Inquilab Logo

ووٹر آئی ڈی اور آدھار

Updated: December 24, 2021, 7:28 AM IST | Mumbai

حکومت کے پاس عددی قوت ہے جو بڑی نعمت ہے۔ اس کی قدر کی جانی چاہئے۔ اس کے سبب جمہوریت کو فروغ حاصل ہونا چاہئے نہ کہ ایسی صورت حال پیدا ہو کہ جمہوریت کا سانس لینا مشکل ہوجائے۔

How transparent will linking voter ID to Aadhaar or linking Aadhaar to voter ID make electoral rolls?
ووٹر آئی ڈی کو آدھار سے یا آدھار کو ووٹر آئی ڈی سے جوڑنا انتخابی فہرستوں کو کتنا شفاف بنادے گا

حکومت کے پاس عددی قوت ہے جو بڑی نعمت ہے۔ اس کی قدر کی جانی چاہئے۔ اس کے سبب جمہوریت کو فروغ حاصل ہونا چاہئے نہ کہ ایسی صورت حال پیدا ہو کہ جمہوریت کا سانس لینا مشکل ہوجائے۔ عددی قوت کا فائدہ یہ ہے کہ حکومت کسی بھی مسودۂ قانون یا بل پر ایک گھنٹے کے بجائے پورے ایک دن کی بحث کروالے تب بھی بل کے منظور کروانے کا پورا اختیار اُس کے پاس رہتا ہے۔  وہ اپوزیشن کی رضامندی کے بغیر بھی بل پاس کروانا چاہے تو عددی قوت کی بناء پر ایسا کرنے کیلئے مختار ہے۔ اس لئے اسے بحث و مباحثہ سے فرار اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ اس کی کوشش ہونی چاہئے کہ ہر بل پر مفصل گفتگو ہو اور یہ فراخدلی اپنے آپ میں ایک ریکارڈ بنے تاکہ یہ کہہ سکے کہ ایک ایک بل پر جتنا بحث و مباحثہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، وہ اس حکومت کے دور میں ہوا۔ مگر، حکومت کا عاجلانہ طرز عمل ہے کہ بحث و مباحثہ کی جمہوری اساس ہی کو نابود کرنے کے درپے ہے۔ اس کی تازہ مثال ووٹر آئی ڈی کو یونیک آئی ڈی (آدھار) سے جوڑنے کیلئے پیش کیا جانے والا بل ہے جسے محض ۲۳؍ منٹ میں صوتی ووٹوں سے پاس کروا لیا گیا۔ پارلیمانی اجلاس اختتام کے قریب پہنچ چکا ہو ایسا بھی نہیں تھا۔ پورے دو دِن باقی تھے اس کے باوجود یہ بل نہایت عجلت میں پاس کیا گیا جس سے ایک بار پھر اپوزیشن کی حق تلفی ہوئی اور اپوزیشن سے زیادہ عوام کی۔ اگر بحث ومباحثہ ہوتا اور ہر پارٹی کے نمائندہ کو اپنی بات رکھنے اور پیش کردہ نکات و دلائل کو ملک کے ۱۳۰؍ کروڑ عوام تک پہنچانے کا موقع پیدا کیا جاتا تو ایک اہم بل صلاح و مشورہ اور بحث و مباحثہ کے بغیر منظور نہ ہوجاتا۔
 ویسے،   اس تعلق سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا مگر ماضی کی مثال سے بہت کچھ معلوم ہوتا ہے۔ یہ مثال رائے دہندگان کی محرومی ظاہر کرتی ہے۔ ۲۰۱۵ء میں الیکشن کمیشن نے آندھرا اور تلنگانہ میں ووٹر آئی ڈی سے آدھار کو جوڑا تھا مگر اس کے نتیجے میں ۵۵؍ لاکھ رائے دہندگان اپنا جمہوری حق ادا کرنے سے محروم رہ گئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ جعلی ووٹر تھے؟ اتنی بڑی تعداد میں جعلی ووٹر رہے ہوں یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔ مگر رائے دہندگان کو اس محرومی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دو ریاستوں میں اس تجربہ کی ناکامی کے باوجود حکومت اس مقصد کو کیوں حاصل کرنا چاہتی ہے اور الیکشن کمیشن کو اس پر اعتراض کیوں نہیں ہے یہ ناقابل فہم ہے۔ اپوزیشن کے ناقدین کا کہنا ہے کہ جب ۲۰۲۰ء میں بی جے پی کے رکن پارلیمان بھوپندر یادو کی سربراہی میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ۲۵؍ اراکین کی ایک کمیٹی نے اس پر گفت و شنید کی تھی، تب اپوزیشن کے لوگ کیوں خاموش رہے اور اب کیوں بول رہے ہیں؟ تو کمیٹی میں شامل بعض اراکین کے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُنہیں اختلاف تھا یا اُن کے سامنے پوری تصویر نہیں آئی تھی۔ رہا یہ سوال کہ آدھار اور ووٹر آئی ڈی کا مربوط کیا جانا کتنا بامعنی ہے تو اس کا جواب ندارد ہے کیونکہ آدھار ہر جگہ لازم قرار دے دیا گیا، تب بھی اس کا اپنا آدھار مضبوط نہیں ہے۔ سپریم کورٹ ستمبر ۲۰۱۸ء میں اسے ’’غیر لازم‘‘ (Not Mandatory) قرار دے چکا ہے۔ حکومت خود بھی اسے شناختی کارڈ تسلیم نہیں کرتی۔ اب بھی اس نے آدھار اور ووٹر آئی ڈی کے انضمام کو ’غیر لازم‘ یا اختیاری ہی کہا ہے اسلئے یہ سوال زیادہ قوی ہوجاتا ہے کہ انہیں مربوط ہی کیوں کیا جائے؟ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK