Inquilab Logo

کمزور جمہوریت ہندوستان کے شایانِ شان نہیں!

Updated: March 31, 2024, 6:03 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

کون نہیں جانتا کہ ہم عالمی جدولوں میں گھسٹتے اور پچھڑتے جارہے ہیں۔ اس پر فکرمند ہونا چاہئے تھا مگر مودی حکومت نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ اب جو صورت حال ہے اُس سے تو فکرمندی بڑھ گئی ہے۔

Arvind Kejriwal. Photo: INN
اروند کیجریوال۔ تصویر :آئی این این

لوک سبھا کا جو الیکشن ہونے جارہا ہے اُس کےبارے میں ابھی سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ آزاد اور منصفانہ الیکشن نہیں ہے۔ اسے سبوتاژ کرنے کی جو کوشش ہورہی ہے اُس کے اثرات بحیثیت وزیر اعظم نریندر مودی کی تیسری میعار میں دیکھے جاسکیں گے۔ اب تک جو کچھ بھی ہوا اور آئندہ جو کچھ ہوسکتا ہے اُس نے ہمارے جمہوریہ کو کافی نقصان پہنچایا ہے اور آئندہ بھی اس کا خدشہ ہے۔
 یہ بتانے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ اب تک کس طرح اس الیکشن کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ جو حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ دو وزرائے اعلیٰ جیل میں ہیں۔ کیوں جیل میں ہیں؟ اس لئے نہیں کہ ان پر کوئی جرم ثابت ہوا ہے بلکہ اس لئے کہ انہیں جن ایجنسیوں نے گرفت میں لیا ہے وہ وزیر اعظم مودی کے ماتحت ہیں۔ جو لوگ انہی ایجنسیوں کے ذریعہ ماضی میں گرفت میں لئے گئے تھے اُنہوں نے جیسے ہی پالہ بدلا اور این ڈی اے میں شامل ہوگئے، اُنہیں کلین چٹ مل گئی۔ اُن کی ہر خطا معاف ہوگئی۔
 کسی بھی حقیقی جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا۔ اس کیلئے انتخابی یا الیکٹورل بَونڈ کے قضیہ میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اکثر لوگوں نے مان لیا ہے کہ وزیر اعظم مودی اب بھی اقتدار میں آئینگے، تیسری مرتبہ۔ تب کیا وجہ ہے کہ وہ ایسا کررہے ہیں؟ شاید اس لئے کہ یہ اُن کے مزاج یا طریق کار کا حصہ ہے۔ یہ اُن لوگوں کی بہت فطری وضاحت ہے جنہوں نے چوکنا ہوکر اُس واقعاتی تسلسل کا مشاہدہ کیا ہے جن کے سبب حالات اس موڑ تک پہنچے ہیں۔ اس میں بیرونی دُنیا بھی شامل ہے اور خاص طور پر وہ ادارے بھی جو جمہوریت کا مشاہدہ کرتے ہیں اور ہم سے کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اب ہندوستان پہلے جیسا آزاد نہیں رہ گیا ہے، اس کی جمہوریت کمزور ہوئی ہے (عالمی جدول میں نیچے آگئی ہے) اور یہ ملک اب آمریت کی جانب پیش رفت کررہا ہے۔’’وی ڈیم‘‘ جو کہ یونیورسٹی آف گوتھن برگ کا ذیلی ادارہ ہے، ۲۰۱۸ء میں ہمارے بارے میں کہہ چکا ہے کہ ہمارا ملک ’’انتخابی آمریت‘‘ بن چکا ہے۔ ۲۰۲۴ء کی اس کی رپورٹ میں، جو مارچ میں جاری ہوئی، کہا گیا ہے کہ ہندوستان ’’دُنیا کی بدترین شخصی یا آمری حکومتوں میں سے ایک‘‘ (وَن آف دی ورسٹ آٹوکریسیز) بن چکا ہے۔ ۲۰۲۰ء میں اکنامک انٹلی جنس یونٹ نے ہندوستان کو یہ کہتے ہوئے ’’ناقص جمہوریت‘‘ (فلاڈ ڈیموکریسی)قرار دیا تھا کہ ملک میں ۲۰۱۵ء سے جمہوری طور طریقے دباؤ میں ہیں۔اسی طرح، ۲۰۲۱ء میں ’’فریڈم ہاؤس‘‘ نے کہا کہ ہندوستان آزاد نہیں ہے بلکہ ’’جزوی آزاد‘‘ ہے۔ تب سے لے کر اب تک اس ادارے نے ہماری درجہ بندی تبدیل نہیں کی، وہی رکھی ہے یعنی اس کے خیال میں ہم اب بھی جزوی طور پر آزاد ہیں۔ حکومت نے فریڈم ہاؤس کی رپورٹ کے پیش نظر کہا تھا کہ ’’ہندوستان کی کئی ریاستیں وفاقی ڈھانچے کا حصہ ہیں جہاں مرکز کی حکمراں جماعت سے مختلف پارٹیوں کی حکومتیں ہیں، جن کا قیام ایک خود مختار انتخابی ادارے کی قیادت میں صاف ستھرے اور آزادانہ انتخابی عمل کے ذریعہ عمل میں آیا ہے۔ اس سے ایک فعال جمہوریت کے روبہ عمل ہونے کی عکاسی ہوتی ہے اور یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں اُن(پارٹیوں) کیلئے بھی جگہ ہے جن کا طرز فکر یا سیاسی نظریہ مختلف ہے۔‘‘
 ظاہر ہے کہ مرکزی حکومت کی یہ وضاحت جو ایک پریس نوٹ کے ذریعہ کی گئی تھی، مبنی پر حقیقت نہیں ہے۔ فریڈم ہاؤس کی مذکورہ رپورٹ کے دو حصے تھے۔ پہلے حصے میں ہندوستان کو ۴۰؍ فیصد میں سے ۳۴؍ نشانات ملے تھے جو بعد کے سال (۲۰۲۳ء) میں ۴۰؍ میں سے ۳۳؍ ہوگئے۔ اس میں صاف ستھرے اور غیر جانبدارانہ الیکشن، انتخابی کمیشن کی کارکردگی، سیاسی پارٹیوں کے قیام کی آزادی اور اپوزیشن کو ملنے والے مواقع کیلئے پورے نشانات دیئے گئے تھے چنانچہ مرکزی حکومت کی وضاحت میں وہی بات کہی گئی جو فریڈم ہاؤس نے پہلے ہی مان لی تھی۔ ہندوستان کی درجہ بندی کہاں کمزور ہوئی وہ ۴۰؍ کے علاوہ بقیہ ۶۰؍ فیصد مارکس میں تھی جس میں شہری حقوق کا تذکرہ تھا۔ اس میں ہندوستان کو ۶۰؍ میں سے صرف ۳۳؍ مارکس ملے۔ اظہار رائے کی آزادی، مذہبی اُمور کی آزادی، تعلیمی آزادی، یکجا ہونے کی آزادی، غیر سرکاری تنظیموں کو کام کرنے کی آزادی، قانون کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی وغیرہ میں ہندوستان کی کارکردگی کو بہت کمزور مانا گیا حالانکہ مجموعی طور پر حقائق کی صحیح عکاسی نہیں ہوئی تھی اس کے باوجود ہمیں کم نشانات ملے۔ 
 اب جو رپورٹ آئیگی اُس کے تعلق سے ہمیں فکر مند ہونا چاہئے کیونکہ سیاسی حقوق کا یہ مطلب نہیں کہ اپوزیشن لیڈروں کو جیل میں ڈال دیا جائے اور کہا جائے کہ ملک میں وہ جمہوریت قائم ہے جس میں سیاسی حقوق کو متاثر نہیں کیا گیا ہے۔
 جب ہمارا اِسکور کم ہونے لگا تھا تب مودی حکومت پریشان ہوئی تھی کیونکہ وزیر اعظم تو اس گمان میں تھے کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں سب ٹھیک ہے۔ مرکزی حکومت نے اپنی مختلف وزارتوں سے اُن معیارات پر رپورٹ طلب کی جن کو اکنامک انٹلی جنس یونٹ نے بنیاد بنایا تھا۔ اس کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ جس رپورٹ پر ہلچل ہوئی تھی اس میں تمام وجوہات بالتفصیل بیان کی گئی تھیں۔ اُس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ فکر مندی کی بنیادی وجہ شہری حقوق کا بُری طرح متاثر ہونا اور شہریت میں مذہب کو بنیاد بنانا ہے۔
 خیر، اب جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر بی جے پی کو ۴۰۰؍ سیٹیں مل گئیں، جیسا کہ دعویٰ کیا جارہا ہے، تو الیکشن بالکل ویسے ہوجاسکتے ہیں جیسے روس اور جنوبی کوریا میں ہوتے ہیں۔ معتبریت ختم ہوسکتی ہے اور یہ صورت حال برقرار رہ سکتی ہے۔
 اگر بی جے پی کو کم سیٹیں ملیں اور سادی اکثریت پر اکتفا کرنا پڑا تو اپوزیشن کو آسانی سے چپ کرانا مشکل ہوگا۔ اسکے لیڈروں کو بخوبی علم ہے کہ وہ (وزیر اعظم) اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرینگے اور اس کے نتیجے میں اُنہیں جیل بھی بھیجا جاسکتا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ہم بنگلہ دیش جیسے بنتے جارہے ہیں جہاں اپوزیشن کو کام ہی کرنے نہیں دیا جاتا۔ یہی پاکستان میں ہوا تھا بالخصوص ۱۹۷۷ء میں۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK