Inquilab Logo

فعال کردار جو متوسط طبقہ کا طرۂ امتیاز تھا، وہ کیا ہوا؟

Updated: July 17, 2022, 10:39 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

ہر دور میں متوسط طبقے نے نہایت اہم کردار ادا کیا اور عوامی زندگی میں آسانیاں پیدا کی ہیں مگر موجودہ دور میں اس طبقے کو خدا جانے کیا ہوگیا ہے۔ ایسا لگتا ہے اسے کسی بات کی فکر نہیں رہی!

Sometimes I wonder if there is a middle class left in India, the middle class that had the values of honesty, concern and caring for each other?
کبھی کبھی مَیں سوچتا ہوں کہ کیا ہندوستان میں متوسط طبقہ باقی رہ گیا ہے وہ متوسط طبقہ جو راست بازی، فکرمندی اور ایک دوسرے کے بارے میں سوچنے جیسی اقدار کا حامل تھا؟

کبھی کبھی مَیں سوچتا ہوں کہ کیا ہندوستان میں متوسط طبقہ باقی رہ گیا ہے وہ متوسط طبقہ جو راست بازی، فکرمندی اور ایک دوسرے کے بارے میں سوچنے جیسی اقدار کا حامل تھا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان اقدار کو حرز جاں بنائے رکھنے والے افراد بہت ہیں مگر پورا طبقہ جو ان قدروں کو سینے سے لگائے ہوئے ہو، کہیں کھو گیا ہے۔
 اس کے برخلاف، جدوجہد آزادی کے دور کو یاد کیجئے۔ ۱۹؍ ویں صدی میں، ملک میں مالداروں کی تعداد مٹھی بھر تھی، باقی تمام لوگ غریب تھے۔ جب مغربی طرز تعلیم جاری ہوا،بالخصوص انگریزی تعلیم، اور جب مغربی نظام قانون رائج ہوا تب ایک تعلیم یافتہ طبقہ اُبھرا جو غریب نہیں رہ گیا تھا اور ابھی امیر بھی نہیں ہوا تھا۔ یہی طبقہ متوسط طبقہ کہلایا۔ یہ پہلا موقع تھا جب اساتذہ، اطباء، قانون دانوں، ججوں، سرکاری افسروں ، فوجی افسروں، صحافیوں اور مصنفوں کی ایک پود منظر عام پر آئی اور طبقۂ دانشوراں کہلائی۔ یہ طبقہ، وسیع تر متوسط طبقے کا مغز تھا۔ 
 انڈین نیشنل کانگریس جو جدوجہد آزادی کی قیادت کررہی تھی، میں چند ایک کو چھوڑ کر بیشتر لوگ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے تھے۔ ان میں قابل ذکر نام دادا بھائی نوروجی، گوکھلے، لاجپت رائے، تلک، سی آر داس، راجندر پرساد، پٹیل، آزاد، راج گوپال چاری، سروجنی نائیڈو، کیلاپن اور سری رامالو کے ہیں۔ جدوجہد آزادی پر اپنی تصنیف میں ڈاکٹر تارا چند نے لکھا ہے کہ آزادی کے حصول کیلئے عوام کے اجتماعی شعور کو جگانے، اُنہیں منظم کرنے اور ملک کو سامراجی طاقتوں سے نجات دلانے میں اس طبقے نے کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ اسی طبقے کی آواز تھی جس پر پورے ملک کے لوگوں نے لبیک کہا۔ کسانوں اور صنعتی اکائیوں کے کامگاروں کے اشتراک سے یہ جدوجہد ایسی تحریک میں تبدیل ہوئی اسے روکنا ممکن نہیں رہ گیا تھا۔ متوسط طبقے کے لیڈروں اور اُن کی حمایت کرنے والے عوام کی سب سے بڑی خصوصیت اُن کا بے لوث ہونا تھا۔ اُنہوں نے اپنے لئے کچھ نہیں مانگا، اور اگر مانگا تو عوام کیلئے آزادی مانگی۔ 
 یہی متوسط طبقہ آزادی کی جدوجہد کی قیادت کرتے ہوئے ملک کے ہر شعبہ کی ترقی کیلئے بھی فکرمند تھا۔ اس وقت ٹی وی نہیں تھا، انٹرنیٹ بھی نہیں تھا، اس کے باوجود خبریں تیزی سے پھیلتی تھیں۔ چمپارن ستیہ گرہ، جلیان والا باغ قتل عام، پورن سوراج قرارداد، ڈانڈی مارچ، بھگت سنگھ اور راج گرو اور سکھ دیو کی پھانسی، بھارت چھوڑو تحریک اور نیتا جی سبھاش چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی نے عوام میں جوش بھر دیا تھا کیونکہ متوسط طبقہ بیدار تھا، متحرک تھا، پُرجوش تھا۔ مگر آج؟
 آج متوسط طبقے کی خاموشی اور غیر حاضری اتنی واضح ہے کہ اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی واقعہ، کوئی خبر اور کوئی باعث تشویش امر اس طبقے کو خواب غفلت سے بیدارکرنے میں ناکام ہے۔ یہ، گوشہ گیر ہونے کی کیفیت اور خود ساختہ تنہائی سے باہر آنے کو تیار نہیں ہے۔ بے قابو مہنگائی، ٹیکسوں کا بھاری بوجھ، زبردست مہنگائی، ۲۰۲۰ء کی داخلی ہجرت (مہاجر مزدوروں کی بے چینی)، کووڈ سے بے شمار لوگوں کی موت، پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں کی زیادتی، حقوق انسانی کے تحفظ سے چشم پوشی، نفرتی تقریریں، جعلی خبریں، مسلمانوں اور عیسائیوں کو الگ تھلگ کرنے کی منصوبہ بند کوشش، آئینی قدروں کی پامالی، جبر پر مبنی قوانین، جمہوری اداروں کے بے اثر کئے جانے کی حقیقت، جمہوری طور پر منتخبہ حکومتوں کا بے دخل کیا جانا، چین کے ساتھ ایسا سرحدی تنازع جس پر کوئی بات نہیں ہوتی، وغیرہ وغیرہ ، متوسط طبقے کو کسی خبر سے اُلجھن نہیں ہوتی۔ یہی کیفیت تسلسل کے ساتھ اس ملک میں جاری اور برقرار ہے۔
  آئیے اسے چند حالیہ واقعات کے ذریعہ سمجھنے کی کوشش کریں۔ فروری ۲۰۲۱ء میں ناناپٹولے نے مہاراشٹر اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ قانون یہ ہے کہ نئے اسپیکر کا انتخاب خفیہ بیلٹ پیپر کے ذریعہ ہو مگر اس کے بجائے کھلی ووٹنگ کے ذریعہ الیکشن کروایا گیا۔ گورنر نے، جو اتراکھنڈ میں بی جے پی حکومت کے  سابق وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں اور جن کی ذمہ داری صرف اتنی تھی کہ نئے اسپیکر کے انتخاب کی تاریخ طے کرتے، الیکشن رُکوا دیا اور اس کا سبب یہ بتایا گیا کہ اسپیکر کے الیکشن کا طریقہ کار متنازع ہے اور عدالتوں میں زیر سماعت ہے۔ انہوں نے ۱۷؍ مہینوں تک الیکشن رُکوایا اور اسمبلی بغیر اسپیکر کے چلتی رہی۔ بی جے پی کی مدد سے ایکناتھ شندے نے حکومت کیلئے مسائل پیدا کئے اور ۳۰؍ جون کو وزیر اعلیٰ بن گئے۔ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد اُنہوں نے نئے اسپیکر کے انتخاب کیلئے تاریخ طے کرنے کی گزارش کی اور گورنر صاحب نے فوری طور پر اس گزارش کو قبول کرلیا جس کے نتیجے میں ۴؍ جولائی کو اسپیکر کا انتخاب کھلی ووٹنگ کے ذریعہ عمل میں لایا گیا۔ اب اُنہوں نے وہ وجہ بیان نہیں کی جو ماضی میں کرچکے تھے کہ انتخاب کا طریقہ متنازع ہے اور عدالتوں میں زیر سماعت ہے۔ اس موضوع پر چند ایک اخبارات میں اداریئے ضرور لکھے گئے مگر بڑی حد تک خاموشی رہی، کسی نے کچھ نہیں کہا۔ متوسط طبقہ تو جیسے خواب خرگوش میں مست تھا۔
 ایک اور مثال: جی ایس ٹی کونسل کی ۴۷؍ ویں میٹنگ میں (جس پر بی جے پی کا غلبہ تھا)، اناج، مچھلی، پنیر، شہد، گڑ، گیہوں کا آٹا وغیرہ پر ۵؍ فیصد جی ایس ٹی لگا دی گئی۔ یہی نہیں طباعت، چمچوں، چمچے کے ساتھ استعمال ہونے والے کانٹوں، پنسل شارپنر، اور ایل ای ڈی لیمپ پر جی ایس ٹی کی شرح ۱۲؍ سے ۱۸؍ فیصد کردی گئی۔ یہ اضافہ ایسے وقت میں ہوا جبکہ ہول سیل اشیاء کی مہنگائی ۱۵ء۸۸؍ فیصد تھی اور کنزیومر پرائس انڈیکس کا افراط زر ۷ء۰۴؍ فیصد تھا۔ لائنس کلب، مہیلا گروپس، چیمبر س آف کامرس، ٹریڈ یونین، صارف تنظیمیں وغیرہ کیلئے یہ اہم سوال تھا مگر حیرت انگیز طور پر یہ سب بھی خاموش رہے۔
 کیا قومی اُمور سے متوسط طبقے نے خود کو الگ کرلیا ہے اور روزانہ نیٹ فلیکس کی فلموں اور آئی پی ایل کے میچوں سے لطف اندوز ہوتا ہوا اپنی زندگی گزار رہا ہے اور اسے حالات کی یکسر فکر نہیں ہے؟ کسانوں نےآندولن کیا، جن نوجوانوں کو فوجی بننا ہے وہ جدوجہد کررہے ہیں، مٹھی بھر صحافی، سماجی خدمتگار اور وکلاء اپنی سی کوششوں میں مصروف ہیں مگر متوسط طبقہ کچھ کہنے سننے پر آمادہ نہیں۔ کیا اس طبقے کو نہیں معلوم کہ اُن کے اشتراک اور تعاون کے بغیر یہ کوششیں اتنی پُراثر نہیں ہوسکتیں جتنی کہ پہلے ہوا کرتی تھیں یا جیسا کہ میں نے مثال دی، آزادی کی جنگ میں اس نے قائدانہ کردار ادا کیا تھا؟ کیا متوسط طبقہ یہ باتیں جو کہی جارہی ہیں، سن بھی رہا ہے یا نہیں؟ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK