Inquilab Logo

ہمیں جیت کے ساتھ ہی ہار کو بھی قبول کرنے کا فن سیکھنا ہوگا

Updated: December 04, 2023, 4:28 PM IST | Rajdeep Sardesai | Mumbai

تقریباً دو دہائیاں پہلے کی بات ہے۔ ایک سرکردہ ہندی نیوز چینل نے اپنے مشہور کرکٹ شو کا عنوان دیا کہ ’’میچ کا مجرم‘‘۔ اس شو کا مقصد ایس ایم ایس کے ذریعے لائیو ووٹنگ کرواکر اور کرکٹ پنڈتوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرکے اس دن کے’ولن‘ کو تلاش کرنا تھا۔

If Australia won that day, they deserved it because they played well. Photo: INN
اُس دن آسٹریلیا نے کامیابی حاصل کی تو وہ اس جیت کی حقدار بھی تھی کیونکہ اس نے اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا تھا۔ تصویر : آئی این این

تقریباً دو دہائیاں پہلے کی بات ہے۔ ایک سرکردہ ہندی نیوز چینل نے اپنے مشہور کرکٹ شو کا عنوان دیا کہ ’’میچ کا مجرم‘‘۔ اس شو کا مقصد ایس ایم ایس کے ذریعے لائیو ووٹنگ کرواکر اور کرکٹ پنڈتوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرکے اس دن کے’ولن‘ کو تلاش کرنا تھا۔
 اس کے ساتھ ہی ٹی وی اسٹوڈیو ریسلنگ کا اکھاڑا بن گیا اور کرکٹ کی دیوانی بھیڑ کو ماب لنچنگ میں تبدیل کردیا گیا۔ اس کے بعد کئی سال گزر چکے ہیں لیکن الزامات اور جوابی الزامات کا جنون آج بھی جاری ہے۔ ورلڈ کپ فائنل میں ہندوستان کی شکست پر ناراض ردعمل سے یہ بات واضح ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے زیادہ تر ہندوستانی نہیں جانتے کہ شکست کو خوش اسلوبی سے کیسے سنبھالنا ہے۔
 دھیمی پچ کو مورد الزام ٹھہرانے سے لے کر فائنل کیلئے احمد آباد کے میدان کے انتخاب پر سوال اٹھانے تک اور جے شاہ کو نشانہ بنانے سے لے کر وزیر اعظم کو عجیب و غریب طریقے سے ’پنوتی‘ قرار دینے تک ایسا لگتا ہے کہ ٹیم کو عوامی عدالت میں کھڑا کردیا گیا ہے اوران کے خلاف مقدمہ جاری ہے۔
 بہت کم لوگ اس حقیقت کو قبول کرنے کے قابل ہیں کہ اس دن آسٹریلیا نے ایک زبردست میچ کھیلا تھا، جبکہ ہندوستان نے اس سے قبل تک جیت کا ایک سلسلہ سا قائم کررکھا تھا۔ شائقین کی یہ عادت پرانی ہے۔ ایک دن ٹیم کو ناقابل شکست قرار دینا اور اگلے دن انہیں ناکارہ کہہ کر مسترد کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ایسا برسوں سے ہوتا آرہا ہے۔
 ۱۹۷۱ءمیں انگلینڈ کو پہلی بار بیرون ملک سیریز میں شکست دینے کے بعد، ہندوستانی کرکٹ ٹیم کا ممبئی میں شاندار استقبال کیا گیا۔ تین سال بعد – جب ہم اسی حریف سے تین صفر سے ہار گئے – تو اندور میں کپتان اجیت واڈیکر کے گھر پر پتھراؤ کیا گیا۔ ٹھیک ہے، اس وقت ہم ایک ابھرتی ہوئی کرکٹ قوم تھے اور ہم جیتنے سے کہیں زیادہ ہار رہے تھے لیکن آج ہم صف اول کی ٹیم ہونے کے باوجود زیادہ وقار کے ساتھ شکست کو قبول نہیں کر سکے۔
 ۱۹۷۰ءکی دہائی میں ہماری زندگیوں میں دراندازی کیلئے سوشل میڈیا جیسا پیغام رسانی کا کوئی تیز رفتار ذریعہ نہیں تھا۔ اس لحاظ سے وہ آزادد دور تھا۔ لیکن آج صرف واٹس ایپ گروپ یا ٹویٹر پر کچھ الفاظ ٹائپ کرنا یا انسٹاگرام پر میم پوسٹ کرنا شدید ردعمل کا سیلاب لے آتا ہے۔
 ایک لحاظ سے، کرکٹ میں نظر آنے والا جذباتی حمایتی انتہائی قوم پرستی کی عکاسی کرتا ہے جو عصری معاشرے کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے۔ یعنی کرکٹ اب صرف ایک کھیل نہیں رہا، یہ ہمارے قومی تشخص اور عالمی سپر پاور کے طور پر دیکھنے کی ہماری ادھوری خواہش کی توسیع بن چکا ہے۔
 ہوسکتا ہے کہ ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن نہ ہوں لیکن کرکٹ کے معاملات میں ہمارے پاس ویٹو پاور ہے۔ کھیل کے غیر متنازع بگ باس کی اس حیثیت نے ہمارے اندر ایک انا کو جنم دیا ہے۔ اس سے یہ اٹل یقین پیدا ہوا کہ ہندوستان کا ورلڈ کپ جیتنا تقریباً پہلے سے طے شدہ تھا کیونکہ آخر کار ہم سب سے طاقتور کرکٹر ملک تھے لیکن ہم بھول گئے کہ جہاں لامحدود مالی وسائل آپ کو دوسروں کو دھونس دینے کی اجازت دے سکتے ہیں ، آپ کا بینک بیلنس میدان میں کھیل کے نتائج کا تعین نہیں کر سکتا۔
 دوسری طرف، شکست کو خوش اسلوبی سے قبول کرنے میں ہماری ہچکچاہٹ بھی شخصیت پرستی کا نتیجہ ہے، جو اپنے ہیروز کی فتوحات کا جشن مناتا ہے لیکن کھیل کی روح کو قبول نہیں کرتا۔ یہ رجحان کرکٹ سے سیاست تک پھیلا ہوا ہے۔
 جب چندریان تھری کی تاریخی لینڈنگ بھی ایک انتھک سرکاری پروپیگنڈہ مشینری کا حصہ بن جائے تو یہ بھی فطری بات ہے کہ ورلڈ کپ فائنل میں وزیر اعظم کی موجودگی غیر ضروری توجہ حاصل کرے گی۔ جس طرح سائنسی برادری کو چندریان کی کامیابی کی ستائش کی جانی چاہئے تھی، اسی طرح کرکٹ میچ میں شکست کیلئے سیاسی شخصیات کو غیر ضروری طور پر مورد الزام نہیں ٹھہرایا جانا چاہئے۔ان حالات میں ہمیں چاہئے کہ ہم جس طرح سے فتح کا جشن مناتے ہیں ، اسی طرح شکست کو بھی قبول کرنے کا فن سیکھ لینا چاہئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK