Inquilab Logo

ہم اور ہماری زبانیں

Updated: February 23, 2020, 9:20 AM IST | Editorial

 مادری زبانوں کی اہمیت سمجھانے سے زیادہ سمجھنے کی چیز ہے۔ بچہ ابتدائی عمر ہی سے آس پاس کی زبان کو ازخود سیکھتا ہے۔ جو زبان وہ سیکھتا ہے وہ اس کے گھر کی زبان ہوتی ہے۔ چونکہ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے اس لئے بچہ سب سے پہلے جو زبان سیکھتا ہے وہ اُس کی ماں کی زبان ہوتی ہے۔ اسی لئے، اسے مادری زبان کہا جاتا ہے۔ انسان جس طرح اپنی ماں سے محبت کرتا ہے بالکل اُسی طرح مادری زبان سے بھی محبت کی جانی چاہئےمگر زمانے کے تیور ایسے بدلے ہیں کہ مادری زبان کی جانب سے عوام کی بے رغبتی بڑھ رہی ہے جس کا ثبوت ہندوستانی زبانوں پر انگریزی کو فوقیت دینے کا مزاج ہے۔ 

ہم اور ہماری زبانیں ۔ تصویر : آئی این این
ہم اور ہماری زبانیں ۔ تصویر : آئی این این

 مادری زبانوں کی اہمیت سمجھانے سے زیادہ سمجھنے کی چیز ہے۔ بچہ ابتدائی عمر ہی سے آس پاس کی زبان کو ازخود سیکھتا ہے۔ جو زبان وہ سیکھتا ہے وہ اس کے گھر کی زبان ہوتی ہے۔ چونکہ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے اس لئے بچہ سب سے پہلے جو زبان سیکھتا ہے وہ اُس کی ماں کی زبان ہوتی ہے۔ اسی لئے، اسے مادری زبان کہا جاتا ہے۔ انسان جس طرح اپنی ماں سے محبت کرتا ہے بالکل اُسی طرح مادری زبان سے بھی محبت کی جانی چاہئےمگر زمانے کے تیور ایسے بدلے ہیں کہ مادری زبان کی جانب سے عوام کی بے رغبتی بڑھ رہی ہے جس کا ثبوت ہندوستانی زبانوں پر انگریزی کو فوقیت دینے کا مزاج ہے۔ کل تک  ہم اُردو کی محفلوں میں اُردو سے بڑھتی بے رغبتی کا رونا روتے تھے، آج ہر زبان کے اہل علم و دانش پریشان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی زبانوں پر ایک بڑا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ 
 بتایا جاتا ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک ملک کی ۲۵۰؍ سے زیادہ زبانیں (جن میں بولیاں بھی شامل ہیں) ختم ہوچکی ہیں۔ اس کے باوجود ان زبانوں کے بولنے اور سمجھنے والوں کو احساس نہیں ہے اور وہ اپنی زبان کے تحفظ کی فکر نہیں کررہے ہیں۔ شاید وہ نہیں جانتے کہ جب ایک زبان مرتی ہے تو بقول کسے ’’دُنیا کو دیکھنے کا ایک زاویہ ٔ نگاہ مرجاتا ہے۔‘‘ یاد رہے کہ عوام کے درمیان سے رخصت ہونے والی زبانیں اور بولیاں اپنے ساتھ درجنوں لسانی خصوصیات، تہذیبی ورثہ اور ابلاغ کا بیش قیمت اثاثہ بھی لے جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ ہزاروں اور لاکھوں الفاظ فوت ہوجاتے ہیں جو اس زبان میں بولے اور سمجھے جاتے تھے۔ یہی نہیں، ان الفاظ کی تہذیب بھی فنا ہوجاتی ہے لہٰذا نقصان محض الفاظ یا (اگر اس زبان کا کوئی رسم الخط تھا تو) صرف رسم الخط کا نہیں ہوتا بلکہ تہذیبی و ثقافتی رنگا رنگی کا بھی ہوتا ہے۔ اس درد اور کرب کو محسوس کئے بغیر اکثر لوگ فیشن زدگی کی وجہ سے، ہجرت کی وجہ سے یا زبانوں کے ذریعہ روزگار کےپُرکشش مواقع کی وجہ سے اپنی مادری زبان سے دور ہوجاتے ہیں۔ مسئلہ صرف زبانوں کا نہیں، بولی ٹھولی کا بھی ہے جن کے الفاظ سے وہ تمام زبانیں مستفید ہوتی ہیں جو اُن کے رابطے میں آتی ہیں مگر جب کوئی بولی فنا ہوتی ہے تو وہ الفاظ بھی روپوش ہوجاتے ہیں جو دیگر زبانوں کے رابطے میں آکر اُن زبانوں کو فائدہ پہنچاتے تھے۔ 
 ہمارے خیال میں چند ماہر لسانیات کے علاوہ ملک کی سوا سو کروڑ کی آبادی میں کوئی بھی نہیں جانتا کہ ملک میں کتنی زبانیں اور کتنی بولیاں باقی رہ گئی ہیں اور کتنی قصۂ پارینہ بن چکی ہیں۔ مسئلہ صرف ہندوستان کا نہیں۔ عالمی سطح پر بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے۔ روسی زبان کے اہل علم و دانش بھی، کم یا زیادہ، پریشان ہیں اور فرانسیسی زبان کے اہل علم و دانش بھی۔ گزشتہ ربع صدی میں  دُنیا کی بہت سی  زبانیں یاتو مرچکی ہیں یا جاں بلب ہیں۔ یہ اپنے ہی اثاثہ سے ناواقفیت اور اپنی ہی طاقت کو نہ سمجھ پانے کا نتیجہ ہے جس کے سبب ہم اپنی ہی ناقدری کے مرتکب ہوتے ہیں مگر کون سمجھائے اور کس کو سمجھائے۔ستم بالائے ستم، تکنالوجی کے اس دور میں تو انگریزی کو پھلنے پھولنے اور پھیلنے کا ایسا موقع مل گیا ہے کہ مادری زبانیں اور اُن سے سچی محبت کرنے والے حیران ہیں۔ 
 واضح رہے کہ ہمیں یا مادری زبان کی وکالت کرنے والے کسی بھی شخص کو انگریزی سے بیر نہیں ہے۔ نئی نسل کو انگریزی تو یقیناً سکھائی جانی چاہئے مگر مادری زبان کی قیمت پر نہیں۔ کوئی زبان مادری زبان کا متبادل نہیں بن سکتی۔ ہوٹلوں کے کھانوں کے شوقین اپنے گھر کا باورچی خانہ بند نہیں کردیتے، چنانچہ انگریزی کو اپنانے کیلئے مادری زبان کو ٹھکرانا عقلمندی نہیں۔ بنیادی اور ثانوی تعلیم مادری زبان ہی میں ہونی چاہئے۔ ذرا سوچئے، دو روز قبل جب عالمی یوم مادری زبان منایا جارہا تھا، کتنوں  نے یہ عہد کیا ہوگا کہ ہم اپنی زبان کے تحفظ کیلئے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK