Inquilab Logo

اپوزیشن اتحاد کیا رنگ لائے گا؟

Updated: June 01, 2023, 10:37 AM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

حال ہی میں نتیش کمار نے کانگریس لیڈر راہل گاندھی اور پارٹی کے قومی صدر کھڑگے سے مل کر یہ پیغام دیا ہے کہ اب کانگریس بھی چاہتی ہے کہ آئندہ پارلیمانی انتخابات میں اپوزیشن متحد ہو کر مقابلہ کرے۔دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کا ساتھ ملنے سے بھی یہ اتحاد قدرے مستحکم ہوا ہے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

جب بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف اپوزیشن کو متحد کرنے کی مہم شروع کی تھی تو یہ قیاس آرائیاں ہونے لگی تھیں کہ یہ مہم ثمر آورنہیں ہوگی کیوں کہ ماضی میں بارہا اس طرح کی کوششیں ہوئی ہیں اورناکام رہی ہیں لیکن اب جب کہ آئندہ۱۲؍جون کو بہار کی راجدھانی پٹنہ میں ملک کی تمام بڑی اپوزیشن جماعتیں میٹنگ میں شامل ہو رہی ہیں اور مرکزی حکمراں جماعت کے خلاف صف بند ہو کر وزیر اعظم نریندرمودی کی ناکامیوں کو عوام کے سامنے مضبوطی کے ساتھ رکھنے کافیصلہ کر رہی ہیں تو اب وہ تمام لوگ جو نتیش کمار کی اس مہم کے نکتہ چیں تھے وہ بھی نتیش کی سیاسی بصیرت وبصار ت کے قائل ہوگئے ہیں۔واضح ہو کہ نتیش کمار کی اسی مہم کی وجہ سے حالیہ نیتی آیوگ کی میٹنگ میں ملک کے گیارہ وزیر اعلیٰ نے شرکت نہیں کی اور پھر پارلیمنٹ کی نو تعمیرعمارت کے افتتاح کا بھی بائیکاٹ کیا ہے۔
  اگرچہ نو تعمیر پارلیمنٹ کی عمارت کے افتتاحی اجلاس سے اپوزیشن کے دور رہنے کی وجہ کچھ اور بتائی جا رہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اب ملک کی تمام چھوٹی بڑی غیر بھاجپائی سیاسی جماعتیں آئندہ پارلیمانی انتخابات کے مدنظر صف بند ہو رہی ہیں۔حال ہی میں نتیش کمار نے کانگریس لیڈر راہل گاندھی اور پارٹی کے قومی صدر کھڑگے سے مل کر یہ پیغام دیا ہے کہ اب کانگریس بھی چاہتی ہے کہ آئندہ پارلیمانی انتخابات میں اپوزیشن متحد ہو کر مقابلہ کرے۔دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کا ساتھ ملنے سے بھی یہ اتحاد قدرے مستحکم ہوا ہے۔ دہلی اور پنجاب میں آپ کی حکومت ہے اور قومی سطح پر بھی اس کے کارکن فعال ہیں۔
 بہر کیف! اب یہ طے ہو چکا ہے کہ آئندہ پارلیمانی انتخابات میں ایک کے مقابلے ایک امیدوار کا نسخہ آزمایا جائے گاتاکہ غیر بھاجپائی ووٹوں کے انتشار کو روکا جا سکے۔ نتیش کمار اس مہم کے آغازمیں ہی اپنا موقف واضح کر چکے ہیں کہ پارلیمانی انتخابات سے پہلے وزیر اعظم کے امیدوار کے اعلان کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ جب ہم موجودہ حکمراں جماعت کو حکومت سے بے دخل کرنے میں کامیاب ہوں گے تو خود بخود یہ فیصلہ کرنا آسان ہو جائے گا کہ کون سی پارٹی ملک کی قیادت کرے گی اور کس پارٹی کے لیڈر وزیر اعظم کے امیدوار ہوں گے۔ 
 نتیش کمار نے بارہا یہ بھی کہا ہے کہ اپوزیشن کے پاس ملک کی قیادت کرنے والے لیڈران کی کمی نہیں ہے ۔ درجنوں ایسے لیڈران ہیں جنہیں ایک دہائی سے زیادہ ریاستوں کی قیادت کرنے کا تجربہ ہے اور قومی سیاست میں بھی فعال رہے ہیں۔ غرض کہ ان کا اشارہ واضح ہے کہ اگر اپوزیشن اپنی اس مہم میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ آئندہ پارلیمانی انتخاب میں حکمراں جماعت کو حکومت سے بے دخل کردیتی ہے تو اپوزیشن کے درمیان لیڈرشپ کا کوئی بحران نہیں رہے گا۔
  حال میں کانگریس کی طرف سے جو اشارہ ملا ہے وہ بھی خوش آئند ہے کہ وہ قومی سیاسی جماعت ہونے کے باوجود نتیش کمار کی قیادت میں اپوزیشن اتحاد کا حصہ بنی ہے اور قومی لیڈر شپ کا فیصلہ بھی نتیش کمار کے اوپر چھوڑ رکھا ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ پارلیمانی انتخاب میں شمالی ہند کا ایک بڑا کردار ہوتا ہے کہ پارلیمانی سیٹوں میں شمالی ہند کی نصف حصہ داری ہے ۔ بالخصوص اتر پردیش ، بہار، بنگال، مدھیہ پردیش ، راجستھان اور جھارکھنڈمیں اگر اپوزیشن اتحاد قائم ہو جاتا ہے تو ملک کی سیاسی تصویر بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔ اس لئے نتیش کمار نے اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی کے لیڈر اکھلیش یادو کو بھی اس بات کے لئے راضی کر لیا ہے کہ وہ کانگریس کے ساتھ مل کر قدم بڑھائیں اور کانگریس کو بھی اشارہ دے دیا ہے کہ اتر پردیش میں اکھلیش کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں تک مایاوتی کا سوال ہے تو اب اس کا ووٹ بینک اتنا مؤثر نہیں رہا جتنا ایک دہائی پہلے ہو اکرتا تھا کیونکہ گزشتہ اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات میں حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ مایا وتی کے پائوں سے زمین کھسک چکی ہے ۔ البتہ اتر پردیش میں مسلم قیادت کے لئے آزمائش کا وقت ہوگا کہ پارلیمانی انتخاب میں ان کے ووٹوں میں جو انتشار واقع ہوتا ہے اس پر کس طرح قابو پایا جا سکتاہے۔ کیونکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اترپردیش میں کانگریس ہوں کہ سماجوادی پارٹی ان میں کوئی ایسا مسلم لیڈر نہیں ہے جو پوری ریاست میں اپنی مضبوط پکڑ رکھتا ہو۔یہی وجہ ہے کہ انتخابی موسم میں کئی علاقائی سیاسی جماعتیں مبینہ طورپر خود کو مسلم سیاست کی قیادت کادعویٰ کرنے لگتی ہیں اور امیدواروں کی کثرت کی وجہ سے ان کے ووٹ تین تیرہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔حال ہی میں اترپردیش میں میونسپل انتخاب میں یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ کس طرح مسلم ووٹوں کے انتشارنے انہیں رسوا کیا ہے۔
 غرض کہ نتیش کمار کی قیادت میں جو اپوزیشن اتحاد وجود میں آیا ہے اگر پارلیمانی انتخابات تک قائم رہا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمراں جماعت کے سامنے ایک بڑی مشکل کھڑی ہو سکتی ہے البتہ اس اتحاد کے بڑے لیڈر مثلاً شرد پوار، کانگریس کے کھڑگے، تریمول کانگریس کی ممتا بنرجی،سماجوادی پارٹی کے اکھلیش یادو، اودیشہ کے نوین پٹنایک کے ساتھ ساتھ جنوبی ہند کی علاقائی پارٹیوں کے لیڈران مثلاًشیو سیناکے ادھو ٹھاکرے اور تمل ناڈو میں اسٹالن کا رخ مثبت رہا تو آندھرا پردیش اور کرناٹک میں بھی نئی فضا قائم ہوسکتی ہے کہ کرناٹک میںحالیہ اسمبلی انتخاب میں خوش آئند نتیجہ سامنے آچکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ بارہ جون کو نتیش کمار کی دعوت پر پٹنہ میں جو اپوزیشن اتحاد کا مظاہرہ ہونے والا ہے اوریہ امید ہے کہ ۱۸؍سے زیادہ غیر بھاجپائی سیاسی جماعتوں کے لیڈران اس میٹنگ میں شامل ہونے والے ہیں۔ اگر نتیش کمار کی یہ میٹنگ حسب خواہ کامیاب ہو جاتی ہے تو قومی سطح پر ایک نئی سیاسی فضا قائم ہونے کی امید مستحکم ہو سکتی ہے۔ مگرجیسا کہ ماضی میں بھی اس طرح کی کوششیں ہوتی رہی ہیں اور عین وقت پر لیڈر شپ کے نام پر رسّہ کشی کا شکار ہوتی رہی ہیں اگر اس باربھی وہ عمل دہرایا گیا تو پھر نتیش کمار کی امیدوں پر پانی پھر سکتا ہے۔ شاید اس لئے نتیش کمار اپنا ہر ایک قدم پھونک پھونک کر اٹھا رہے ہیں اور تمام غیر بھاجپائی سیاسی جماعتوں کے قائد سے دست بستہ گزارش بھی کر رہے ہیں کہ جب تمام اپوزیشن کا مشن صرف اور صرف مرکز کی حکمراں جماعت کو حکومت سے بے دخل کرنا ہے تو تمام سیاسی جماعتوں کی آواز ایک ہونی چاہئے اور سب کے ارادے بھی نیک ہونے چاہئیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK