Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہندوستان کو اقلیتوں اور پسماندہ برادریوں کو نشانہ بنانےوالی من مانی مسماری کو روکناچاہئے:اقوام متحدہ

Updated: June 24, 2025, 10:06 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi

سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کے باوجود، جس نے من مانی انہدامات کے خلاف واضح طریقہ کار کے تحفظات قائم کئے، ملک میں حکام کی جانب سے انہدامی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

اقوام متحدہ سے جڑے انسانی حقوق کے ماہرین نے پیر کو خبردار کیا کہ ہندوستان کو کم آمدنی والے گھرانوں، اقلیتوں اور تارکین وطن کو من مانے طریقہ سے نشانہ بنانے والی انہدامی کارروائیوں کو فوری طور پر روکنا چاہئے۔ ماہرین نے مختلف جرائم کی سزا کے طور پر کی جانے والی ان "من مانی" کارروائیوں کو "انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ایک سنگین شکل" قرار دیا اور کہا کہ انہدامی کارروائیاں خاص طور پر قابل مذمت ہیں جب ان کے ذریعے اقلیتوں یا پسماندہ طبقات کو نشانہ بنایا جاتا ہے یا ان کے خلاف امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ 

یہ بیان، مناسب رہائش کے خصوصی ریپورٹر بالا کرشنن راجا گوپال، مذہب یا عقیدے کی آزادی کے خصوصی ریپورٹر نااہلی غنی، اقلیتی امور کے خصوصی رپورٹر نکولس لیوارٹ اور تارکین وطن کے انسانی حقوق کے خصوصی ریپورٹر فیہا مادی کی جانب سے جاری کیا گیا۔ ماہرین کے گروپ نے مزید کہا کہ انہدامات کبھی بھی متاثرین کی بے گھری اور نقل مکانی کا باعث نہیں بننا چاہئے اور بے دخل کئے جانے والے افراد کو مناسب متبادل رہائش، دوبارہ آبادکاری اور کھوئی ہوئی رہائش یا املاک کیلئے معاوضہ فراہم کیا جانا چاہئے۔ واضح رہے کہ جمیعت علماء ہند بمقابلہ یونین آف انڈیا اینڈ ادرز میں ہندوستانی سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کے باوجود، جس نے من مانی انہدامات کے خلاف واضح طریقہ کار کے تحفظات قائم کئے، ملک میں حکام کی جانب سے انہدامی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ہندوستان اور فلسطین میں بلڈوزر انہدام کے تنازع کے بعد جے سی بی انعام برائے ادب منسوخ

ماہرین نے نوٹ کیا کہ یہ فیصلہ متعدد درخواستوں کا جواب تھا جن میں ریاستی حکام کی طرف سے مجرمانہ رویے کے الزام میں انہدام کو سزائی اقدام کے طور پر استعمال کرنے کے خلاف کارروائی کی مانگ کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ `بلڈوزر انصاف` کے متاثرین میں ہندو خاندان بھی شامل ہیں، لیکن مسلم سماج کو خاص طور پر مذہبی تشدد یا احتجاج کے بعد غیر متناسب طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ ماہرین نے نشان دہی کی کہ حکام ان اقدامات کو وسیع تر `غیر قانونی تجاوزات کے خلاف مہمات` کے حصے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور `قومی سلامتی` کے مبہم خدشات اور `غیر قانونی تارکین وطن` کی موجودگی کے الزامات کو ان کارروائیوں کے جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ تاہم، ایسے دعوؤں کی بنیاد کی کوئی تفتیش کئے بغیر انہدامات باقاعدگی سے کئے جاتے ہیں۔ ماہرین نے کہا کہ متاثرہ گھرانوں کو مناسب اور معقول نوٹس، مناسب دوبارہ آبادکاری یا متبادل رہائش فراہم نہیں کی جاتی اور ان علاقوں میں دہائیوں سے رہنے والے رہائشی اپنے گھروں، دکانوں اور عبادت گاہوں کو بلڈوزروں مسمار ہوتے دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: مودی حکومت کی تیسری مدت کے پہلے سال میں ۶۰۲؍نفرت انگیزجرائم، ۳۴۵؍ نفرت انگیز تقاریر کے واقعات: رپورٹ

اس پریشان کن نمونے کی تازہ مثال گجرات کے احمد آباد میں چندولا جھیل کے علاقے اور سیاست نگر میں حال ہی میں کی گئی انہدامی مہم ہے جس کے تحت ۲۹ اپریل اور ۲۰-۲۱ مئی کو دس ہزار سے زائد گھروں، دکانوں اور مساجد کو مبینہ طور پر مسمار کیا گیا اور ہزاروں لوگوں کو بے گھر کردیا گیا۔ ماہرین نے کہا کہ گجرات میں حالیہ انہدامات جیسے واقعات نہ صرف ہزاروں افراد اور خاندانوں کو بے گھر کرتے ہیں اور ان کو اپنے ذریعہ معاش سے بھی محروم کردیتے ہیں بلکہ سماجی عدم استحکام کو بڑھاتے ہیں، تقسیم کو گہرا کرتے ہیں اور قانون کی حکمرانی میں عوامی اعتماد کو بھی کمزور کردیتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ `قومی سلامتی` اور `غیر ملکی شہریت` کو کبھی بھی قانونی تحفظات کے بغیر پسماندہ طبقات کی جبری بے دخلی کے جواز کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔ ماہرین نے مطالبہ کیا کہ ہندوستان کو یہ یقینی بنانا چاہئے کہ شہری ترقی کو ملکی ضمانتوں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کے مطابق آگے بڑھایا جائے۔

رپورٹس کے مطابق، راہرین نے ان مسائل کے سلسلے میں ہندوستانی حکومت سے رابطہ کیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK