Inquilab Logo Happiest Places to Work

جنوبی کوریا: ۱۷؍ ماہ بعد میڈیکل طلبہ کا ہڑتال واپس لینے کا فیصلہ،جونیئر ڈاکٹروں کا احتجاج جاری رہےگا

Updated: July 14, 2025, 7:02 PM IST | Seoul

وزیراعظم کم من سیوک نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور اتوار کو ایک فیس بک پوسٹ میں اسے ”ایک بڑی پیش قدمی“ قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر لی جے میونگ اس مسئلے کو حل کرنے کے طریقوں پر غور کر رہے ہیں۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

جنوبی کوریا میں ہزاروں میڈیکل طلبہ، ۱۷ ماہ کے بائیکاٹ اور احتجاج کے بعد کلاسیز کیلئے لوٹیں گے۔ اس اقدام سے ہڑتال پر موجود جونیئر ڈاکٹروں کے تعطل کا ایک حصہ ختم ہو گیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال کے اوائل میں جنوبی کوریا کا نظام صحت افراتفری کا شکار ہو گیا تھا جب اس وقت کے صدر یون سک یول نے میڈیکل کالجوں میں داخلوں کی تعداد میں نمایاں اضافے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی عمر رسیدہ آبادی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافہ انتہائی ضروری ہے۔

اس اقدام کی سخت مخالفت کرتے ہوئے جونیئر ڈاکٹروں نے اسپتالوں سے کام کرنا چھوڑ دیا اور میڈیکل طلبہ نے کلاسیز کا بائیکاٹ کر دیا، جس سے ملک بھر میں طبی خدمات کی فراہمی متاثر ہوئی۔ یہ اقدام بعد میں نرم کر دیا گیا اور صدر یون کے ”مارشل لاء“ کے اعلان پر ان کے مواخذے کے بعد حکومت نے بالآخر مارچ ۲۰۲۵ء میں اسے ختم کرنے کی پیشکش کی۔ 

یہ بھی پڑھئے: بنیادی اشیاء کی شدید قلت کے باوجودغزہ میں ہماری ٹیمیں کام کررہی ہیں : اُنروا

کورین میڈیکل ایسوسی ایشن کے ایک ترجمان نے بتایا کہ طلبہ نے ہڑتال ختم کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ طلبہ کی واپسی کا شیڈول ہر میڈیکل اسکولز خود طے کریں گے۔ کورین میڈیکل اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے اس سے قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ طلبہ نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کیونکہ بائیکاٹ جاری رکھنے سے ملک کے ”طبی نظام کی بنیادیں تباہ ہو سکتی ہیں۔“ ایک تخمینہ کے مطابق، تقریباً ۸۳۰۰ طلباء کالجز میں کلاسیز کیلئے لوٹیں گے لیکن اس کی کوئی مخصوص ٹائم لائن فراہم نہیں کی گئی ہے۔

وزیر اعظم کم من سیوک نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور اتوار کو ایک فیس بک پوسٹ میں اسے ”ایک بڑی پیش قدمی“ قرار دیا، انہوں نے مزید کہا کہ صدر لی جے میونگ اس مسئلے کو حل کرنے کے طریقوں پر غور کر رہے ہیں۔ طلبہ کے بائیکاٹ کے علاوہ، گزشتہ سال تقریباً ۱۲ ہزار جونیئر ڈاکٹروں نے ہڑتال کی تھی جن میں سے زیادہ تر ابھی تک کام پر واپس آنے سے انکار کر رہے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK