Inquilab Logo

ہمیں اُردو کے تئیں احساسِ کمتری سے باہر نکلنا ہو گا

Updated: January 16, 2023, 11:26 AM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

نوجوان شاعر و معلم محسن ساحل کے مطابق اردو بین الاقوامی زبان ہے اور یہ احساس ہم سب کو ہونا چاہئے۔ پیش ہے ’’انٹر ویو سیریز‘‘ کی چوتھی قسط

photo;INN
نوجوان شاعرمحسن ساحل

ادب نما پرنئے سلسلے کے تحت ہم ۱۰؍ نوجوان ادباء و شعراء سے گفتگو اپنے قارئین تک پہنچائیں گے ۔ اس سلسلے کی چوتھی قسط کے تحت ہم نوجوان شاعر محسن ساحل سے گفتگو آپ تک پہنچائیں گے ۔ محسن ساحل نئی نسل کے ابھرتے ہوئے شعراء میں سے ایک ہیں۔ وہ مہاراشٹر کے عمر کھیڑ(ضلع ایوت محل) میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی اور پھر بغرض ملازمت ایک دہائی سے زائد عرصہ سے ممبئی میں سکونت اختیار کئےہوئے ہیں ۔ ممبئی میونسپل کارپوریشن میں بطور معلم تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔شاعری کے علاوہ تحقیقی و تنقیدی مضامین اور کہانیاں بھی لکھتے ہیں۔ بطور ناظم اور مقالہ نگار مشاعروں اور ادبی سیمیناروں میں شرکت کرتے ہیں۔ ان کی شاعری روایتی اور جدید شاعری کا سنگم محسوس ہو تی ہے۔ انہوں نے نئے موضوعات کو برتنے کے ساتھ ساتھ اردو شاعری کے ان روایتی موضوعات کو بھی جگہ دی ہے جن کے بغیر غزل گوئی کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ان کی شاعری کی فی الحال کوئی کتاب منظر عام پر نہیں آئی ہے البتہ ان کے ذریعے ترتیب شدہ چار کتابوں کو اشاعت کا شرف حاصل ہوا ہے جن میں ہمہ آفتاب بینم، تحریر پس تحریر، یادوں کی روشنی اور نظیر کی نظمیں شامل ہیں ۔ علاوہ ازیں محسن ساحل کی شعری اور نثری تخلیقات مختلف رسالوں میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔پیش ہے ان سے گفتگو
آپ نے لکھنا کب سے سے شروع کیا ؟
 شروعات میں لکھتے وقت کیا دقتیں آئیں؟
 عمر کے ابتدائی دور ہی سےمجھے شاعری پڑھنے لکھنے کا شوق تھا لیکن گیارہویں بارہویں جماعت میں آتے آتے شاعرانہ مزاج بنتا چلا گیا۔ پہلے پہل تُک بندی اور شاعری میں زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا تھا۔ اس وقت ای ٹی وی اردو پر ہر سنیچر کی رات نو بجے سے محفل مشاعرہ نشر ہوتی تھی ۔ میں اور میری والدہ بلاناغہ محفل مشاعرہ دیکھا کرتے تھے۔ میں ان مشاعروں میں سنے ہوئے پسندیدہ اشعار ڈائری میں لکھ لیا کرتاتھا ۔ ایسی کچھ ڈائریاں اب بھی میرے پاس محفوظ ہیں ۔دراصل یہی وہ وقت تھا جب میں نے تک بندی اور شاعری کا فرق سمجھا اور مجھ میں باقاعدگی سے لکھنے کا رجحان تشکیل پایا۔ ایک مرتبہ کالج میں طلبہ کامشاعرہ منعقد کیا گیاتھا- اس دوران ساتھیوں کے اصرارپر میں نے اپنی لکھی ہوئی غزل پیش کی اور شاید بطور شاعر یہ میرا پہلا اسٹیج پرفارمنس تھا ۔طلبہ اور اساتذہ نے داد وتحسین سے نوازا۔ ہمارےایک استاذنے میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ایک لفافہ جس میں ۳۰۰؍ روپے تھے بطور تحفہ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ میں نے ان پیسوں سے ایک خوبصورت ڈائری خرید لی اور اس ڈائری میں اپنی پہلی غزل لکھی جو اس مشاعرے میں پیش کی تھی ۔ یہیں سے میرے شعری سفر کا آغاز ہوا ۔میری ابتدائی شاعری بحور اور اوزان سے عاری تھی۔ بحر کا علم نہ ہونے کی وجہ سے خیالات کو شعری پیکر عطا کرنا نہایت مشکل تھا۔ دھیرے دھیرے بحر اور وزن سیکھا۔ اسی عرصے میں میری ملاقات انگریزی کےلیکچرار اور معروف شاعر خان حسنین عاقب سے ہوئی۔ میں نے ان کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس کے بعد مجھے شاعری کا شعور آتا گیا۔ 
 لکھنےکیلئے صنف شاعری ہی کیوں منتخب کیا ؟
 جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ مجھے شاعری پڑھنے اور کہنے کا ذوق و شوق بچپن ہی سے رہا ہے۔ دھیرے دھیرے یہ شوق جنون میں بدلتا گیا ۔ میں جب بھی کوئی اچھا شعر سنتا یا پڑھتا وہ فوراً دماغ میں اٹک جاتا۔ اسکول کے زمانے سے میری عادت تھی کہ بہت سارے اشعار، غزلیں، نظمیں اور نعت زبانی یاد کرلیا کرتا تھا ۔ اسی مشق نے مجھے شاعری کی طرف مائل کیا ۔ 
 جب آپ کسی خیال کوشاعرانہ پیرائے میں  پیش کرتے ہیں تو اس وقت
 آپ کو سب سے زیادہ مدد کس سے ملتی ہے؟ 
  جب کوئی خیال شعری پیکر میں ڈھلنے کا تقاضہ کرتا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنے لئےقافیہ اور ردیف کو سہارا بناتا ہے ۔ چونکہ شاعری میں میرا میدان غزل ہے اس لئے عموماً دوسرا مصرعہ پہلے تخلیق پاتا ہے اور پہلا مصرعہ بعد میں۔ لیکن ہر شعر میں ایسا ہی ہو یہ ضروری نہیں ۔کسی خیال کو وسیع ترین شعری کینواس پر اتارنے کے لئے ذخیرۂ الفاظ کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے وقت میں مطالعہ ہی کام آتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں استاد شعراء یا اہم شعراء کے اسلوب اور انداز بیان سے آگاہی ہوتی ہے اور ہماری طبیعت اس خیال کے اظہار کیلئے آمادہ ہوجاتی ہے۔
 آپ کے استاد آپ کے رہنما ہیں یا آپ کا مطالعہ؟
 بیشک استاد اور مطالعہ دونوں ہی رہنما ہیں۔تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی انسان کے وجود کو سنوارنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے- اسی لئے کسی استاد کی تربیت کے بغیر صرف مطالعے کو کامل رہنمائی سمجھ لینا دانشمندی نہیں ہے۔ میری تربیت اور رہنمائی میں معروف شاعر خان حسنین عاقب نے کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔ علاوہ ازیں ناچیز کو غزل گوئی میں عبید اعظم اعظمی سے بھی شرف تلمذ حاصل ہے۔ 
بطور قلم کار مطالعہ کی اہمیت پر روشنی ڈالیں ـ ؟
 فطری طور پر مطالعہ تخلیقی عمل کی بنیادی ضرورت ہے۔ مطالعے کے بغیر ادب تخلیق کرنا نہایت بھونڈے شعری مذاق کی علامت ہے۔ شاعری یا کسی بھی صنف سخن میں اظہار خیالات کے لئے مطالعہ، مشاہدہ اور مشق نہایت ضروری ہوتے ہیں ۔ ان تینوں میں سب سے بنیادی جز مطالعہ ہے- اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مطالعے کے بغیر معیاری ادب تخلیق کرنا ممکن نہیں ہے۔
 آپ اپنےتخلیقی شعبے میں کسے اپنا آئیڈیل مانتے ہیں؟ 
  میں غالب کو اپنا آئیڈیل مانتا ہوں ۔ غالب کی غزلیں جتنی آسان محسوس ہوتی ہیں ان میںاتنا ہی اعلیٰ فلسفہ پوشیدہ ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ شاعری صرف اظہار خیال کا وسیلہ نہیں بلکہ فلسفہ ہے۔ ہر اچھا شعر یا تو فلسفہ ہوتا ہے یا کوئی تجربہ۔ شاعر کا کوئی بھی شعر اہم اور کم اہم نہیں ہوتا- اس کے جو اشعار دوسروں کو پسند آتے ہیں وہ فلسفیانہ ہوسکتے ہیں اور جو اشعار شاعر کو بھاتے ہیں وہ اس کے ذاتی تجربے کا حصہ ہوسکتے ہیں- غالب کی شاعری بھی ان دونوں عوامل کا خوبصورت امتزاج ہے ۔شاید اسی لئے غالب ہم جیسے سیکڑوں شعراء کے آئیڈیل ہیں۔ 
 کیا آپ اپنی شاعری سے مطمئن ہیں؟ 
  خدائے تعالیٰ کے سوا دنیا کا کوئی بھی تخلیق کار اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس کی تخلیق ہر عیب سے عاری ہے ۔ظاہر ہے کہ میں بھی انسان ہوں ۔ مجھےیقین ہے کہ میں جس درجے کی شاعری کرتا ہوں اس سے بہتر شاعری کر سکتا ہوں۔ خوب سے خوب تر کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ قابل اطمینان بات یہ ہے کہ مجھے اپنی شاعری کی کمیوں اور خامیوں کا اندازہ ہے اور میں ان کمیوں کو مطالعے اور مشق کے ذریعے دور کرنے کی کوشش میں مصروف ہوں۔
 کیا ادب میں جونیئر ہونے کی وجہ سے 
آپ کو اپنے پیر جمانے میں دشواری ہوتی ہے ؟ 
  ادبی میدان میں نظریاتی اختلاف اور آپسی چپقلش ہر دور میں رہی ہے لیکن پرانے وقتوں میں ارباب ادب اختلافات کو نظریاتی طور پر محدود رکھتے تھے اور شخصی سطح پر انتقام کی مثالیں کم ہی ملتی تھیں۔ فی زمانہ حالات بدل چکے ہیں۔ اب ادبی سطح یا کسی بھی سطح پر اختلاف کا مطلب شخصی دشمنی سمجھ لیا گیا ہے۔ اب شعراء نظریاتی اختلاف نہیں رکھتے بلکہ تیسرے درجہ کی دشمنی پیدا کرلیتے ہیں۔اکثر ایسی صورت حال مشاعروں کے شعرا کے یہاں دیکھی جاتی ہے۔ 
آپ کے نزدیک ادب کیا ہے؟ اور 
کیا آج کی بھاگ دوڑ بھری زندگی میں انسان کو ادب کی ضرورت ہے؟ 
  اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ ادب کیا ہے تو میرا ایک ہی جواب ہوگا کہ ادب زندگی ہے۔فنون لطیفہ انسان کی حس جمالیات کو اجاگر کرتے ہیں۔ شاعری دل میں تازگی اور طبیعت میں شائستگی پیدا کرتی ہے۔ مجھے اپنے ایک دوست جو نفسیات کے ڈاکٹر ہیں، سے پتہ چلا ہے کہ ممبئی میں کسی مقام پر نفسیاتی علاج کے طور پر غالب کی شاعری سنی اور سنائی جاتی ہے۔ کئی ڈاکٹر غالب کی شاعری کو سننے کے لئے بذات خود اس تقریب میں شرکت کرتے ہیں ۔ آج کل کی اس ناپائیدار زندگی میں تلخیاں پھیل چکی ہیں۔ اب اس زندگی کو شاعرانہ مٹھاس کی ضرورت ہے۔ لہٰذا میں یہی مشورہ دوں گا کہ معمول چاہے جتنا بھی مصروف ہو روزانہ کچھ نہ کچھ وقت نکال کر شاعری پڑھنی یاسننی چا ہئے۔
 نئے قارئین پیدا ہوں اس کے لئے آپ کیا کرنا چاہیں گے؟ 
 نئے قارئین پیدا کرنے کے لئے اسکولی سطح پر زباندانی پر شدید محنت ہونی چا ہئے جبکہ جدید ٹکنالوجی کی وجہ سےاردو ذریعہ تعلیم میں ترقی کے راستےکھل چکے ہیں۔ہمیں اردو کو کاغذی طور پر نہیںبلکہ دل سے قبول کرنا چاہئے اور اس احساس کمتری سے باہر نکلنا چا ہئے کہ اردو کا مستقبل روشن نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK