Inquilab Logo

کیا کہتی ہے آکسفم کی رپورٹ

Updated: January 17, 2023, 10:38 AM IST | MUMBAI

آکسفم ۲۱؍ غیر سرکاری تنظیموں کا مشترکہ پلیٹ فارم ہے جو ۱۹۴۲ء میں قائم ہوا تھا اور جس کا مقصد دُنیا سے غربت کو دور کرناہے

Photo: INN
تصویر:آئی این این

آکسفم ۲۱؍ غیر سرکاری تنظیموں کا مشترکہ پلیٹ فارم ہے جو ۱۹۴۲ء میں قائم ہوا تھا اور جس کا مقصد دُنیا سے غربت کو دور کرناہے۔ کوئی ملک یا طبقہ اس کی رپورٹس کو کتنا ہی ناپسند کیوں نہ کرے، ان رپورٹس کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی اس کی رپورٹ منظر عام پر آتی ہے، دُنیا بھر کے اخبارات اور نیوز چینلز پر موضوع بحث بنتی ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے اس کی تازہ رپورٹ بعنوان ’’امیر ترین لوگوں کی بقاء‘‘ کے مندرجات یا ان کی بنیاد پر خبریں اخبارات میں شائع ہورہی ہیں جو توجہ طلب ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشی زبوں حالی کی شکار دُنیا پر کووڈ کا حملہ ہوا تو کس طرح عالمی غربت میں اضافہ ہوا مگر وہ لوگ جو پہلے ہی امیر تھے، اُن کی امارت کووڈ کے دور میں بھی بڑھی جس کا نتیجہ ہے کہ مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھوں میں دُنیا کی بیشتر دولت ہے اور وہ لوگ جو غریب ہیں، اُنہیں اپنے مسائل کے حل کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ آکسفم کے مطابق دُنیا کے غریب طبقات کے سامنے شدید نوعیت کے مسائل ہیں۔ 
 اگر امارت اور غربت کی باہمی رسہ کشی کو جنگ قرار دیا جائے تو دُنیا کے غریب طبقات مفتوح ہیں جبکہ امیر ترین لوگ فاتح ہیں جن کی امارت میں ناقابل یقین اضافہ کووڈ کے دور میں ہوا ہے۔ کووڈ کے خاتمے کے باوجود امارت میں اضافہ کی نہ تو رفتار تھمی ہے نہ ہی کوئی اور تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ آکسفم کا کہنا ہے کہ دُنیا کے ارب پتیوں کی دولت میں روزانہ ۲ء۷؍ ارب ڈالرس کا اضافہ ہورہا ہے۔
 یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ جس کا روزگار چھن جاتا ہے وہ اپنی قسمت کو روتا ہے۔  قصو ر اُس کی قسمت کا نہیں بلکہ یہ استحصالی طاقتوں کا جبر ہے۔ اس میں حکومتوں کی پالیسیوں کا بھی بڑا دخل ہے جو ارب پتیوں اور مالدار طبقے کے لئے بے حد نرم ہیں۔ آکسفم کی رپورٹ کہتی ہے کہ ۲۰۲۲ء میں غذائی اشیاء فراہم کرنے والی اور توانائی کے شعبے میں سرگرم کمپنیوں نے، جو پہلے بھی کافی مالدار تھیں، غیر معمولی منافع کمایا جس کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنے شیئرہولڈروں میں ۲۷۵؍ ارب ڈالر تقسیم کئے۔ یہ کتنی بڑی رقم ہے اس کا شاید ہم اندازہ بھی نہ کرپائیں۔آکسفم کا کہنا ہے کہ ایک طرف دولت کا یہ ارتکاز جاری تھا اور دوسری طرف ۸؍ سو ملین لوگ بھوکا سونے پر مجبور تھے۔ دُنیا کی حکومتیں چاہتیں تو دولت کی نابرابر تقسیم کو روکنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی تھیں مگر یہ بنیادی کام کرنے کے بجائے انہوں نے زیادہ سے زیادہ یہ کیا کہ غریب اور متاثرہ طبقات کیلئے کھانے پینے کا انتظام کردیا جو عارضی ہی ہوسکتا تھا اس لئے عارضی ہی رہا۔ کووڈ ختم ہوا تو سہولتیں بھی ختم ہوگئیں مگر کووڈ نے غریب بستیوں اور غریب ملکوں میں معاشی بدحالی کا جو عفریت چھوڑ دیا تھا وہ آج بھی غریب تر طبقات کو ڈس رہا ہے۔ آکسفم نے لکھا ہے کہ مٹھی بھر لوگوں کی آسمان چھو‘تی امارت سے معاشی عدم مساوات ہی میں اضافہ نہیں ہوا، نسلی، صنفی اور نوآبادیاتی عدم مساوات بھی بڑھی ہے جنہیں ہم معاشی مسئلہ سمجھتے ہیں لیکن ان مسائل کی نوعیت معاشی نہیں۔ یہ سماجی مسائل ہیں دُنیا بھر میں جن کی نوعیت بھی بدل رہی ہے اور ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ 
 آکسفم کا کہنا ہے کہ بڑھتی غربت کے خاتمے کیلئے امیر ترین لوگوں سے زائد ٹیکس وصول کیا جائے جو ۵؍ فیصد ہوسکتا ہے۔ اس سے ۱ء۷؍ کھرب ڈالر کی غیر معمولی رقم جمع ہوگی جس سے دُنیا کے ۲؍ ارب لوگوں کو غربت کے دلدل سے باہر نکالا جاسکے گا۔ یہ مشورہ اچھا ہے مگر اس پر عمل کیلئے کتنے ملک تیار ہوں گے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK