Inquilab Logo Happiest Places to Work

فرانس ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا، متعدد ممالک نے خیرمقدم کیا، اسرائیل اور امریکہ برہم

Updated: July 25, 2025, 5:59 PM IST | Gaza/Paris

فرانسیسی صدر میکرون نے ایکس پر اپنے اعلان میں کہا، ”مشرق وسطیٰ میں ایک منصفانہ اور پائیدار امن کے ہمارے تاریخی عزم کے تحت، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ فرانس ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرے گا۔“

French President Emmanuel Macron and Mahmoud Abbas. Photo: X
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور محمود عباس۔ تصویر:ایکس

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے جمعرات کو اعلان کیا کہ فرانس، ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں باضابطہ طور پر ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرے گا۔ اس اہم فیصلے کی کئی یورپی و عرب ممالک اور فلسطینی حکام نے بڑے پیمانے پر ستائش کی ہے لیکن اسرائیل کی جانب سے شدید ردعمل اور امریکہ کی جانب سے فرانس کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

صدر میکرون نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے اعلان میں کہا، ”مشرق وسطیٰ میں ایک منصفانہ اور پائیدار امن کے ہمارے تاریخی عزم کے تحت، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ فرانس ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرے گا۔“ میکرون نے واضح کیا کہ فرانس حماس کے بغیر ایک فلسطینی ریاست کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے اسرائیل کے امن اور سلامتی کے حق کی حمایت کا اعادہ کیا اور امید ظاہر کی کہ یہ اقدام عرب ریاستوں کو بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ترغیب دے گا۔

یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی حملوں اور ناکہ بندی سے غزہ میں حالات دگرگوں،مزید ۸۹؍افراد شہید

فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں-نوئل بیروٹ نے اس سفارتی اقدام کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یروشلم میں فرانس کے قونصل نے پہلے ہی صدر میکرون کا خط فلسطینی اتھارٹی کو پہنچا دیا ہے۔ بیروٹ نے مزید کہا کہ ”میں پیر کو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے اس عزم کی تصدیق کروں گا۔“ یورپ میں سب سے بڑی یہودی اور مسلم آبادی کا گھر ہونے کے ناطے، فرانس پہلی بڑی مغربی طاقت بن جائے گا جو فلسطینی ریاست کو تسلیم کریگی۔ فرانس کا یہ اقدام اب تک چھوٹے ممالک کے زیر تسلط تحریک کو مزید تقویت دے سکتا ہے۔

فرانس نے سعودی عرب کے ساتھ مل کر ۲۸-۲۹ جولائی کو اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کی تشکیل کیلئے ایک روڈ میپ کی وضاحت کرنے کیلئے ایک بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کے منصوبے کا بھی اعلان کیا۔ یہ کانفرنس ابتدائی طور پر امریکی دباؤ اور علاقائی تنازعات، جن میں ۱۲ دنوں تک چلنے والی اسرائیل-ایران فضائی جنگ، کی وجہ سے ملتوی کر دی گئی تھی۔ فی الحال، اقوام متحدہ کے ۱۹۳ رکن ممالک میں سے ۱۴۹ ممبران پہلے ہی ریاستِ فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کر چکے ہیں۔ میکرون کا فیصلہ بہت سے لوگوں کی نظر میں دو ریاستی حل کیلئے ایک تحریک پیدا کرنے کا اقدام سمجھا جاتا ہے، جس پر انہوں نے زور دیا کہ اس کا ”کوئی متبادل نہیں“ ہے۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ کیلئے امید کی بوتل: اناج سے بھری پلاسٹک کی بوتلیں بحیرۂ روم کے حوالے

فلسطینی حکام نے خیر مقدم کیا

فلسطینی حکام نے اس اعلان پر فوری طور پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے فرانسیسی اقدام کا خیرمقدم کیا۔ فلسطینی اتھارٹی کے سینیئر عہدیدار حسین الشیخ نے کہا کہ یہ اقدام ”بین الاقوامی قانون اور فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت اور ہماری آزاد ریاست کے قیام کیلئے فرانس کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔“ 

حماس نے اس فیصلے کو ”صحیح سمت میں ایک مثبت قدم“ قرار دیا اور کہا کہ یہ اقدام ”قبضہ شدہ تمام فلسطینی سرزمین پر، یروشلم کو اس کے دارالحکومت کے طور پر، ہمارے عوام کے حق خود ارادیت اور ایک آزاد ریاست کے قیام کی حمایت“ کرتا ہے۔ گروپ نے مزید کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا ”ایک ایسی سیاسی پیش رفت ہے جو فلسطینی کاز کی انصاف پسندی میں بڑھتے ہوئے بین الاقوامی یقین کی عکاسی کرتی ہے۔“ فلسطین نژاد فرانسیسی اور یورپی پارلیمنٹ کی رکن ریما حسن نے میکرون کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ کوئی احسان نہیں، بلکہ ایک فریضہ ہے۔“ انہوں نے اس موقع پر فرانسیسی حکومت کے دہرے معیار کو بھی نشانہ بنایا اور اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ”ایک طرف وہ حماس کے غیر فوجی ہونے کی شرائط عائد کر رہا ہے اور دوسری طرف اسرائیل کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ ”فلسطینی کبھی بھی مسلح مزاحمت سے دستبردار نہیں ہوں گے جب تک اسرائیل فلسطینی سرزمین پر قبضہ اور آبادکاری جاری رکھے گا۔“

یہ بھی پڑھئے: عارضی جنگ بندی ناکافی: اقوام متحدہ میں ہندوستان کا مستقل غزہ جنگ بندی کا مطالبہ

عرب اور یورپی ممالک کا مثبت ردعمل

اس اعلان کی دنیا بھر کے مختلف ممالک نے بھرپور حمایت کی۔ سعودی وزارت خارجہ نے صدر میکرون کے اعلان کا خیرمقدم کیا اور اسے ایک ”تاریخی فیصلہ“ قرار دیا جو فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کیلئے بین الاقوامی حمایت کو تقویت دیتا ہے اور بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہے۔ سعودی عرب نے اپنے مطالبہ کو دہراتے ہوئے کہا کہ دیگر تمام ممالک، جنہوں نے ابھی تک ریاستِ فلسطین کو تسلیم نہیں کیا ہے، بھی ایسے ہی مثبت اقدامات کریں۔ اردن کی وزارتِ خارجہ نے بھی اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ”دو ریاستی حل کو نافذ کرنے اور قبضے کو ختم کرنے کی سمت ایک قدم“ قرار دیا۔ 

یورپی لیڈران نے بھی فرانس کے اقدام کی حمایت کی۔ آئرلینڈ کے وزیر اعظم سائمن ہیرس نے ایکس پر لکھا کہ ”میں صدر میکرون کے اس اعلان کا خیرمقدم کرتا ہوں کہ فرانس ستمبر میں فلسطین کو تسلیم کرے گا۔ یہ دو ریاستی حل کو نافذ کرنے کی طرف ایک اہم قدم ہے جو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کیلئے امن اور سلامتی کی واحد پائیدار بنیاد پیش کرتا ہے۔“ ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز، جن کے ملک نے پہلے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے، نے کہا کہ ”میں فرانس کے ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرکء اسپین اور دیگر یورپی ممالک کے ساتھ شامل ہونے کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ ہمیں مل کر اس کو بچانا ہے جسے نیتن یاہو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دو ریاستی حل ہی واحد حل ہے۔“ اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر جان سونی نے مزید کہا کہ برطانیہ کو آج رات فرانس کی مثال کی پیروی کرنی چاہئے اور ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرنا چاہئے۔ یہ امن کے قیام کیلئے ضروری ہے۔ جنگ بندی اور انسانی امداد ابھی شروع ہونی چاہئے۔“

یہ بھی پڑھئے: غزہ کی ۸۵؍ فیصد آبادی ناقص تغذیہ کے ۵؍ ویں اور سب سے خطرناک مرحلہ میں: ماہرین

اسرائیل شدید برہم، فرانسیسی اقدام کی سخت مخالفت کی

فرانس کے اعلان پر اسرائیل نے شدید مذمت اور غصے کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے اس اعلان کو ”دہشت گردی کا انعام“ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ ”ایک اور ایرانی پراکسی بنانے کا خطرہ پیدا کرے گا جیسا کہ غزہ بن گیا۔“ انہوں نے زور دیا کہ ان حالات میں ایک فلسطینی ریاست، اسرائیل کو تباہ کرنے کا ایک لانچ پیڈ ثابت ہوگی نہ کہ خطہ میں امن کو فروغ دے گی۔ نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ ”فلسطینی اسرائیل کے ساتھ ایک ریاست نہیں چاہتے، وہ اسرائیل کی جگہ ایک ریاست چاہتے ہیں۔“ 

اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاتز نے اس اقدام کو ”شرمناک اور دہشت گردی کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف“ قرار دیا اور مزید کہا کہ ”اس اہم لمحے میں اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے، فرانسیسی صدر نے ہمیں کمزور کرنے والا قدم اٹھانے کا انتخاب کیا ہے۔ ہم کبھی بھی ایسی فلسطینی ریاست کو بننے نہیں دیں گے جو ہمارے وجود کو خطرے میں ڈالے۔“ 

اسرائیلی وزیر انصاف یاریو لیون نے میکرون کے اقدام کو ”فرانسیسی تاریخ میں ایک شرمندگی“ قرار دیا اور انتقامی کارروائی کے طور پر اسرائیل سے مغربی کنارے کی بستیوں کو ضم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ”اب وقت آگیا ہے کہ یہودا اور سامریہ پر خودمختاری کا اطلاق کیا جائے۔“ اسرائیلی بستیوں کی نمائندگی کرنے والی ییشا کونسل نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس علاقے پر اسرائیلی خودمختاری کو وسعت دے۔ 

یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی پارلیمنٹ کا مقبوضہ مغربی کنارے کے الحاق کے حق میں ووٹ،عرب ممالک کی مذمت

امریکہ نے میکرون کے فیصلے کو مسترد کیا

اسرائیل کے دیرینہ حلیف امریکہ نے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے اعلان پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جمعہ کی دیر رات ایکس پر لکھا کہ ”امریکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے ایمانوئل میکرون کے منصوبے کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔ یہ لاپرواہی پر مبنی فیصلہ، صرف حماس کے پروپیگنڈے کو تقویت دیتا ہے اور امن کو پیچھے دھکیلتا ہے۔“ انہوں نے ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو فلسطینی مزاحمتی گروپ کی جانب سے کی گئی سرحد پار کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ”یہ فیصلہ، ۷ اکتوبر کے (اسرائیلی) متاثرین کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔“

اسرائیل میں امریکی سفیر مائیک ہکابی نے میکرون کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلے کا مذاق اڑاتے ہوئے ایکس پر لکھا کہ ”میکرون کے ’فلسطینی‘ ریاست کے یکطرفہ ’اعلان‘ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کہاں ہو گی۔ میں اب خصوصی طور پر یہ انکشاف کر سکتا ہوں کہ فرانس، فرانسیسی رویرا کی پیشکش کرے گا اور نئی قوم کا نام `فرینک-این-سٹائن` ہو گا۔“

یہ بھی پڑھئے: ”اب کام کرنے کی طاقت نہیں رہ گئی“: غزہ کے فاقہ زدہ صحافی کی فریاد پر عالمی خبر رساں ادارے کی مداخلت

غزہ میں انسانی صورتحال سنگین

میکرون کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان غزہ میں جاری اور شدید انسانی بحران کے درمیان آیا ہے جہاں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اکتوبر ۲۰۲۳ء سے اب تک ۵۹ ہزار ۵۰۰ سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ فلسطین کی وفا نیوز ایجنسی کے مطابق، تقریباً ۱۱ ہزار فلسطینی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اموات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ۲ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اس نسل کشی کے دوران، اسرائیل نے محصور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کی تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ اسرائیلی قابض افواج کی مسلسل بمباری کے باعث غزہ پٹی میں خوراک کی شدید قلت اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ: خون کی شدید کمی سے زخمیوں کی چند منٹوں میں موت ہوجاتی ہے: رپورٹ

گزشتہ نومبر میں، بین الاقوامی فوجداری عدالت نے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تھے۔ اسرائیل اپنی جنگ کیلئے بین الاقوامی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمہ کا بھی سامنا کررہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK