Inquilab Logo

’وسودیو کٹمبکم‘ یا ’مودی کا پریوار‘، حکومت کس کی تائید کرے گی؟

Updated: March 10, 2024, 5:55 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai

یہ اندھ بھکتوںکا اپنا ’پریوار‘ ہے جس پر وزیراعظم نے ۲۰۱۴ء کے بعد سے اب تک خاموشی اختیار کررکھی ہے اور اسی خاموشی کا نتیجہ ہےکہ عوام کے کئی طبقات اس پریوار سے دور ہوتے جارہے ہیں اورکچھ آنے والے دنوں میں دور ہوجائیں گے۔

Prime Minister Narendra Modi. Photo: INN
وزیر اعظم نریندر مودی۔ تصویر : آئی این این

 قومی سیاست میں لالو پرسادیادو کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ وہ جب کسی موضوع پراپنی بات رکھتے ہیں تو بے باکی سے رکھتے ہیں۔ ان کی تقریر کا اپنا دلچسپ انداز ہےجس کے قائل ان کے مخالفین بھی ہیں۔ گزشتہ دنوں پٹنہ میں منعقدہ تیجسوی یادو کی ’جن وشواس ریلی‘ میں لالوایک بارپھر اپنے اسی تیور میں نظر آئے اوروزیر اعظم مودی کو اس طور نشانہ بنایا کہ اندھ بھکتوں کووزیراعظم کی حمایت میں ایک مہم شروع کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ سوشل میڈیا پر یہ مہم ’مودی کا پریوار‘ کے عنوان سے چلائی جارہی ہے۔ پٹنہ میں جن وشواس ریلی کے تیسرے مرحلےکے آغازکے موقع پرراہل گاندھی، تیجسوی یادو، ملکارجن کھرگے اور اکھلیش یادوبھی موجودتھے۔ لوک سبھا انتخابات سے قبل یہ ریلی ’انڈیا اتحاد ‘ کے ایک پلیٹ فارم پر آنے کا اشارہ تھی۔ اس میں آر جے ڈی چیف لالوپرساد یادو نےبی جےپی لیڈروں اور بالخصوص مودی کے اپوزیشن پراقرباپروری یا پریوار وادیا ونش وادکوبڑھاوا دینے کے الزام کا جواب د یا تھا۔ لا لویادو نے کہا تھا کہ’’ مودی جی خاندانی سیاست کی بات کرتے ہیں، یہ خاندانی سیاست کیا ہے، مودی جی کو اس کی وضاحت کرنی چاہئے کہ ان کی کوئی اولاد کیوں نہیں ہے؟یہ سوال بظاہربالکل ذاتی نوعیت کا تھالیکن وزیر اعظم اور ان کی پارٹی کے لیڈروں کے ذریعےمسلسل لگائے جارہے ایک الزا م کا بے ساختہ جواب تھا۔ اس کے علاوہ چونکہ یہ بات لالونے اپنے مخصوص اندا ز میں کہی تھی، اسلئے اس کی شدت بھی دبی رہ گئی اورچونکہ یہ بات لالو یادو نے کہی تھی، اسلئےیہ دیکھتے ہی دیکھتے قومی موضوع بھی بن گیا اور ’مودی کا پریوار‘ بھی کھڑا ہوگیا ! کہا جاسکتا ہےکہ لالو نے بی جے پی کے اندھ بھکتوں کو کام پر لگا دیا ہے۔ 
 سوشل میڈیا پر’ مودی کا پریوار‘ مہم کافی تیز ی سے فروغ پا رہی ہے۔ ’مودی پریوار‘ ہے کیا ؟ اس میں کون کون ہیں ؟کس کا کس سے کیا رشتہ ہے ؟ یہ کچھ بھی واضح نہیں ہے مگر پھر بھی بہت کچھ واضح ہے۔ یہ بس اندھبھکتوں کے مفروضے ہیں جو لالو یادوکے جواب میں کھڑے کئے گئے ہیں۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ وزیر اعظم مودی نے ذاتی طور پر لالو یادو کی تنقیدوں کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ وہ اب اپوزیشن کو کوئی جواب دینا ضروری نہیں سمجھتے، وہ حزب اختلاف کو لائق اعتنا نہیں سمجھتے کیونکہ انہیں بھی معلوم ہےکہ اندھ بھکت یہ کام بہت بہتر طریقے سے کرسکتے ہیں اوراندھ بھکت بھی انہیں مایوس نہیں کرتے۔ بہر حال ’مودی کا پریوار‘ پر بحث بے معنی نہیں ہے۔ اس میں کئی پہلو چھپے ہوئے ہیں۔ یہ سب جب ایک ایک کرکے سامنے آئیں گے تو یہ ’پریوار‘ پھر’پریوار‘نظر نہیں آئے گا بلکہ اس کی حیثیت مفاد پرستوں کے کسی ادارےکی ہوگی !!

یہ بھی پڑھئے:حکومت کسانوں سے خوفزدہ اورگھبرائی ہوئی کیوں ہے، انہیں ’دشمن فوج‘ کیوں سمجھ رہی ہے ؟

 سب سے پہلے یہ کہ ’مودی پریوار‘میں بے روزگاروں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ وہ کہیں بھی رہیں، اس پریوار میں نہیں آسکتے۔ بے روزگار اس پریوارمیں نہیں ہیں، اس لئے سڑکوں پر ہیں۔ گزشتہ دنوں ناگپور میں ایسے ہی بے روزگاروں نے اپنی بارات نکالی تھی۔ انہوں نے پلے کارڈ اٹھا رکھا تھاجس پرلکھا تھا ’ میں بے روزگاردُولہا‘۔ یو پی میں ٹیچر بھرتی کے ہزاروں امیدوارمہینوں سے احتجاج کررہے ہیں، انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ وہ تقرری چاہتے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے انہیں کوئی جواب نہیں دیا جارہا ہے۔ عہدے خالی پڑے ہیں مگر تقرری کے امیدوار سڑک پر ہیں۔ مختلف ریاستوں میں لاکھوں کروڑوں کے پروجیکٹوں کا افتتاح کرنے اور سنگ بنیاد رکھنے والے وزیر اعظم نے ان بے روزگاروں کے تعلق سے کبھی کچھ کہا ہو، ہمیں یاد نہیں پڑتا۔ ایسے موقع پر انہوں نے جب بھی خطاب کیا ہے، کانگریس کو نشانہ بنایا ہےاور چند اعدادوشمار کے حوالے سےبلند بانگ دعوے کئے ہیں۔ حالیہ متاثرین کے تعلق سے انہوں نے کبھی لب کشائی نہیں کی۔ 
 مودی پریوار میں کسانوں اور مزدوروں کیلئے بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔ کسانوں کو۲؍ سال سے بھی کم وقفے میں ۲؍ مرتبہ اپنے مطالبات کیلئے دہلی کی طر ف مارچ کرنا پڑا ہے۔ اس سے قبل تین زرعی قوانین تو واپس لے لئے گئےلیکن ایم ایس پی پر قانون بنانے کا وعدہ پورا نہیں کیاگیا جس کے نتیجے میں کسان کھیتی باڑی چھوڑکر دوبارہ سڑکوں پر اترنے پر مجبور ہوئے۔ وزیر اعظم مودی نےذاتی اور راست طورپرمظاہرہ کرنے والے ان کسانوں سے نہ پہلےکوئی گفتگو کی تھی، نہ اب۔ کیوں ؟کیونکہ مظاہرہ کرنے والے مودی پریوار میں شامل نہیں ہے، مظاہرہ کرنے والوں کی اس ’پریوار‘ میں کوئی حصہ دا ری نہیں۔ جو احتجاج پر اترآئے گا، ’پریوار‘ کا سربراہ ذاتی طورپراس سے کوئی رابطہ نہیں رکھے گا لیکن جب کوئی خوش کن اعلان کرنا ہوگا تو ’پریوار کا سربر اہ ‘خود سامنے آکراعلان کرے گا، اپنا ئیت کا اظہار کرے گا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے گاکہ اس سے بڑھ کران پریواروالوں کا اپنا دوسرا کوئی نہیں۔ 
 مودی پریوار میں ’خاتون پہلوانوں ‘کیلئے بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون پہلوانوں کوجن سےکبھی خود وزیر اعظم مودی نے ملاقات کی تھی، انہیں احتجاج کے دوران گھسیٹ کرہٹایا گیا۔ وہ مہینوں جنسی زیادتی کے ملزم برج بھوشن شرن سنگھ کو سزا دینے کامطالبہ کرتے رہے لیکن ’پریوار‘ کے سربراہ نے ان کی ایک نہیں سنی۔ احتجاج کے دوران ان سے کوئی بات نہیں کی گئی۔ ملک کیلئے میڈل لا نے والے جب احتجاج کرنے لگےتو ان کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی۔ 
 سب سے بڑھ کرمسلمانوں کا معاملہ ہے جن کی اس نام نہاد ’پریوار ‘ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ دادری سے لےکر الور اور جھارکھنڈ تک یعنی اخلاق احمد سے لےکر پہلوخان اور تبریز انصاری تک اس ملک میں ۲۰۱۴ء کے بعد سے ہجومی تشدد کے سیکڑوں واقعات میں زیادہ ترمسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ معاملہ جب ایک سنگین قومی مسئلے کی صورت اختیار کرچکا تب کہیں جا کر گزشتہ پارلیمانی اجلاس میں نئے تعزیری قوانین منظور کئےگئےاور ان میں ہجومی تشدد کےتعلق سے عمر قید کی سزا سے لے کر سزائے موت تک کا التزام ر کھا گیا لیکن اتنے برسوں میں وزیر اعظم مودی نے ہجومی تشدد میں مارے گئے کسی بھی فرد کے اہل خانہ سے ملاقات نہیں کی۔ یہ واقعات نفرت کی سیاست کا نتیجہ تھے جو وزیر اعظم کی ہی پارٹی کے بعض لیڈروں کے بیانات اور تقریروں کے سبب پروان چڑھی تھی۔ لیکن اس پریوار میں ایسی کسی بات پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی !اس دوران گجرات فسادات کی متاثرہ بلقیس بانوکا کیس سرخیوں میں رہا۔ وہ خاتون ناانصافیوں کا مسلسل کرب برداشت کرتی رہی، لیکن اس ’پریوار‘ کے سربراہ نے اس خاتون کے بارے میں کبھی کوئی بات نہیں کی!کیوں ؟کیوں کہ بلقیس بانو اس ’پریوار‘ کا حصہ نہیں ہیں۔ 
 گزشتہ سال جی ۲۰؍کی صدارت ہندوستان کو ملی تھی۔ اس کی میزبانی کیلئے حکومت نے ایک نعرہ دیا تھاوسودیو کٹمبکم (اس کا ترجمہ مولانا حالی کے الفاظ میں بالکل موزوں نظرآتا ہے’کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا‘)، یعنی دنیا ایک خاندان کی طرح ہے۔ وزیر اعظم مودی اوران کی پارٹی اپنے آپ کو جب عالمی اسٹیج پرپیش کرتی ہے توپوری دنیا کو ایک خاندان ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہےلیکن جب انتخابی سیاست کی حدپر اُتر آتی ہےتو ملک کے مسلمانوں کو کوئی حیثیت نہیں دیتی۔ یہ کیسا ’مودی پریوار‘ ہے؟ شکر ہے ایسے کسی پریوارکا مودی نے اعلان کیا ہے نہ دعویٰ، ورنہ وہ براہ راست ان سوالات کی زد میں آتے۔ یہ اندھ بھکتوں کا اپنا ’پریوار‘ ہے جس پر وزیراعظم نے ۲۰۱۴ء کے بعد سے اب تک خاموشی اختیار کررکھی ہے اور اسی خاموشی کا نتیجہ ہےکہ عوام کے کئی طبقات اس پریوار سے دور ہوتے جارہے ہیں اورکچھ آنے والے دنوں میں دور ہو جائیں گے۔ یہ بی جےپی اوروزیر اعظم مودی ہی کو واضح کرنا ہےکہ وہ وسودیو کٹمبکم کے حامی ہیں یا پھر’ مودی پریوار‘ کے؟ انہیں اندھ بھکتوں کو بھی یہ بتانا ہوگاکہ وسودیو کٹمبکم کے کیا معنی ہیں اور انہوں نے جو ’ مودی پریوار ‘کی اصطلاح وضع کی ہے اس کا کیا مطلب ہے؟

کچھ سوالات جن کے جواب نہیں مل رہے ہیں 
 کیا ملک کے وہ کسان بھی’مودی پریوار‘ کا حصہ ہیں جنہیں دہلی میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے سڑکوں پر کیلیں گاڑی گئی تھیں ؟ اور جن پر آنسو گیس کے گولے داغے گئے تھے اور پیلٹ گن چلائے گئے تھے؟
کیا منی پور میں رہنے والے بھی ’مودی پریوار‘ میں شامل ہیں جو گزشتہ کئی ماہ سے تشدد کے سائے میں جی رہے ہیں اور اب تک سیکڑوں جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں ؟ 
کیا منی پور کی وہ دونوں خواتین بھی ’مودی پریوار‘ کا حصہ ہیں جنہیں برہنہ کر کے پریڈ کرایا گیا تھا ؟جن سے وزیراعظم نے ملاقات تو دور، بات تک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ 
 کیا وہ خاتون پہلوان بھی ’مودی پریوار‘ میں ہیں جن کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اورجنہیں انصاف کیلئے احتجاج کرنا پڑا لیکن انصاف تو دور، انہیں احتجاج بھی کرنے کی اجازت نہیں دی گئی؟
کیا ملک کے مسلمان بھی مودی کے۱۴۰؍ کروڑ پریوار میں شامل ہیں جن کے ساتھ قدم قدم پر ناانصافی ہوتی ہے لیکن وزیراعظم اس پر ایک لفظ نہیں بولتے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK