Inquilab Logo

چین اور یوکرین سے لوَٹنے والے طلبہ کیا کریں؟ 

Updated: March 22, 2022, 2:34 PM IST | Mumbai

نہایت نامساعد حالات کا سامنا کرنے اور ناگفتہ بہ پریشانیوں اور دشواریوں کا مقابلہ کرنے کے بعد ہی سہی، ہندوستانی طلبہ یوکرین سے لوَٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

 نہایت نامساعد حالات کا سامنا کرنے اور ناگفتہ بہ پریشانیوں اور دشواریوں کا مقابلہ کرنے کے بعد ہی سہی، ہندوستانی طلبہ یوکرین سے لوَٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ یکم مارچ کو ہندوستانی خارجہ سکریٹری ہرش وردھن شرنگلا نے اعلان کیا تھا کہ جنگ چھڑی تو یوکرین میں ۲۰؍ ہزار طلبہ موجود تھے۔ انہیں وطن واپس لانے کی کوشش کی گئی جن میں سے ۱۲؍ ہزار کو کامیابی سے ہندوستان لایا گیا۔ یہ یکم مارچ کی بات ہے۔ اس کے بعد بھی طلبہ آئے ہیں جن کی تفصیل ہمارے سامنے نہیں ہے مگر گمان غالب ہے کہ بڑی تعداد میں طلبہ کا انخلاء ہوچکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کی پڑھائی کیسے جاری رہے؟  یوکرین جنگ سے پہلے جب چین میں کورونانے غضب ڈھایا تھا تب جنوری ۲۰۲۰ء میں ہندوستان کے ۲۳؍ ہزار طلبہ چین میں تھے۔ انہیں بھی انخلاء کرنا پڑا تھا چنانچہ وہ بھی وطن واپس آگئے تھے۔ تب سے لے کر اب تک یہ لوگ آن لائن کلاسیز کے ذریعہ اپنی یونیورسٹیوں سے جڑے ہوئے ہیں مگر ایم بی بی ایس کی مکمل پڑھائی تو آن لائن نہیں ہوسکتی۔ مستقبل کے ڈاکٹروں کو پریکٹیکل کی بھی اُتنی ہی ضرورت ہوتی ہے جتنی کہ تھیوری کی۔ زیر بحث طلبہ پڑھائی جیسی پڑھائی سے گزشتہ دو سال سے محروم ہیں۔ اسی لئے انہوں نے التجا کی ہے کہ ہندوستان کے میڈیکل کالجوں میں اُنہیں پڑھائی بشمول پریکٹیکل میں شریک ہونے دیا جائے۔ اس مطالبہ کا پورا کیا جانا آسان نہیں ہے۔ اس کیلئے متعلقہ یونیورسٹیوں کی اجازت درکار ہوگی۔ کسی ایک طالب علم کو بھی تعلیم سے محروم رہنا پڑے تو یہ اپنے آپ میں بڑا نقصان ہوتا ہے اور یہ معاملہ تو کسی ایک طالب علم کا ہے نہیں بلکہ ۲۳؍ ہزار چین سے لوَٹنے والے اور ۲۰؍ ہزار یوکرین سے لوَٹنے والے یعنی کل ۴۳؍ ہزار طلبہ کا مسئلہ ہے جس کا بلاتاخیر حل کیا جانا ازحد ضروری ہے۔ چین سے لوَٹنے والے طلبہ کی بے چینی کو محسوس کیا جاسکتا ہے جنہیں وطن واپس آئے ہوئے دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ یہ لوگ آن لائن کلاسیز سے استفادہ تو کررہے ہیں مگر نیٹ ورک کا مسئلہ ہی نہیں، غیر یقینی صورتحال بھی انہیں ذہنی انتشار میں مبتلا کررہی ہے۔ وہ اپنی یونیورسٹیوں سے کئی بار رابطہ کرچکے ہیں جہاں سے اتنا ہی جواب مل سکا ہے کہ ابھی حکومت ِ چین نے غیر ملکی طلبہ کو واپس بُلانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔  ظاہر ہے کہ اس غیر یقینیت کو دور ہونا چاہئے۔ کیا اِن طلبہ کو ہندوستان میں آف لائن کلاسیز میں شریک ہونے کا موقع دیا جاسکتا ہے؟ کیا انہیں پریکٹیکل میں حاضر ہونے کی اجازت مل سکتی ہے؟ کیا ہر سمسٹر کی تکمیل پر ہونے والے امتحان میں ان طلبہ کو شریک ہونے کی کوئی سبیل نکل سکتی ہے؟ کیا کورس کی میعار مکمل ہونے پر ان کے امتحان کا راستہ ہموار کیا جاسکتا ہے؟ ان سوالوں کا جواب نہ تو طلبہ نہ ہی اُن کے والدین کے پاس ہے۔ اس کا جواب مرکزی حکومت کے پاس بھی نہیں ہے مگر مرکزی حکومت کے علاوہ کوئی اور اتھاریٹی یا ادارہ ان کی مدد نہیں کرسکتا جبکہ انہیں مدد تو ملنی چاہئے۔ ان کے والدین نے روپے فراہم کئے اور ان طلبہ نے غیر ملکی ماحول میں خود کو ایڈجسٹ کرنے کی صعوبت برداشت کی ہے۔ یہ اس لئے نہیں ہوا کہ ایک دن ایسا آئے جب اُن کے سامنے غیر یقینی صورت حال ہو۔ ہمارے خیال میںمرکزی وزارت تعلیم اور وزارت خارجہ کو اس مسئلہ کی سنگینی پر غور کرتے ہوئے طلبہ کے مطالبات پر فی الفور توجہ دینی چاہئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK