Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ ہم نے ارتضیٰ نشاط کو دیکھا ہے‘‘

Updated: August 28, 2023, 3:19 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

نشاط صاحب کی شخصیت اور شاعری کےبارے میں مشاہیر ادب نے بہت کچھ لکھا ہے اور آگے بھی لکھا جاتا رہے گا لیکن ہم نے اس بات کا جائزہ لیا کہ وہ بحیثیت رُکن انقلاب کیسے تھے، اراکین انقلاب ندیم عصران ، احمد ضیاء انصاری ،نادر ، اقبال انصاری اور شیریں عثمانی سے گفتگو

Irtiza Nishat. Photo. INN
ارتضیٰ نشاط ۔ تصویر:آئی این این

 ارتضیٰ نشاط صاحب کے تعلق سے کچھ برس قبل ایک مضمون تحریر کیا گیا تھا جو اُن کی شخصیت اور شاعری دونوں کومکمل خراج عقیدت تحسین پیش کرنے والی تحریر تھی۔ اس میں مضمون نگار اعجاز ہندی نے لکھا تھا کہ ’’وارث علوی نے ارتضیٰ نشاط کو اردو ادب کا شاہ حاتم کہا۔ سکندر احمد نے امراء القیس کے لقب سے یادکیا۔ مولانا انجم فوقی بدایونی نے شاعر آتش ندا کہا۔ آوارہ سلطانپوری نے سیاسی اور سماجی طنز کا صورت گر سمجھا۔فضیل جعفری نے ارتضیٰ نشاط کی شاعری کو زندہ انسان کی شاعری بتایا۔ عبدالاحد ساز نے چلتی پھرتی رصد گاہِ خیال کہا۔ پرویز یداللہ مہدی نے دیٹ مین فرام استنبول کہا۔ انور خان نے برہنہ اسلوب کا شاعر کہا۔تنویرعالم جلگاؤنی نے شعری صلاحیتوں کا مستحکم اسلوب کہا۔ نظام الدین نظام نے زندگی کے مسائل کا شاعر کہا۔ جاوید ناصر نے زیر لب بلند آگہی کی تہہ نشین گونج کہا۔‘‘غرض نشاط صاحب کی شاعری اور ان کی شخصیت پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور آگے بھی کئی پہلوئوں سے روشنی ڈالی جاتی رہے گی لیکن ان کی شخصیت کا ایک پہلو اور بھی ہے جس پر گفتگو کم ہی ہوئی ہے۔ وہ شاعر تو تھے ہی لیکن اس کے ساتھ ہی ایک بلند پایہ صحافی بھی تھے ۔انہوں نے روزنامہ انقلاب میں کم و بیش بیس برس تک خدمات انجام دیں ۔ اس وقت انقلاب میں ممبئی کی ادبی کہکشاں کے تمام رنگ موجود تھے۔ اس دور میں نشاط صاحب کی ’نیوز روم‘ میں موجودگی اور ان کی افادیت کا ہم جیسے طفلان ِصحافت بس تصور ہی کرسکتے ہیں ۔ انہوں نے جو دور دیکھا اور جن افراد کے ساتھ کام کیا وہ عروس البلاد میں اردو کی ادبی و صحافتی زندگی کا زریں دور قرار دیا جاتا ہے۔ نشاط صاحب کی شخصیت کے اس اچھوتے پہلو کو جاننے اور اسے قارئین سے روشناس کروانے کیلئے ہم نے انقلاب کے اپنے ان ساتھیوں سے گفتگو کی جنہوں نے نشاط صاحب کے ساتھ کام کیا ہے ۔
  انقلاب کی رپورٹنگ ٹیم کے سینئررکن ندیم عصران نے نشاط صاحب کے ساتھ کام کرنے کے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھ جیسا طفل مکتب ان کے بارے میں کیاکہہ سکتا ہے۔ ارتضیٰ نشاط صاحب، جنہیں ہم لوگ پیار سے میاں بھائی بھی کہتے تھے ، کے بارے میں کچھ کہنا گویا سورج کو چراغ دکھانے کے برابر ہو گا۔ انقلاب میں بطور خاص ان کے ذمہ شہر کی علمی، تعلیمی اور سماجی سرگرمیوں کو `اطراف و اکناف ` کے نام سے دو صفحات پر ترتیب دینا تھا ۔ مَیں اس زمانے میں پلاسٹک کی شیٹ پر کاتبوں کے ہاتھوں تیار ہونے والی رپورٹوں کو نشاط صاحب کی سرپرستی میں ڈیزائن کیا کرتا تھا۔اس دوران کئی ایسے موقع آئے جب اردو ، فارسی اور انگریزی کے مشکل ترین الفاظ کے معنی شعبہ ادارت میں موجود سینئر ساتھی بھی نہیں بتاپاتے تھے لیکن محبت اور ایثار کے پیکر ’میاں بھائی‘ نہ صرف اس کے معنی بتا دیتے بلکہ اس لفظ کے سیاق و سباق پر بھی روشنی ڈالتے تھے۔ ان کے تعلق سے میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔‘‘
  انقلاب کی ڈیسک ٹیم کے سینئر رُکن احمد ضیا ءانصاری نے نشاط صاحب کی شاعری سے پہلی مرتبہ روشناس ہونے کا

واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ’’ملاڈ مالونی میں غالباً ۹۰ء کی دہائی میں ۲۶؍جنوری کا مشاعرہ تھا۔نشاط صاحب، جنہیں میں ہمیشہ ’سَر ‘ کہتا تھا ،سے قبل جس شاعر کو کلام پیش کرنے کیلئے کہا گیا وہ ترنم میں پڑھتے تھے۔مجھے یاد ہے اُس وقت امریکہ اور عراق کے درمیان جنگ جاری تھی۔اسی پس منظر میں ہمارے اس عزیز شاعر نے صدام حسین کی تعریف میں شعر پڑھا وہ بھی نہایت مسحور کن انداز میں ۔سامعین ان کے شعر کی داد کافی دیر تک دیتے رہے اور ان سے ہی پڑھنے کا اصرار کرتے رہے۔ بہرحال کچھ دیر بعد جب وہ اپنا کلام پیش کر کے جانے لگے تو نظامت کے فرائض انجام دینے والے شاعر نے نشاط صاحب کو دعوت دے دی لیکن سامعین ان سے پہلے والے شاعر کے نام کی رٹ لگا ئے ہوئے تھے۔ایسے حالات میں بھی نشاط صاحب نے مائک سنبھالا اور پہلا ہی شعر ایسا پڑھا کہ لوگ عش عش کراٹھے۔وہ شعر آج بھی ذہن میں تازہ ہے :
ہم کو معلوم ہے پانی پہ کھڑی ہے دنیا
ڈوبنا سب کا مقدر ہے ڈراتا کیا ہے
اس کے بعد انہوں نے جو شعر پڑھا اس سے نہ صرف قہقہے لگے بلکہ چھت اڑادینے والی داد بھی دی گئی ، وہ شعر تھا :
شاعری ہے کوئی نوشاد کا میوزک تو نہیں 
شعر اچھا ہے تو پھر گا کے سناتا کیا ہے
اس شعر کے بعدمبارک سلامت اور واہ واہ کے جو کلمے کہے گئے اور جتنی تالیاں بجیں اسے لفظو ں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ 
  ڈیسک ٹیم کے ایک اور اہم رُکن صہیرخان(نادر) نےنشاط صاحب کی شاعری اور ان کے پڑھنے کے انداز پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ’’۲۰۱۰ء میں رکن اسمبلی جتیندر اوہاڑ نے ممبرا میں یہ روایت ڈالی تھی (جو بعد میں بند ہوگئی)کہ متل گرائونڈ پر ہرسال ۲۴؍ دسمبر کو کل ہند مشاعرہ ہوگا۔ پہلا مشاعرہ تھا۔ ملک کے تقریباً تمام مشہور شعراءکو دعوت دی گئی تھی۔ راحت اندوری، عمران پرتاپ گڑھی، ماجد دیوبندی، منظر بھوپالی، لتا حیا جیسے مشاعروں کی دنیا کے مقبول نام اسٹیج پر جمع تھے۔ نشاط صاحب کا نام (شہر کی مناسبت سے) مقامی شاعروں میں لکھا ہوا تھا۔ توقع سے زیادہ بھیڑ تھی۔ صرف ممبرا نہیں بلکہ بھیونڈی ، کلیان ،ناگپاڑہ اورپتہ نہیں کہاں کہاں سے سامعین جوق درجوق چلے آ رہے تھے۔ ہم بھی چار چھ لوگ گروپ کی شکل میں پہنچ گئے تھے۔ ہماری توجہ اس بات پر مرکوز تھی کہ دیکھیں نشاط صاحب کیا پڑھتے ہیں ۔ وہ مشاعرہ ہر لحاظ سے یادگار تھا۔ سامعین نے خوب داد دی، منظر بھوپالی، ماجد دیوبندی اور لتا حیا نے اپنے اپنے حصے کی داد سمیٹی بلکہ لوٹی۔ عمران پرتاپ گڑھی نے اپنے اندازمیں تمہید باندھ باندھ کراشعار سنائے ۔ وہ بھی کامیاب رہے۔ جب ارتضیٰ نشاط کی باری آئی تو وہ باوجود پیرانہ سالی اورلڑکھڑاتی آواز کے اٹھے اور مائیک کے سامنے تن کر کھڑے ہو گئے ۔ سوٹ بوٹ پہنے جب وہ اسٹیج پر تن جاتے تھے تو خود بخود ایک رعب پیدا ہوتا تھا۔ ہم لوگوں کو تشویش تھی کہ کیا پتہ اتنے شور شرابے میں ٹھیک سے شعر سنا پائیں یا نہیں ؟ لیکن جب انہوں نے اپنے مخصوص تیور کے ساتھ ایک ایک کرکے اپنا کلام سناناشروع کیا تو جو انہیں جانتے تھے وہ جھومنے لگے اور جو نئی نسل کے لوگ ان سے ناواقف تھے (یا باہر سے آئے تھے) ان کے منہ سے نکلا’’ یہ کون ہیں   یار؟‘‘ پھر جب انہوں نے اپنا وہ ضرب المثل شعر پڑھا:
 کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے 
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے؟
 تو لڑکوں نے پورا پنڈال سر پر اٹھا لیا۔ نشاط صاحب کو خوب داد ملی ۔ ہمیں یاد ہے کہ جتیندر اوہاڑ اس وقت اسٹیج پر موجود تھے اور ہاتھ باندھے کھڑے تھے وہ باقاعدہ شعر سن کر اسی طرح ہاتھ باندھے ہوئے ہنسنے لگے۔ نشاط صاحب اپنا کلام سنا کر(گھر) چلے گئے۔ جب تمام شعراء باری باری اپنا کلام سنا چکے تو آواز دی گئی اس شام کے سب سے مقبول نام راحت اندوری کو۔ راحت اندوری کی یہ عادت تھی یاہنر ،کہ جب دیگر شعراء کو بہت زیادہ داد مل جائے تو وہ محض ایک فقرے یا ایک لطیفے سے ان شعراء کا پانی اتار دیتے تھے اور ماحول کو اپنے حق میں کر لیتے تھے۔ یہاں کئی شعراء کو داد ملی تھی۔ انہوں نے اٹھ کر صرف ایک جملہ کہا ’’دوستو! یہاں اب تک مشاعرہ نہیں ہوا ہے۔ اب تک صرف تماشہ ہوتا رہا۔‘‘ آگے کہنے لگے’’ یقین مانئے جتنی دیر وہ بزرگ شاعر ارتضیٰ نشاط اپنا کلام سنا رہے تھے بس وہی مشاعرہ تھا۔‘‘ راحت اندوری نے سب کے کئے کرائے پر مٹی ڈال دی تھی لیکن ارتضیٰ نشاط کو داد دیئے بغیر وہ بھی نہ رہ سکے۔ اتفاق سے دو تین دن بعد ہمارانشاط صاحب کے گھر جانا ہوا تو ہم نے چھیڑا ’’راحت اندوری نے ساری دنیا کو آپ کے سامنے ’ہیچ ‘کر دیا۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے’ ’ ہاں سنا میں نے.... چلو مجھے بھی سرٹیفکیٹ مل گیا۔‘‘ ہم نے کہا ’’ آپ کو نہیں راحت اندوری کو سرٹیفکیٹ مل گیا۔ وہ اکثر مشاعروں میں اس بات کو دہراتے ہیں کہ’میں نے ۱۵؍ سال شاعری پڑھائی ہے۔ مجھےمعلوم ہے شاعری کیا ہوتی ہے۔‘ آج یقین ہو گیا کہ راحت اندوری جانتے ہیں کہ شاعری کیا ہوتی ہے۔‘‘
  انقلاب کی رپورٹنگ ٹیم کے انچارج اقبال انصاری نے بتایا کہ ’’ارتضیٰ نشاط صاحب سے میرا تعلق۱۹۹۹ء میں انقلاب سے منسلک ہونے کے بعد ہوا تھا۔ اس وقت میں غالباً سب سے جو نیئر تھا اور نشاط صاحب ڈیسک کی ذمہ داری نبھاتے تھے۔ مجھ سے بہت سینئر ہونے ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی اپنے سینئر ہونے کا احساس نہیں دلایا ۔ میں نے انہیں کبھی کسی سے بحث میں الجھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اگر انہیں کسی کی غلطی نظر آتی تو وہ اصلاح کر دیتے تھے اور اس انداز میں اسے بتاتے تھے گویا اس سے لاعلمی میں یہ غلطی ہو گئی ہو۔ کسی لفظ کے بارے میں پوچھنے پر انتہائی شفقت سے آسان زبان میں سمجھا تے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ یہاں سب لوگ اخبار کا کام کرتے ہیں تو سب لوگ ساتھی ہیں ، کوئی چھوٹا یابڑا نہیں ہے۔ ان کی شخصیت کی اہم بات یہ بھی تھی کہ وہ غیر ضروری نصیحتیں نہیں کرتے تھے۔ سبکدوشی کے بعد جب کبھی ان کے گھر ان سے ملاقات کرنے گئے تب بھی ان کا رویہ مشفقانہ ہی رہا ۔ 
 انقلاب ڈیسک ٹیم کی سینئر رکن شیریں عثمانی نے نشاط صاحب کی پاٹ دار آواز پر تبصرہ کیا اور کہا کہ ’’ مجھے یاد ہے کہ ۲۶؍ سال پہلےان کی آواز میں جو گرج تھی وہ اس عمر میں بھی برقرار تھی ۔ اکثر قطعہ فون پر ہی لکھواتے تھے اس لئے جب بھی کوئی لفظ میری سمجھ میں نہ آتا وہ دوبارہ پڑھ کر سناتے اور اس کے معنی بھی بتاتے۔اس سے میرے علم میں اضافہ ہوتا۔کچھ مہینوں سے وہ وہاٹس پر قطعہ لکھ کر بھیجتے تھے اوربھیجنے کے بعد اگر کوئی غلطی ہوجاتی تو اس کی اصلاح کیلئے فون کرتے کہ یہ مصرعہ اوپر لے لو یا اس مصرعہ کو اس طر ح لکھ دو۔ یہ بھی کہتے کہ جب بھی تمہاری سمجھ میں نہ آئے تو پوچھ لیا کرو تاکہ غلطی کا کوئی امکان نہ رہے۔کبھی ایسا بھی ہوتا کہ قطعہ تبدیل کیاجاتالیکن انہیں کبھی کوئی شکایت نہیں ہوتی بلکہ وہ نہایت خوش دلی سے اسے تبدیل کردیتے تھے۔‘‘ شیریں عثمانی نے نشاط صاحب کی زود گوئی کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ برس قبل انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر انہوں نے پہلے ہی سے قطعہ بھیجا تھا مگر وہ سالگرہ کے موضوع پر نہیں تھا۔ میں نے انہیں فون کیا تو کہا کہ بس ابھی ۵؍ منٹ میں بھیج رہا ہوں اور واقعی پانچویں منٹ میں انہوں نے قطعہ بھیج دیا ۔ یہ ان کی خاصیت تھی کہجب بھی کسی خاص موقع پر قطعہ کی درخواست کی جاتی تو فوراً بھیج دیتے۔‘‘ شیریں کے مطابق جب بھی میرا روزنامچہ شائع ہوتا توپڑھ کر فون ضرورکرتے۔ کبھی میسیج کرکے بتاتے کہ تم نے حالات حاضرہ پر کافی اچھا لکھا ہے۔ایک مرتبہ رکشا ڈرائیور کی ایمانداری پر لکھا تو کہنے لگے کہ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ اس رکشے والے نے میرا بیگ پتہ معلوم کرکے گھر تک پہنچایا تھا۔ تعزیت کیلئے میں نے ان کی بہو کو فون کیا تو کہنے لگیں کہ انتقال سے کچھ دیر پہلے ا بانے مجھ سے کہا کہ میں آیت الکرسی پڑھ رہا ہوں تم سنو اگر کچھ غلطی ہوجائے تو بتا دینا۔ انہوں نے آیت الکرسی پڑھی، کلمہ طیبہ پڑھا اور ہم سبھی کو خوب دعائیں دیں ۔نشاط صاحب کو رخصت ہوئے ہفتہ گزر گیا ہےلیکن ایسا لگتا ہے کہ ابھی نشاط صاحب قطعہ بھیجیں گے یا فون کریں گے، پھر خیال آتا ہے کہ اب تو وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK