Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہمیں مال کا نہیں اللہ کا بندہ ہونا چاہئے

Updated: November 11, 2022, 1:30 PM IST | Sayed Mohammad Mamun Rashid | Mumbai

حضرت کعب بن عیاضؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) ہر اُمت کے لئے (کوئی نہ کوئی) فتنہ اورآزمائش ہے (جس میں اس اُمت کے لوگوں کو مبتلا کرکے ان کو آزمایا جاتا ہے)۔ چنانچہ میری اُمت کے لئے  جو چیز فتنہ اور آزمائش ہے وہ ’مال و دولت‘ ہے۔

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

حضرت کعب بن عیاضؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) ہر اُمت کے لئے (کوئی نہ کوئی) فتنہ اورآزمائش ہے (جس میں اس اُمت کے لوگوں کو مبتلا کرکے ان کو آزمایا جاتا ہے)۔ چنانچہ میری اُمت کے لئے  جو چیز فتنہ اور آزمائش ہے وہ ’مال و دولت‘ ہے۔
حدیث مبارکہ کی وضاحت سے قبل لفظ ’فتنہ‘ کی تعریف اور اس کی اقسام سمجھ لیں۔ فتن جمع فتنہ کی ہے، ابتلا/امتحان، انسان کا اچھی حالت سے بری حالت میں آنا، کسی کی طرف میلان اور خودپسندی، یہ سب معنی آتے ہیں۔ اصطلاحِ شرع میں: ’’ہر ایسی چیز جو انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ سے غافل کردے فتنہ کہلاتی ہے۔ مثال کے طور پر مال اور اولاد کو بھی خداوند تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ’فتنہ‘ کہا ہے، کیونکہ مال اور اولاد انسان کو یادِ الٰہی سے غافل کردینے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔
    فـتنہ کی اقسام
     ذاتی فتنہ: قلب کا سخت ہونا کہ طاعت و مناجات میں حلاوت و لذت محسوس نہ ہو۔
    فتنۂ اہل: اولاد کی نافرمانی، زوجین میں نفرت اور گھریلو نظام کا بگڑ جانا۔
    فتنۂ انسانیت: انسانیت ختم ہوجانا، خود غرضیاور ایذا رسانی کے درپے ہونے لگنا۔
    وبائی فتنہ: قحط، طوفان، خسف و مسخ۔
فتنۂ کذب: جھوٹ اور دھوکا دہی عام ہو جائے، دلوں سے احساسِ امانت نکل جائے۔
فتنۂ تاویلات: متشابہات (قرآنی آیات) میں کج روی کے ساتھ غلط تاویلات کرنا۔
    فتنۂ سبّ و شتم: سلف صالحین کی شان میں گستاخی کرنا۔
    فتنۂ استحلال: حرام اشیا کو ان کا نام بدل کر جائز سمجھ کر استعمال کرنا۔
اس حدیث مبارکہ کے پیشِ نظر عہدِنبویؐ سے لے کر موجودہ زمانے تک کی تاریخ پر اگر سرسری نظر ڈالی جائے تو یہ بات مخفی نہیں رہے گی کہ یہی مال و دولت سب کے لئے آزمایش بنا رہا ہے، جس کے ذریعے بے شمار بندوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بغاوت و نافرمانی کی اور مسلسل کر رہے ہیں۔ مال ودولت کے حصول کے لئے حلال اور حرام، جائز و ناجائز ذرائع استعمال کرنے کو تیار ہیں، بس مال آنا چاہئے! ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ  تعالیٰ فرماتے ہیں: غافل رکھا تمہیں زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کی ہوس نے یہاں تک کہ تم نے قبریں جادیکھیں۔( سورۃ التکاثر:۱)
    مال کی مذمت میں چند  احادیث
    حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مال و جاہ کی محبت دل میں اس طرح نفاق اُگاتی ہےجس طرح پانی سبزے کو اُگاتا ہے۔   ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا: زیادہ امیدیں لگانے والے ہلاک ہوگئے۔   ایک موقع پر آپؐ سے پوچھا گیا کہ آپؐ کی اُمت میں سب سے زیادہ بُرا کون ہے؟ فرمایا: مال دار۔ آپؐ نے فرمایا: ابنِ آدم کہتا ہے کہ میرا مال، جب کہ تیرا مال تو صرف وہی ہے جو تو نے کھاکر ختم کردیا، پہن کر بوسیدہ کردیا یا صدقہ دے کر باقی رکھ لیا۔
    ایک تفصیلی حدیث میں آپؐ نے فرمایا: میرے بعد ایسی قوم آئے گی جو دنیا کی عمدہ تر اور رنگارنگ نعمتیں کھائے گی، ناز سے چلنے والے رنگارنگ گھوڑوں پر سواری کرے گی، خوب صورت اور رنگارنگ عورتوں سے نکاح کرے گی اور خوب صورت اور رنگارنگ کپڑے پہنے گی،یہ وہ لوگ ہوں گے جن  کے پیٹ تھوڑی چیز سے سیر نہیں ہوں گے، اور یہ اللہ کو چھوڑ کر مال و دولت کو اپنا خدا بنائیں گے۔
    ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا: جس نے دنیا بقدرِ کفایت سے زیادہ لی تو اس نے اپنی ہلاکت لے لی، اور وہ محسوس نہیں کررہا۔ بعض اہلِ علم اس حدیث کی ایک تشریح اس انداز سے کرتے ہیں کہ ’فتنہ‘ سے مراد آخرت کا عذاب ہے کہ اس مال کی وجہ سے بہت سے لوگ فتنوں یعنی عذاب میں مبتلا ہوں گے، قیامت کے دن ایک درہم والے کی نسبت دو  درہم والے  زیادہ سوال ہوگا۔ اسی وجہ سے آپؐ یہ دعا مانگا کرتے تھے:اے اللہ! محمدؐ کے گھرانے کی خوراک اندازے کے مطابق کردے۔یہ بات یاد رکھی جائے کہ مال ودولت کے سلسلے میں جو چیز مذموم ہے وہ مال ودولت کی محبت اور دنیا داری میں مبتلا ہونا اور اپنی چادر سے باہر پیر پھیلانا ہے ۔ یہ خصلت انسان کو ’مال کا بندہ‘ بنا دیتی ہے کہ اس کی ہر سعی اور جدوجہد کا محور، اس کی ہر تمنا وخواہش کا مرکز اور اس کے ہر فعل اور عمل کی بنیاد صرف مال اور زر ہوتا ہے۔ ہمیں مال کا نہیں ’اللہ کا بندہ‘ ہونا چاہئے۔  مالداری بذات خود کوئی مذموم چیز نہیں ہے، کسی کے پاس (حلال ذرائع سے کمایا ہوا) کتنا ہی مال کیوں نہ ہو اور وہ کتنا ہی بڑ ا دولت مند کیوں نہ ہو اگر اس کا دل مال ودولت کی محبت میں گرفتار نہیں ہے تو اس کو   بُرا کہنا درست نہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK