا۔ اس مضمون میں، اسی موضوع سے بحث کی گئی ہے۔
’’سرگزشت ِالفاظ‘‘ کو پڑھتے ہوئے احمد دین کا یہ جملہ نگاہ سے گزرا جو اس مضمون کا عنوان بن گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی لفظ اور جنگ کی کئی تاریخیں ذہن میں گردش کرنے لگیں ۔ وہ کتابیں اور تحریریں بھی یاد آئیں جن کا پس منظر جنگ ہے۔ وقت جیسے جیسے گزرتا جاتا ہے، ہر تاریخ جنگ کی تاریخ معلوم ہوتی ہے۔ الفاظ کے ذخیرے میں کوئی لفظ ایسا بھی تو ہے جو جنگ کی تاریخ کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ اس کی ذلت اور رسوائی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس لفظ کو انسانی زندگی کی مشکل ترین صورتحال کا احساس نہیں ہے یا وہ اس بدترین صورتحال کا گواہ بننا نہیں چاہتا۔ یہ وہ لفظ ہے جس سے جنگ کی تاریخ دھندلی نہیں ہو سکتی۔ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ کچھ لفظ تو جنگ کی ایجاد ہیں۔ ان لفظوں کی اپنی شعریات ہے۔ یہ وہ الفاظ ہیں جنہیں جنگ کی سیاست، جنگ کی سفاکیت اور جنگ کی ریاست کی نمائندگی کرنی ہے۔ انہیں اپنے تاریخی سیاق سے الگ کر کے دیکھنا ممکن نہیں ۔ جنگ سے وابستہ لفظ زبان سے ادا ہوتے ہی اپنامعنی ظاہر کردیتا ہے۔ ان الفاظ کے کئی معنی اور مطالب نہیں ہو سکتے۔ اگر ہوں بھی تو انہیں جنگ کی چالاکیوں کا نام دیا جانا چاہئے۔ جب پہلی مرتبہ کسی نے بم بنایا ہوگا تو اس کے پیچھے کا ذہن غیر انسانی رہا ہوگا۔ جب پہلی مرتبہ کسی انسانی آبادی پر بم گرایا گیا ہوگا تو اس بستی پر کیا گزری ہوگی۔ گولے اور بارود کی کثافت اور اس سے اٹھنے والا دھواں اب بھی فضا میں موجود ہے۔
جنگی مہم پر روانہ کمانڈر کی ڈائریوں کو پڑھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ انہوں نے انسانی آبادی سے اٹھنے والے دھویں کو کس طرح دیکھا ہے۔ جنگ کے میدان سے نکل کر ان کمانڈروں نے جب اپنی طرف دیکھا تو محسوس کیا کہ جنگی تیاری اور جنگی طیارے انسانیت کے کتنے بڑے دشمن ہیں ۔ لفظ پر گرفت کا دعویٰ ہر شخص کو کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔ لفظ کی بیچارگی دراصل اس شخص کی بیچارگی ہے جو لفظ کی داخلی طاقت سے واقف نہیں ۔ لفظ کی تاریخ جنگ کی تاریخ سے کیوں کر بڑی ہو سکتی ہے۔ اس سوال کا جواب اسی وقت ممکن ہے جب لفظ کو انسانی اور سماجی زندگی کے طویل سلسلے اور سفر کی روشنی میں دیکھا جائے۔ لفظ کی موجودگی بتاتی ہے کہ انسانی زندگی کی دھڑکن کہیں پوشیدہ ہے۔ لفظ کو بھوگنے اور جینے والے بہت کم ہوتے ہیں ۔ لغت میں لفظ کو جمع کرنے کی جو کوششیں ہوئی ہیں انہیں لفظ کی اسی لمبی تاریخ کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن لفظ کو جمع کر دینا اور لفظوں کی ایک انجمن بنا دینا ایک بات ہے اور لفظوں کے معنی اور معنی کے احساس کے ساتھ لفظ ہونا دوسری بات ہے۔ لفظ کی تاریخ لغت میں بظاہر دکھائی نہیں دیتی۔ دیکھنے والوں کا سروکار لفظ کے معنی سے ہے، اس کی لمبی زندگی سے نہیں ۔ لفظ کبھی راستے میں بھٹک جاتا ہے اور اس بھٹکے اور کھوئے ہوئے لفظ کے معنی بہت دیر میں دریافت ہوتے ہیں ۔ یہ بھٹکے اور کھوئے ہوئے لفظ بہت خاموشی کے ساتھ جنگ کی صورتحال کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتے ہیں ۔ لفظوں کا لہولہان چہرہ تاریخ کا لہولہان چہرہ بن جاتا ہے۔
احمد دین نے لفظوں کے بارے میں بہت مختلف انداز سے سوچا ہے۔ اس نوعیت کی اُردو میں کوئی اور کتاب نہیں لکھی گئی۔ احمد دین نے لفظ کی تاریخ کو جنگ کی تاریخ سے زیادہ بڑا بتایا ہے۔ انہوں نے سوچا نہیں ہوگا کہ یہ جملہ اتنی دور تک سفر کرے گا۔ اور یہ سفر مختلف ادوار میں اپنی معنویت پر اصرار کرتا رہے گا۔ کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے جنگ میدان سے باہر اس مقام پر لڑی جا رہی ہے جہاں ایک لفظ کو کاٹ کر اس کے سامنے دوسرا لفظ رکھا جا رہا ہے۔ جو لفظ لکھے ہوئے لفظ کی جگہ لے رہا ہے اس سے ہماری کوئی لڑائی نہیں ۔ لیکن کیا کیا جائے کہ وہ ہزار کوششوں کے باوجود فاصلے پر دکھائی دیتا ہے۔ وہ لفظ جو پرانے لفظ کی جگہ لے رہا ہے اس کی آواز اور اس کے مزاج سے ہم آہنگ ہونا دشوار ہوتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہماری ذمہ داری ایک لفظ کو کاٹ کر اور مٹا کر اس کے بالمقابل دوسرے لفظ کو رکھ دینا ہے۔ یہ ان کی سب سے بڑی جیت تصور کی جاتی ہے مگر انہیں کون بتائے کہ وہی لفظ ہماری تہذیبی زندگی میں احساس کا حصہ بنتا ہے جسے خود ہماری تہذیبی زندگی اعتبار بخشتی ہے۔ لفظ کو کاٹنے سے زیادہ خوبصورت عمل ایک نئے لفظ کا اضافہ کر دینا ہے۔ جب مختلف آوازیں کبھی ایک ہی وقت میں اور کبھی وقفے کے ساتھ ہماری سماعت کا حصہ بنتی ہیں تو زندگی گنگنانے لگتی ہے۔ یہ وہ زندگی ہے جو لفظوں کی آوازوں سے مل کر بنی ہے اور یہ آوازیں تہذیبی سطح پر ایک طویل سفر طے کر چکی ہوتی ہیں۔
آوازوں اور مختلف آوازوں سے گھبرانے والے لوگ دراصل انسانی اور تہذیبی زندگی کے اختلافات کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ ایک زندگی میں ایک شخص کتنے الفاظ استعمال کر سکتا ہے۔ اگر اس سوال پر غور کریں تو یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے کہ ایک ذمہ دار شخص کے طور پر ہمیں لفظوں اور آوازوں کا احترام کرنا چاہئے۔ جب مختلف افراد مختلف لفظوں اور آوازوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو گویا ہم ایک وسیع و عریض دنیا میں جی رہے ہوتے ہیں ۔ جنگ کی تاریخ چاہے جس زبان میں لکھی جائے وہ جنگ کی سفاکیت کو مکمل طور پر گرفت میں لینے سے قاصر ہے۔ بعض ادیبوں نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ جنگ کی تاریخ لکھنے سے حاصل کیا ہے۔ انسانی زندگی کی بے حرمتی کو تاریخ شدت کے ساتھ لکھ سکتی ہے نہ محسوس کر سکتی ہے۔ تاریخ کا عمل خود ہی ایک سفاکانہ عمل ہے۔ جنگ کی ہوا پہلی مرتبہ کہاں سے چلی اور اس کا پہلا پڑاؤ کہاں تھا، جنگ کی ہوا کو ہواؤں میں تبدیل ہونے میں کتنا وقت لگا۔ جنگ کی پہلی زمین اور جنگ کا وہ پہلا ذہن جس نے جنگ کا خاکہ تیار کیا۔ ان سب کی تاریخ جس زبان میں لکھی جائے گی وہ کیسی ہوگی۔ بی بی سی نیوز نے پچھلے مہینوں اور برسوں میں جو خبریں شائع یا نشر کی ہیں انہیں پڑھیے تو جنگ کی موجودہ صورتحال کو ایک تاریخی سیاق ملتا ہوا دکھائی دے گا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم سے پہلے اور اس کے بعدانسانی ذہن نے انسانی زندگی کی بے حرمتی کا خاکہ کب، کہاں اور کیسے تیار کیا۔ دیکھتے دیکھتے شہر کس طرح بے چہرہ ہو جاتے ہیں ۔ جنگ اور اس کی تاریخ لفظ کی محتاج ہے۔