Inquilab Logo

ہمیں علم سے آراستہ اور سائنس و ٹکنالوجی سے پیراستہ اُمت بننا چاہئے

Updated: September 02, 2022, 1:25 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

تبھی ہم عزت و وقار کے ساتھ زندگی گزارنے والی قوم بن سکتے ہیں۔ اس کے لئے پہلے تو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہاں ہم وقت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے سے قاصر رہے۔ اس کے بعدضروری منصوبہ بندی کرنی ہوگی

A knowledgeable person can get an advantage even over a person with a good deal. .Picture:INN
ایک صاحب علم شخص اچھے خاصے ڈیل ڈول والے انسان پر بھی تفوق حاصل کر لیتا ہے۔۔ تصویر:آئی این این

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : طاقتور مؤمن کمزور مؤمن سے بہتر ہے، (صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۶۶۴) عام طور پر ہمارے معاشرہ میں جب طاقت کا ذکر کیا جاتا ہے تو لوگ اِس سے جسمانی طاقت مراد لیتے ہیں؛ لیکن اگر غور کیا جائے تو اِس کا مفہوم اپنے اندر بڑی وسعت اور جامعیت رکھتا ہے۔ طاقت ایک وصف ہے اورانسان کی مختلف صلاحیتیں اِس وصف کی حامل ہو سکتی ہیں، مثلاً طاقت اخلاق و کردار کی بھی ہوتی ہے اور بعض دفعہ اخلاق و کردار کی طاقت سے وہ کام لیا جاتا ہے جو ہاتھ پائوں کی طاقت سے نہیں لیا جاسکتا۔ جسمانی طاقت سے تو زر وزمین کو فتح کیا جا سکتاہے؛ لیکن اخلاق کی طاقت سے انسان کے دل جیتے جاتے ہیں۔ اسی طرح طاقت دولت و ثروت کی بھی ہوتی ہے۔ ایک جسمانی اعتبار سے کمزور شخص بھی مال و دولت کے ذریعے بڑے بڑے معرکوں کو جیت سکتا ہے۔ اسی طرح ایک بہت بڑی طاقت وہ ہے جو سیاست کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، سیاسی طاقت کے ذریعہ افراد اور قومیں ملک و قوم کی تقدیر کی مالک ہو جاتی ہیں۔ طاقت علم ، ٹکنالوجی اور زبان و قلم کی بھی ہوتی ہے، ایک صاحب علم شخص اگرچہ کہ و ہ نحیف الجثہ ہو؛ لیکن وہ اچھے خاصے ڈیل ڈول والے انسان پر بھی تفوق حاصل کر لیتا ہے، یہی سب سے بڑی طاقت ہے، ایک صاحب علم شخص ایک ہزار نا تعلیم یافتہ افراد پر بھاری ہوتا ہے، ایک ایسی قوم جو علم و فن سے بہرہ ور ہو اگر چہ وہ تعداد کے اعتبار سے چھوٹی اقلیت ہو؛ لیکن وہ ایسی قوموں پر بھاری ہو جاتی ہے، جو تعداد کی کثرت کے اعتبار سے ریگستان کے ذرّات سے بھی بڑھی ہوئی ہو مگر علم سے تہی دست اور فکر و نظرکے سرمایہ سے تہی دامن ہو۔ دنیا میں اِس کی بہت سی مثالیں ہیں، جن کو سَر کی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے اور جن کے کارنامے تاریخ کے صفحات پر اپنی عظمت کے نقوش ثبت کئے ہوئے ہیں ۔مختصر یہ کہ طاقت کی کئی قسمیں ہوتی ہیں بلکہ یہاں جنہیں درج کیا گیا ہے اُس کے علاوہ بھی طاقت کے اقسام ہیں۔  ابھی کل کی بات ہے کہ ہم برطانیہ کے غلام تھے، جو انگریز برطانیہ سے ہندوستان آئے، ہندوستان کے اصل باشندوں کے مقابلے میں اُن کی تعداد اتنی کم تھی کہ شاید آٹے میں نمک کا تناسب بھی اُس سے زیادہ ہوتا؛ لیکن یہ وہ دور تھا جب مشرق سے مغرب تک برطانیہ کے اقتدار کا آفتاب عالم تاب روشن تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انگریزوں کی سلطنت میں سورج کے غروب ہونے کی نوبت نہیں آتی تھی، اگر مغرب میں امریکہ اور کینیڈا تک برطانیہ نے حکومت کی ہے تو مشرق میں مشرق بعید کے ممالک بھی اُس کی غلامی کے زیر سایہ زندگی بسر کرتے رہے ہیں؛ حالانکہ برطانیہ کے باشندے نہ صرف تعداد کے اعتبار سے بہت کم تھے؛ بلکہ اصل مملکت برطانیہ کا رقبہ بھی اتنا محدود تھا کہ ہندوستان کا چھوٹے سے چھوٹا صوبہ بھی اپنے رقبے میں اُس سے بڑھا ہوا ہوگا، مجھے جب برطانیہ جانے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ برطانیہ کے ایک طرف سے دوسرے طرف کا فاصلہ صرف چھ سو میل یا اُس سے کچھ زیادہ ہے۔ اس کے باوجود اگر برطانیہ نے اتنی طاقت حاصل کرلی تھی کہ اس کی حکومت مغرب سے مشرق تک پھیلی ہوئی تھی تو سوچنے کا مقام ہے کہ یہ کس طاقت کا اثر تھا ؟ یہ جسمانی طاقت یا عددی طاقت کا نتیجہ نہیں تھا، یہ علم اور ٹکنالوجی کی طاقت کا نتیجہ تھا۔ دُنیا کے نقشے پر اور بھی ممالک ہیں جن کا حجم یا رقبہ بھلے ہی کم ہو مگر اُن کی سیاسی، معاشی یا سائنسی طاقت خود کو منوائے بغیر نہںی رہتی۔ ایک مثال جاپان بھی ہے۔ دیکھ لیجئے کہ ایک چھوٹا سا اور چند جزیروں پر مشتمل ملک ہے؛ لیکن اُس کی ٹکنالوجی کی طاقت کا کرشمہ ہے کہ پوری دنیا اُس کے سامنے سَر جُھکاتی ہے، اگر ایک ہی شے جاپان کی بنائی ہوئی ہو اور کسی دوسرے ملک کی بھی ، تو خریدار تفصیلات معلوم کئے بغیر بلا تکلف خیال کرتا ہے کہ جاپان کی بنائی ہوئی شے مہنگی تو ہو سکتی ہے؛ لیکن معیار کے اعتبار سے وہی فائق ہوگی، یہ علم اور ٹکنالوجی کی طاقت کا اثر ہے ۔ اگر اِس پس منظر میں رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کو سمجھا جائے تو مومن کے قوی ہونے کا مفہوم بہت وسیع ہو جاتا ہے اور اس وسعت میں یہ بات شامل ہے کہ جو مومن علم کی طاقت سے آراستہ ہو، اور تعلیم یافتہ ہو، وہ ایسے مسلمان سے بہتر ہے جس نے جہالت پر قناعت کر رکھا ہو اور جو علم کی روشنی سے محروم ہو۔ غالباً اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایسے مومن کو پسند فرماتے ہیں جو حرفت سے واقف ہو اور ٹکنالوجی سے آگاہ ہو: ان اﷲ یحب المؤمن المحترف (المعجم الاوسط، حدیث نمبر: ۸۹۳۴) ۔ یہ اس لئے کہ جو قوم علوم و فنون کی حامل ہوتی ہے، جو قوم صنعت و ٹکنالوجی کی دولت رکھتی ہے، جس قوم کے پاس فکر و فن کا سرمایہ ہو تاہے، وہ دوسروں کو دینے کی صلاحیت رکھتی ہے، اُس کے پاس لینے والا ہاتھ نہیں ہوتا؛ بلکہ دینے والا ہاتھ ہوتا ہے، دنیا کو اُس کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اپنی صلاحیت کے ذریعے سربلندی وسرفرازی حاصل کرتی ہے۔ اس کی ایک مثال بھی ملاحظہ فرما لیجئے:  یہودیوں کی تعداد کتنی کم ہے؟ امریکہ جیسے ملک میں اُن کی تعداد پانچ فیصد سے بھی کم ہے؛ لیکن ذرائع ابلاغ جیسا مؤثر وسیلہ پوری طرح اُن کے ہاتھوں میں ہے، بینکنگ کا نظام صد فیصد اُن کی گرفت میں ہے، اسی لئے کسی امریکی صدر کی مجال نہیں کہ وہ یہودیوں پر کُھل کر تنقید کر ے اور جن لوگوں نے دبے لفظوں میں تنقید کی، اُن کو ناکوں چنے چبوا دیئے گئے۔ یہ سب تعلیم کا کرشمہ ہے؛ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیا کا سب سے معروف اور مقبول اعزاز یعنی نوبل انعام پانے والوں میں اکثریت یہودیوں کی ہے۔ ایک اور مثال خود ہمارے ملک کی ہے جہاں آپ برہمنوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ ان کی تعداد تین چار فیصد سے زیادہ نہیں؛ لیکن عملاً پورے ملک کا اقتدار اُن کے ہاتھوں میں ہے، وہی سیاسی طالع آزمائوں کی جیت اور ہار کا فیصلہ کر تے ہیں اور ملک کی داخلہ و خارجہ پالیسی مرتب کرتے ہیں۔ آخر یہ کیونکر ممکن ہوتا ہے؟ دراصل یہ نتیجہ ہے اُن کی تعلیمی جد و جہد اور اِس میدان میں انتھک کوششوں کا۔ اس کا اثر ہے کہ ملک کے ساٹھ فیصد سے زیادہ کلیدی عہدوں پر برہمن یا ہندوستان کی اونچی ذاتوں کے لوگ مامور ہیں۔  ہم ان حقائق سے واقفیت کے باوجود کچھ سیکھنا نہیں چاہتے۔ اگر کوئی پوچھے کہ ایسے حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے تو اس کا جواب بہت آسان اور سہل ہے کہ ہمیں ایک ایسی اُمت بننا چاہئے جو علم کے زیور سے آراستہ اورصنعت و ٹکنالوجی کی صلاحیت سے مالا مال ہو؛ تاکہ ہمارا ہاتھ اونچا ہاتھ رہے، ہم اِس لائق ہوں کہ ملک کو کچھ دے سکیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: اونچا ہاتھ نیچے ہاتھ سے بہتر ہے : الید العلیا خیر من الید السفلٰی (صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۱۴۷۲)  اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جو فرددینے والا ہاتھ رکھتا ہو وہ اُس فرد سے بہتر ہے جس کے پاس صرف لینے والا ہاتھ ہو، جس قوم کے پاس لوگوں کو دینے کی صلاحیت ہو، وہ اُس قوم سے بہتر ہے جس کے ہاتھ میں کاسۂ گدائی ہو اور وہ دوسری قوموں سے پیسوں کی، عزت و وقار کی، ملازمتوں کی، معاشی مدد کی اور سیاسی عہدوں کی بھیک مانگتی رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: اے پیغمبر ! آپ فرما دیجئے کہ جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم سے محروم ہیں کیا وہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ نصیحت و عبرت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہوں : قُلْ ھَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُوْلُوْا الْاَ لْبَابِ (الزمر: ۹)  یہ آیت اگرچہ ایک خاص پس منظر میں نازل ہوئی ہے؛ لیکن اس میں دو باتوں کی طرف واضح اشارہ موجود ہے، ایک یہ کہ علم والے اور بے علم، تعلیم یافتہ اور جاہل، دونوں برابر نہیں ہیں، دوسرے یہ کہ وقت اور حالات کا تجزیہ کرنا، اُس سے عبرت و نصیحت حاصل کرنا یہ اُن ہی لوگوں کا کام ہے جو عقل و فہم رکھتے ہوں اور جنھوں نے علمی کاوشوں کے ذریعے اپنی فہم و بصیرت میں اضافہ کیا ہو ۔ یاد رہے کہ اہل علم اور محروم ِ علم لوگوں کے درمیان نا برابری صرف آخرت میں ہی ظاہر نہیں ہوگی؛ بلکہ دنیا میں بھی شب و روز اِس کی مثالیں ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں، تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان ہر میدان میں فرق پایا جاتا ہے، ایک تعلیم یافتہ قوم سیاسی نظام میں جو حصہ داری حاصل کر سکتی ہے، علم سے تہی دامن قوم کبھی وہ اثر و رسوخ حاصل نہیں کر سکتی، جو گروہ علم سے آراستہ ہو و ہ میدانِ جنگ میں علم سے محروم قوم کو شکست دے سکتا ہے، وہ معیشت کے میدان میں بھی عزت و سربلندی حاصل کرتا ہے، اور جو قومیں علم سے محروم ہوتی ہیں، ذلت و رسوائی ، غربت و افلاس اورپسماندگی اُن کا مقدر بن جاتا ہے، جو گروہ تعلیم یافتہ اور صاحب علم ہوتا ہے، وہ حکومت کے کلیدی اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتا ہے، اُس کی ہر بات کان لگا لگا کر سُنی جاتی ہے، اور جو گروہ جہالت کے دلدل میں پھنسا ہوا ہو وہ چیخ چیخ کر اپنی مظلومیت کا رونا روئے اور ہزار تاویلیں پیش کرے، تب بھی نہ کسی کی آنکھ نم ہوتی ہے اور نہ کسی کی آواز اُس کے حق میں بلند ہو پاتی ہے۔  یہ تمام باتیں سمجھنے کی ہیں مگر افسوس کہ ہم سمجھ کر بھی نہیں سمجھتے یا سمجھنے کے باوجود عمل کے مرتبہ پر فائز ہونے کی کوشش نہیں کرتے۔ مذکورہ بالا پس منظر میں یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ جہالت میں پھنسے ہوئے لوگ نہ صرف دین کے اعتبار سے اہل علم کی برابری حاصل نہیں کر پاتے؛ بلکہ وہ ہر میدان میں اُن سے پیچھے رہتے ہیں، بالواسطہ طور پر اُن کی محکومی میں آجاتے ہیں اور اُن کے استحصال یا ظلم و ستم کا نشانہ بنتے ہیں۔ ایسی صورت میں اُن کی ذلت و خواری کی داستان طویل سے طویل تر ہوتی جاتی ہے اور وہ تصویر غم بنے دکھائی دیتے ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK